پاکستان کی سیاسی جماعتوںکی قسمت بدل سکتی ہے‘ اگر ان میں سے کوئی اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے میں پہل کر جائے۔سیاسی مارکیٹ میں اگلے چند روز کے اندر ایک تازہ تازہ مال آنے کو ہے۔ مجھے اس کا علم نہیں کہ کسی تیزطرار پارٹی لیڈر نے پہلے ہی سے بکنگ کرا رکھی ہو لیکن اس بات کا یقین ہے کہ بکنگ ابھی کنفرم نہیں ہوئی۔ دستیابی کے مواقع سب کے لئے تو نہیں مگر بیشتر پارٹیوں کے لئے ابھی تک کُھلے ہیں۔ اگر اس ’’مال‘‘ کو پارٹی کہوں‘ تو اس کا نام پاکستان مسلم لیگ ہے‘ جو غالباً رجسٹرڈ بھی ہے اور اگر شخصیت کا نام بتائوں‘ تو وہ ہیں ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف۔ پاکستان مسلم لیگ پانچ سال پہلے‘ ملک کی حکمران تھی۔اس کے بڑے بڑے لیڈر آج بھی یا حکومت میں ہیں یا بڑی بڑی پارٹیوں میںاعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ چوہدری برادران تو الاّماشااللہ آج کل بھی حکومت میں ہیں اور چوہدری پرویزالٰہی جو وزیراعظم بن رہے تھے‘ ڈپٹی وزیراعظم بہرحال بن چکے ہیں اور موجودہ حکومت کے سب سے بااثر اور بااختیار وزیر ہیں۔ ان کے علاوہ چوہدری شجاعت حسین‘ مشاہد حسین سید‘ چوہدری وجاہت حسین‘ کامل علی آغا‘ غرض مشرف لیگ کے بڑے بڑے درخشندہ ستارے‘ آج پیپلزپارٹی کی عوامی حکومت کے آسمان پر جگمگا رہے ہیں۔جنرل صاحب کے قریبی مصاحب اور ان کے خصوصی ترجمان‘ اپنی ایک ذاتی جماعت کھول کے سیاست کے کاروبار میں اچھے مواقع کی تلاش میں ہیں۔ ان کی زیادہ تر امیدوں کا انحصار عمران خان پر ہے‘ جو کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ کے اپنی فصل لگانا چاہتے ہیں۔ مگر انہوں نے اپنی پارٹی کے انتخابات کے بعد جو نئی قیادت تیار کی ہے‘ اسے دیکھ کر یقینا پرانے کرپٹ پاپیوں نے سکھ کا سانس لیا ہو گا۔ عمران خان کی بہرحال یہ شہرت ہے کہ وہ بڑے سخت گیر انسان ہیں اور جو ایک بار ٹھان لیتے ہیں‘ پھر پیچھے نہیں ہٹتے۔ انہوں نے ایک سال سے زبردست نعرے لگا کر نوجوانوں میں جوش و خروش پیدا کیا اور لوگ امیدیں لگا کر بیٹھ گئے تھے کہ خان صاحب آئیں گے‘ تو ایک ایک کرپٹ سیاستدان کو الٹا لٹکا دیں گے۔ الٹا لٹکنے کے خوف سے‘ بیشتر کرپٹ سیاستدانوں کی نیندیں اڑ گئی تھیں اور وہ ڈرنے لگے تھے کہ اگر کہیں عمران خان وزیراعظم بن گئے‘ تو پتہ نہیں ہمارا انجام کیا ہو گا؟ مگر جب سے خان صاحب کے جماعتی انتخابات کے نتائج سامنے آئے‘ سب کے خوف دُور ہو گئے اور کرپٹ سیاستدانوں نے اطمینان کا سانس لیا کہ خان صاحب کی جماعت میں بھی ہم جیسوں کا بول بالا ہے۔ یہ بھی ہمارے جیسے ہیں۔ ان سے کیا ڈرنا؟اب وہ اقتدار میں آ بھی جائیں‘ تو ہمارے ہی ساتھی خان صاحب کے دست و بازو ہوں گے۔ جہاں جہانگیرترین جیسے دوست بیٹھے ہیں‘ وہاں یا تو ہمارے لیے بھی جگہ نکل آئے گی اور جگہ نہیں بھی نکلے گی‘ تو دھندہ بہرحال مل ملا کے کریں گے۔ ہو سکتا ہے جنرل پرویز مشرف کو بھی اپنے دوست کی پارٹی پسند آ جائے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔جنرل صاحب کو کسی اور طرف دیکھنا پڑے گا۔ ایک اور پارٹی جہاں جنرل صاحب کے نیازمندوں کی بہتات ہے‘ اس کا نام مسلم لیگ (ن) ہے۔ وہاں بھی ان کے نورتنوں میں سے اچھے اچھے نگ سجے ہوئے ہیں۔ جنرل صاحب کے بارے میں انتہائی عرق ریزی سے کتاب لکھنے والی ماروی میمن‘ وہیں براجمان ہیں اور اگر یہ خبردرست ہے کہ نوازشریف کی سیاسی جانشین مریم ہوں گی‘ تو ماروی میمن ‘ جنرل صاحب کے لیے پارٹی کے اندر جگہ بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ مریم کے بارے میں افواہ ہے کہ آئندہ پنجاب کی وزیراعلیٰ وہی بنیں گی۔ ایسی صورت میں اور کچھ نہیں‘ تو جنرل صاحب کو اعجازشاہ کی جگہ بٹھایا ہی جا سکتا ہے۔ وفاقی حکومت میں چونکہ نوازشریف وزیراعظم ہوں گے۔ وہاں جنرل صاحب کے لیے کام کرنا مشکل ہو گا۔ اگر انہیں ن لیگ میں جگہ ملی‘ تو پھر عہدہ صوبائی ہی مل سکے گا۔ ضروری نہیں کہ جنرل صاحب کا سیاسی سفر یہیں پہ ختم ہو جائے۔ ان کی جستجو کے لئے بہت سے راستے موجود ہیں۔ ہو سکتا ہے ن لیگ کے بجائے وہ پیپلزپارٹی کا رخ کر لیں۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری مفاہمت تو کیا؟ معافی کے بادشاہ ہیں۔ وہ ایک رات میں دشمنی کو دوستی میں بدل ڈالتے ہیں۔ جنرل صاحب نے تو ان کے ساتھ کوئی برائی بھی نہیں کی۔ اگر کسی کو شکوہ ہو سکتا ہے‘ تو خود جنرل مشرف کو ہو گا کہ زرداری صاحب نے اُن کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ وہ ایوانِ صدر میں دوسری بار اپنے عہدے پر کام کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے کہ انہیں گارڈ آف آنر کی دعوت ملی۔ جنرل صاحب یقینا خوش ہوئے ہوں گے۔ اس دعوت کا یہ مطلب لیا ہو گا کہ مجھے آئندہ کے لئے صدر بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ مگر جیسے ہی گارڈ آف آنر سے فارغ ہو کر جنرل صاحب کار میں بیٹھے‘ تو وہ انہیں ایئر پورٹ لے گئی۔خیر! جنرل صاحب نے جوں توں کر کے بُرا وقت بھی گزار لیا۔ مگر اتنا بُرابھی نہیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے اُن کا بھرپور ساتھ دیا اور موقع بہ موقع انہیں قوم سے مخاطب ہونے کے مواقع فراہم کرتا رہا۔اگر جنرل صاحب نے اپنا مستقبل پیپلزپارٹی سے وابستہ کرنا چاہا‘ تو مجھے پوری امید ہے کہ ان کا فراخ دلی سے خیرمقدم کیا جائے گا۔ ویسے بھی جب تک بلاول وزارتِ عظمیٰ کے لئے مطلوبہ عمر تک نہیں پہنچتے‘ صدر زرداری ایک وزیراعظم کی تلاش میں رہیں گے۔ وہ بادشاہ آدمی ہیں‘ چوہدری پرویزالٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم تو بنا ہی چکے۔ان دنوںچوہدری صاحب چاہیںتو جنرل صاحب کو وزیراعظم بنوا سکتے ہیں۔ ویسے بھی چوہدری صاحب پر ایک قرض ہے۔ انہوں نے جنرل صاحب کو باوردی صدر بنوانے کا وعدہ کئی بار دہرایا ہے۔ باوردی صدر نہ سہی‘ بے وردی وزیراعظم سہی۔ چوہدری صاحب کا وعدہ تو پورا ہو جائے گا۔ سب جانتے ہیں کہ اگر انتخابات ہو گئے‘ تو آئندہ حکومت بھی مخلوط بنے گی۔ کسی پارٹی کے پاس فیصلہ کُن اکثریت نہیں ہو گی اور اسے اکثریت حاصل کرنے کے لئے مختلف جماعتوں اور لوٹوں کی ضرورت پڑے گی اور لوٹے اکٹھے کرنے میں جنرل مشرف کا کوئی ثانی نہیں۔ انہوں نے تو مختلف جماعتوں کے لوٹے جمع کر کے‘ پوری کی پوری پارلیمنٹ ہی بنا ڈالی تھی۔ اکثریت حاصل کرنا اُن کے لیے کونسا مشکل کام ہو گا؟ اگر وہ مختلف جماعتوں میں گئے ہوئے اپنے پرانے لوٹوں کو ہی جمع کر کے واپس لے آئیں‘ تو بھاری اکثریت مہیا کر سکتے ہیں۔ اگر بات بن گئی‘ تو زرداری صاحب کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے جنرل صاحب اتنے لوٹے جمع کر لائیں کہ پیپلزپارٹی کو دوتہائی اکثریت حاصل ہو جائے۔ لوٹوں کے بل بوتے پرحکومت بنانے اور پانچ سال چلانے کا کامیاب تجربہ ہم پنجاب میں دیکھ رہے ہیں۔ 2008ء کے انتخابات میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں دو بڑی جماعتیں آئی تھیں۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنی اکثریت نہیں تھی۔ لیکن اس نے ایسی ہنرمندی سے لوٹوں کی لوٹ مچائی کہ سب دیکھتے رہ گئے اور ن لیگ نے پچاس سے زیادہ لوٹے اکٹھے کر کے اکثریت حاصل کر لی۔ اگر صوبے میں اتنے لوٹوں کے ساتھ حکومت چلائی جا سکتی ہے‘ تو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کیوں نہیں کی جا سکتی؟ وزیراعظم پرویزمشرف کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ حل کرنے کے لئے ایک انتہائی اہل لیڈر بھی مل سکتا ہے۔ اگر ان دنوں شہبازشریف کے بیانات غور سے پڑھے جائیں تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا کوئی بہت بڑا منصوبہ بنا چکے ہیں۔ اسی لئے وہ بار بار اپنے بیانات میں کہتے ہیں کہ وہ تھوڑے ہی وقت میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر کے ملک میں روشنی ہی روشنی کر سکتے ہیں۔ شہبازشریف کے نیک ارادوں کو دیکھتے ہوئے اُمید کی جا سکتی ہے کہ اگر انہیں وفاق میں پانی اور بجلی کی وزارت دے دی جائے‘ تو وہ اپنی کارکردگی کا سکہ جمانے کے لئے یہ چیلنج قبول کر لیں گے۔پاکستان میں اب وہی حکومت کامیاب رہے گی‘ جو لوڈشیڈنگ ختم کرے گی۔ شہبازشریف لوڈشیڈنگ ختم کر کے پیپلزپارٹی کی حکومت کو اتنی نیک نامی دلا دیں گے‘ جتنی وہ خود اب تک نہیں لے سکی۔یہ سب کچھ اسی وقت ہو سکتا ہے‘ جب جنرل صاحب وزیراعظم بنیں۔ لیکن پیپلزپارٹی میں جیالوں کے اتنے جمگھٹے ہیںکہ وہ کسی باہر کے آدمی کو اتنے بڑے عہدے پر دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔ جیالوں کی ایک خاص عادت ہے۔ ان کی پارٹی میں اگر کوئی شامل ہونا چاہے‘ تو اسے دھکّے دیتے ہیں اور چھوڑ کے جانا چاہے‘ تو اُسے لات مارتے ہیں۔سوچ رہا ہوں‘ اب جنرل صاحب کی منجی اٹھا کر اور کہاں رکھوں؟ پھر کسی دن رکھ دیں گے۔