’’آیئے آئیے خان صاحب! آج کچھ دیر سے آئے۔ خیریت تو رہی؟‘‘ ’’وہی پٹرول کا مسئلہ۔ مہنگا ہوتا ہے تو ریٹ فوراً لگ جاتے ہیں ۔ سستا ہوتا ہے تو نوٹیفکیشن کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ’’اور ان دو تین دنوں میں اربوں روپے اِدھر سے اُدھر ہو جاتے ہیں۔‘‘ ’’وزیراعظم بھی عجیب ہیں۔ اعلان کر دیا اور عملدرآمد نہیں کرا پائے۔ اس حکومت کا بھی کوئی ڈھنگ نہیں۔ پانچ سال پورے کرنے کا جشن منا رہے ہیں مگر حکومت کرنا نہیں سیکھے۔‘‘ ’’چھوڑیئے خان صاحب! جانے والوں سے اب کیا کہنا؟‘‘ ’’سنا ہے منگنی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔‘‘ ’’جی ہاں! قائد اعظمؒ کی روح تڑپ گئی ہو گی۔ زبردست روشنی تھی۔‘‘ ’’روشنی تو عباس ٹائون میں بھی ہوئی تھی۔ میرا خیال ہے قائد اعظمؒ کی روح اس پر زیادہ تڑپی ہو گی؟‘‘ ’’آخر بابائے قوم ہیں۔ اپنے بچوں کو شعلوں میں جلتے اور ملبے میں دب کر مرتے دیکھ کر دل تو دکھتا ہو گا۔ لیکن پھر سوچتا ہوں اپنے ملک میں مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں مرتے ہوئے دیکھ دیکھ کر ان کے اعصاب بھی شل ہو گئے ہوں گے۔ وحشت کا یہ کھیل کوئی کہاں تک دیکھے ؟ اور وہ بھی قائد جیسے مہذب اور شائستہ انسان کے اعصاب۔‘‘ ’’کراچی اب قائد اعظمؒ کے قابل نہیں رہ گیا۔‘‘ ’’بھائی! یہ کیا بات ہوئی؟‘‘ ’’بات تو ہے۔ قائد اعظم نے مسلمانوں کو ہندوئوں کے ظلم سے بچانے کے لئے پاکستان بنایا۔ اب اسی پاکستان میں مسلمان‘ مسلمانوں کا خون اتنی فراوانی سے بہا رہے ہیں کہ ہندو کیا بہاتے؟ پاکستان اب جس طرح کی قتل گاہ بن گیا ہے‘ یہ بابائے قوم کے خواب کی تعبیر تو نہیں ہو سکتی۔‘‘ ’’یہ بحث ہمارے بس کا روگ نہیں۔ عباس ٹائون کا بتائو کل کتنے شیعہ مرے؟‘‘ ’’شیعہ نہیں پاکستانی شہید ہوئے ہیں اور ان کی تعداد45ہے۔ لیکن لوگ بتاتے ہیں کہ ملبے میں ابھی تک بہت سے لوگ دبے پڑے ہیں۔ ان کی گنتی مشکل ہے۔‘‘ ’’اچھا! تو آج کھانے کا کیا اہتمام ہے؟‘‘ ’’آپ کو پتہ ہے ۔ اب تو عادت ہو گئی ہے کہ ہڑتال کے آثار دیکھتے ہی گھر میں راشن لا کے رکھ لیتے ہیں۔ آج بھی حسب معمول دعوت اُڑائیں گے۔ یہ بتائو۔ آج کسی کے مرنے کی خبر آئی؟‘‘ ’’ٹارگٹ کلنگ کے کوٹے میں تو پانچ سات ہو چکے ہوں گے۔ جس طرح کی اوسط جا رہی ہے‘ شام تک دس پندرہ تو ہو ہی جائیں گے۔ ویسے دیکھا جائے تو کراچی‘ ایشیا میں نمبر ون ہو گیا ہو گا؟‘‘ ’’ارے جناب! دنیا میں اور بھی کئی شہر ہیں۔ بدامنی تو ہر جگہ ہوتی ہے۔‘‘ ’’مگر ہمارے شہر کی طرح نہیں۔ دنیا میں کوئی شہر ایسا نہیں ہے جہاں انسانی قتل اس درجے پر روزمرہ کا معمول بن چکا ہو۔ کم از کم اس معاملے میں تو ہمارے شہر کی برتری مان لیں۔‘‘ ’’اس لحاظ سے دیکھیں تو اور بھی کئی معاملات میں ہم بہت آگے ہیں۔ مثلاً جتنی ہڑتالیں کراچی میں ہوتی ہیں‘ وہ بھی کسی اور شہر کے نصیب میں نہیں۔‘‘ ’’اس طرح تو بسیں جلانے میں بھی ہمارا ہی ریکارڈ ہو گا۔‘‘ ’’ارے بھائی! کوئی اچھا ریکارڈ بتائو۔‘‘ ’’ریکارڈ ریکارڈ ہوتا ہے۔ اچھا ہو یا برا۔‘‘ ’’الیکشن کی بتائیں۔ کب ہو رہا ہے؟ ہو بھی رہا ہے یا نہیں؟‘‘ ’’اس معاملے میں بھی ریکارڈ ہمارے ہی پاس ہے۔ ہمیں آخری دن تک پتہ نہیں ہوتا کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں؟بے یقینی کی یہ حالت ہے کہ 2008ء کے الیکشن میں ایک صاحب ووٹ ڈال کر نکلے اور باہر آ کر جو پہلا واقف کار انہیں ملا‘ اس سے پوچھنے لگے ۔ بتائو الیکشن ہوں گے یا نہیں؟‘‘ ’’بے یقینی تو اب ہماری عادت بن گئی ہے۔ کسی پر بھروسہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ’’کوئی کرے بھی تو کیسے؟ سیاسی پارٹیوں ہی کو دیکھ لیں۔ کسی پارٹی کی تقریب‘ پروگرام کے مطابق نہیں ہو سکتی۔ لوگ پہلے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ مقررہ پروگرام بیچ میں رہ جاتا ہے۔ بعض تقریبات میں تو لوگ کرسیاں بھی اٹھا کر بھاگ جاتے ہیں۔ مگر بھائی یہ بتائیں کہ رات جب عباس ٹائون کے لوگ مدد کے لئے پکار رہے تھے‘ اس وقت پولیس کہاں تھی؟‘‘ ’’منگنی کی تقریب میں دیگوں کی حفاظت کر رہی تھی۔‘‘ ’’رینجرز بھی تو ہے۔ وہ آ سکتی تھی۔‘‘ ’’رینجرز بھی ڈیوٹی پر تھی۔‘‘ ’’اس کی ڈیوٹی کیا تھی؟‘‘ ’’وہ دیگوں کی حفاظت کرنے والی پولیس کی نگرانی کر رہی تھی۔پولیس کو اکیلا چھوڑ دیا جاتا تو منگنی کے مہمان بھوکے واپس جاتے۔‘‘ ’’آل پارٹیز کانفرنس کی کہیے۔ اس میں تو طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ ہو گیا تھا۔ کب شروع ہو رہے ہیں مذاکرات؟‘‘ ’’میرا تو خیال ہے شروع ہو گئے۔‘‘ ’’ایسی تو کوئی خبر نہیں سنی۔ ‘‘ ’’عباس ٹائون میں جو کچھ ہوا‘ وہ خبر نہیں؟‘‘ ’’خبرضرور ہے۔ دہشت گرد تو اسی طرح مذاکرات کرتے ہیں۔ آپ نے پڑھا نہیں ‘ سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر شہلا رضا نے کیا کہا ہے؟‘‘ ’’انہوں نے کیا کہا؟‘‘ ’’انہوں نے کہا ہے مذاکرات مبارک ہوں‘ ہماری لاشیں حاضر ہیں۔‘‘ ’’اگرطالبان کی طرف سے یہ مجوزہ مذاکرات میں پہلا مکالمہ ہے تو پھر سلسلہ آگے کیسے بڑھے گا؟‘‘ ’’ہمارے مذاکراتی سیاستدان‘ طالبان کے حق میں ایک اور قرارداد پاس کریں گے جو میڈیا پر باربار نشر ہو گی اور پھر طالبان کا جواب آئے گا۔‘‘ ’’وہ کس طرح؟‘‘ ’’یہ مت پوچھئے کس طرح؟ یہ پوچھئے کہ کہاں پر؟ یہ طالبان کی مرضی ہے کہ وہ دھماکے کرنے کے لئے کس جگہ کا انتخاب کرتے ہیں؟‘‘ ’’کیا واقعی وہ پاکستان میں جہاں چاہیںبموں کی زبان بول سکتے ہیں؟‘‘ ’’بالکل! سکتے ہیں کیا؟ وہ بول کے دکھا رہے ہیں۔ ہمارے تمام سیاسی رہنمائوں نے ہماری قسمت کا حال ان کے سپرد کر دیا ہے کہ طالبان جو سلوک چاہیں ہمارے ساتھ کریں۔‘‘ ’’وہ تو پھر گردنیں ہی اتاریں گے۔ کیونکہ ان کے نزدیک جو اسلام کی طالبانی تعبیرنہیں مانتا‘ اس کی گردن اڑانا جائز ہے۔‘‘ ’’وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟‘‘ ’’ان کا ایک مشن ہے۔وہ اپنے مشن کے لئے کام کرتے ہیں۔‘‘ ’’اور ہمارے سیاستدان کس کے لئے کام کرتے ہیں؟‘‘ ’’کمیشن کے لئے۔‘‘ ’’اچھا؟تو پھر ہماری لاشیں ان کے لئے بھی حاضر ہیں۔جیبوں سے پیسہ یہ نکال لیتے ہیں اور جسموں سے جانیں دہشت گرد نکال لیتے ہیں۔‘‘