"NNC" (space) message & send to 7575

تو کیا ہوتا؟

کیا کتاب ہے؟گزرے ہوئے واقعات کا ری پلے یوں سامنے آ جاتا ہے جیسے آپ اپنے گزارے ہوئے دن‘ ایک بار پھر سے گزار رہے ہیں اور جب پیش نظر واقعات کو آپ نے خود کبھی دُور سے دیکھا ہو تو بڑے مشکل مراحل آنے لگتے ہیں۔ ایک طرف مصنف اپنی یادیں تازہ کر رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف آپ کے اپنے ذہن میں تڑ تڑ تڑ یادوں کی کھمبیاںسر اٹھانے لگتی ہیں۔ ان دنوں میں ایسی ہی کیفیت سے گزر رہا ہوں۔کتاب کا نام ہے ’’سینیٹرایس ایم ظفر کی کہانی‘ ان کی اپنی زبانی‘‘۔ شاہ جی سے میرا تعلق نصف صدی کو محیط ہے۔ پچھلے تیرہ چودہ برسوں سے میں ان کا پڑوسی بھی بن چکا ہوں۔ شاہ جی نے قومی تاریخ کے دھارے میں 1965ء میں چھلانگ لگائی اور ماشاء اللہ ابھی تک تیرتے چلے آ رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب ‘ تیراکی کے اس طویل سفر کے 9برسوں کا احاطہ کرتی ہے۔ کہانی انہوں نے سینٹ آف پاکستان کی رکنیت سے شروع کی ہے۔ پاکستان کی باقی تاریخ کی طرح یہ عرصہ بھی پٹخنیاں دینے والے اُتار چڑھائو سے بھرا ہے۔تفصیل کا مزا کتاب پڑھنے میں ہی آ سکتا ہے۔ میں نے صرف تاریخ کے تلاطم میں سے جھلکتے‘ چند مناظر پہ نظریں جمانے کی کوشش کی ہے۔ ایسی کوشش کرنا اس وقت بہت صبر آزما ہو جاتا ہے جب آپ نے خود بھی کہیں کہیں سٹیج پر ہونے والے ڈرامے کے مناظر‘ پردے کے پیچھے سے دیکھے ہوں۔ انسانی فطرت ہے کہ جب کسی کو ایسا موقع مل جائے تو وہ اپنے آپ کوڈرامے کا حصہ بنانے سے باز نہیں آتا۔ اکثر یُوں بھی ہوا کہ میری طرح کسی نے ڈرامے کو دروازے سے جھانک کر دیکھ لیا اور کسی مصنف کی تحریر میں اس کا ذکر آ گیا تواپنے آپ کو صرف دیکھی ہوئی ایک جھلک کے سہارے‘ ڈرامے کا حصّہ بنانا شروع کر دیا اور چند لمحوں کے بعد اصل مصنف اوجھل ہو گیا اور پڑھنے والے نے خود کو مرکزی کردار کی صورت میں دیکھنا شروع کر دیا اور پھر مصنف سٹیج سے باہر اور پڑھنے والا سٹیج پر۔ میں کوشش کر کے اپنے آپ کو شاہ جی کی یادداشتوں سے باہر رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ کئی بار خود کو دھکّے دے کر بھی پیچھے ہٹانا پڑا مگر شاہ جی کی یادوں کو آلودگی سے بچاتے ہوئے کتاب پڑھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ میں نے آپ کے لئے اس کتاب میں سے جنرل پرویزمشرف کی اقتدار سے رخصت کی چند جھلکیاں منتخب کی ہیں۔ شاہ جی یہ کہانی 30دسمبر 2004ء سے شروع کرتے ہیں جب پرویزمشرف نے وردی اتارنے کا وعدہ توڑا۔ پاکستان کے اندر تو پہلے ہی جنرل صاحب کا وقار خاک میں مل چکا تھا۔ اس برہنہ وعدہ خلافی پر ان کے امریکی سرپرست بھی سٹپٹا اٹھے اور اس زمانے کی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس نے لکھا کہ ’’مشرف کے اقتدار کا باقی وقت غیریقینی ہو گیا۔‘‘ جب کوئی سفارتکار یہ لکھے تو غیریقینی کی جگہ ’’ختم‘‘ پڑھنا چاہیے۔اس غیریقینی عرصے کے دوران پرویزمشرف نے بہت ہاتھ پائوں مارے لیکن جس جھاڑی کو وہ پکڑتے‘ ہاتھ سے پھسل جاتی۔ ہاتھ پائوں مارنے کی انہی کوششوں کے دوران انہوں نے 2007ء کی شروعات میں امریکیوں سے مدد مانگی اور بے نظیرشہید سے رابطے کی راہ نکالنے کی درخواست کی۔ کونڈی اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ 8 اگست 2007ء اسلام آباد میں امریکی سفیراین پیٹرسن نے آدھی رات کو انہیں جگا کر فون پر بتایا کہ ’’میڈم! وہ ایمرجنسی لگانے والے ہیں۔‘‘ امریکی وزارت خارجہ اس اطلاع پر فکرمند ہو گئی اور کونڈی کے الفاظ میں ’’ہم نے سوچا کہ مشرف کو اس ’’احمقانہ‘‘ فیصلے سے روکا جائے۔‘‘ شاہ جی نے Stupid کا ترجمہ ’’بچگانہ اقدام‘‘ کیا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے‘ اخبار کے قارئین کو یہ بزرگانہ ترجمہ پسند نہیں آئے گا۔ بزرگ تو میں بھی ہوں مگر اتنا نہیں۔ مختلف ذرائع سے خبر کی تصدیق کر کے سیکرٹری خارجہ نے امریکی وقت کے مطابق رات کے 2بجے فون پر پرویزمشرف سے کہا: ’’آپ کوئی مشکل فیصلہ کرنے والے ہیں؟‘‘ جس پر جنرل مشرف نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک عام ایمرجنسی کا نفاذ ناگزیر ہو گیا ہے لیکن انتخابات میں بروقت ہی کرائوں گا۔‘‘ جواب میں سیکرٹری خارجہ نے کہا ’’مسٹر پریذیڈنٹ! آپ اپنا اعتماد اور اعتبار مکمل طور سے کھو چکے۔‘‘ سیکرٹری خارجہ نے مختلف دلائل دے کر مشرف کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ اس مشورے کے نتیجے میں پرویزمشرف نے دوبارہ الیکشن لڑنے کا اعلان تو کر دیا لیکن ایمرجنسی پر خاموشی اختیار کی جس پر صدر بش نے اپنی سیکرٹری خارجہ سے کہا کہ ’’شاباش! تم نے فی الحال معاملے کو سنبھال لیا ہے۔‘‘ 2007ء میں پرویزمشرف نے امریکہ سے درخواست کی کہ وہ بی بی شہید کے ساتھ اُن کے تعلقات بہتر بنانے میں مدد کریں۔ امریکیوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور ارادہ کر لیا کہ جو وقت اب ہمیں مل گیا ہے‘ اس میں ہم جنرل پرویزمشرف اور بے نظیر کے درمیان ’’ڈیل‘‘ مکمل کرا دیں۔ کونڈی لکھتی ہیں: ’’یہی بہترین حل تھا۔ آخر ان دونوں کے نظریات ‘ دہشت گردی کے متعلق ایک دوسرے کے قریب تر ہیں۔ جبکہ نوازشریف کے متعلق گمان ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ مشرف اور بی بی شہید کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی ذمّہ داری اسسٹنٹ سیکرٹری برائے ایشین افیئرز رچرڈبائوچر کو دی گئی۔اس نے مفاہمت کے لئے تیزی کے ساتھ دوطرفہ ملاقاتیں شروع کر دیں۔وہ بی بی شہید سے لندن میں ملا کرتا اور اسلام آباد میں مشرف سے۔ بالآخر وہ ان دونوں کو بات چیت پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ دونوں میں پہلی ملاقات جولائی کے آخر میں متحدہ عرب امارات میں ہوئی جس کے بعد امریکی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ مشرف اور بے نظیر شہید میں تیزی کے ساتھ حتمی سمجھوتہ کرایا جائے۔ رچرڈ بائوچر نے طوفانی دورے کر کے آخر کار معاملات کو دھیرے دھیرے طے کر لیا۔ جن نکات پر سمجھوتہ ہوا وہ یہ تھے۔ -1اس سوال پر بات چیت کی جائے کہ پرویزمشرف اپنی وردی انتخابات سے پہلے یا فوراً بعد اُتار دیں گے۔ -2بے نظیر شہید اور ان کے حواریوں کے خلاف‘ بشمول ان کے خاوند کے‘ کرپشن کے مقدمات کب تک دفن کر دیے جائیں گے؟ -3 کیا بے نظیر بھٹو کو تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے کی آئینی گنجائش دی جائے گی؟ -4کیا مشرف بی بی شہید کو انتخابات سے قبل پاکستان آنے کی سہولت مہیا کریں گے؟‘‘ کونڈی لکھتی ہیں کہ ’’جب انہوں نے معاملات کو بہتری کی طرف جاتے دیکھا تو دونوں (پرویزمشرف اور بی بی شہید)سے علیحدہ علیحدہ فون پر بات ہوئی لیکن دونوں ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کر رہے تھے ۔‘‘ سیکرٹری خارجہ کئی فون کالوں کے بعد اختلافات میں کسی حد تک کمی لانے میں کامیاب ہو گئیں۔بی بی شہید اور مشرف کے درمیان طے ہونے والی باتوں میں یہ شامل تھا کہ سارے اقدامات آئینی حدود کے اندر رہ کر کیے جائیں گے۔ ظاہر ہے اس میں ایمرجنسی کا نفاذ شامل نہیں تھا۔ لیکن مشرف نے بی بی شہید کو اعتماد میں لیے بغیر اچانک ایمرجنسی نافذ کر دی جس پر بی بی شہید کا شدیدردِّعمل ہوا اور انہوں نے یہ کہہ کر پاکستان واپسی کا فیصلہ کر لیا کہ ’’مشرف کے ساتھ ڈیل ختم ہو گئی ہے۔‘‘گویابی بی شہید نے جب پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تو ڈیل اس وقت ختم ہو چکی تھی اور بی بی شہید کی واپسی کے فیصلے کو مشرف نے اپنے لئے چیلنج سمجھا اور بعد کے واقعات کے پسِ منظر میں بی بی شہید کی شہادت کے واقعے کو دیکھیںتو کئی سوچوں کے راستے کھلتے ہیں اور آخر میں یہ انکشاف کہ بی بی شہید ‘ پرویزمشرف کے ساتھ یہ طے کر چکی تھیں کہ وہ 2007ء کے انتخابات میں حصّہ نہیں لیں گی۔ گویا تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر پابندی برقرار رہتی۔ یہ سوچنے کا کام بھی میں قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ اگر دونوں بڑے لیڈروں کے وزیراعظم بننے کی پابندی برقرار رہتی تو کیا ہوتا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں