"NNC" (space) message & send to 7575

شاید کوئی معجزہ ہو جائے

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کی اس خبر کی تردید کی گئی ہے کہ 6 اور 8فروری کو شمالی اور جنوبی وزیرستان میں جو فضائی حملے ہوئے تھے‘ وہ اصل میں پاکستان نے خود کئے تھے اور ان کا الزام امریکہ پر ڈال دیا گیا۔ پاکستانی ترجمان نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ‘حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔وضاحتی بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ رپورٹ میں جن علاقوں میں مختلف مواقع پر حملوں کا حوالہ دیا گیا ہے‘ ان دنوں سکیورٹی فورسز نے قبائلی علاقوں میں فضائی حملوں سمیت کسی قسم کا کوئی آپریشن نہیں کیا۔ یاد رہے ان حملوں میں القاعدہ کے دو اہم کمانڈر ابوماجد العراقی اور شیخ ابو وقاص سمیت 9افراد ہلاک ہوئے تھے اور وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے سے باقاعدہ احتجاج بھی کیا تھا۔ڈرون حملوں کو ابتدا میں امریکہ تسلیم نہیں کرتا تھا اور کہا یہ جاتا تھا کہ پاک فوج نے یہ کارروائی کی ہے اور پاک فوج بھی ان مبینہ حملوں کی ذمہ داری تسلیم کر لیا کرتی تھی۔ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے لکھا کہ اس بار پاکستانی اپنی کارروائیوں کو خفیہ رکھنے کے لئے امریکہ کو الزام دے رہے ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسی نے پہلے حملے کے بعد ہی یہ نشاندہی کر دی تھی کہ حملہ امریکہ نے نہیں کیا۔ امریکی عہدیداروں کا خیال ہے کہ یہ پاکستانی فوج کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ لیکن پاکستان کے ایک فوجی عہدیدار نے اس رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے پاس ڈرون حملوں کے لئے مطلوبہ تکنیکی مہارت موجود نہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عمومی طور پر امریکہ کسی بھی ڈرون حملے سے 3 منٹ پہلے پاکستان کو اطلاع دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ کا پہلا شکار سچائی ہوتی ہے۔ ڈرون حملوں کی کہانی بھی اسی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔ جب یہ حملے شروع کئے گئے اور دہشت گردوں کے بڑے بڑے لیڈر ان کا نشانہ بنے‘ تو ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ حملے کس طرف سے ہو رہے ہیں؟ اس وقت وہ امریکہ کو ان حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا کرتے تھے اور پاکستان اس کی تردید کرتے ہوئے الزام خود پر لے لیا کرتا تھا کہ یہ حملے پاکستان نے کئے ہیں۔ آج معاملہ اس کے الٹ ہے۔ قبائلی علاقوں میں حملے ہوئے ہیں مگر ان کی ذمہ داری اٹھانے کو کوئی تیار نہیں۔ امریکی ذرائع ابلاغ پاکستان پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ حملے اس نے خود کئے تھے۔ پاکستان کی طرف سے تردید آپ نے پوری تفصیل سے پڑھ لی ہے۔ ان حملوں میں 9افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ مگر ان ہلاکتوں کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر بحث چل رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان ناکردہ گناہوں کا الزام اپنے سر لیا کرتا تھا اور اب یہ وقت ہے کہ امریکہ خود حملے کر کے‘ ان کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے۔ یہ جنگ کے بدلے ہوئے حالات کی نشانیاں ہیں۔ پہلے امریکہ اور پاکستان اس جنگ میں اتحادی ہوا کرتے تھے‘ اب دونوں کے مقاصد بدل گئے ہیں۔امریکہ جنگ سے نکلنے کی تیاری کر چکا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ خود جنگ میں سے نکل رہا ہے لیکن افغانستان سے نہیں نکل رہا۔ یہاں پر اس کی تیرہ چودہ ہزار فوج موجود رہے گی جو وہاں پرمقامی افغانوں کی مدد کرے گی جو جنگ سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد نہ صرف ملک کا کنٹرول سنبھالیں گے بلکہ اپنے باغیوں کا مقابلہ بھی خود کریں گے جن کے ساتھ اب تک اتحادی فوجیں ابھی تک لڑ رہی ہیں۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں اس کے حواریوں کی مدد کے لئے پاکستان موثر کردار ادا کرے۔ دوسرے لفظوں میں مستقبل کی پٹھو حکومت کو بچانے کے لئے پاکستان‘ اس کے مخالفوں سے لڑے اور اگر پاکستان ایسا نہیں کرتا‘ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان ‘ طالبان کی حمایت کرنا چاہتا ہے اور اس صورتحال سے بچنے کے لئے پاکستان کو اس کی سرحدوں کے اندر ہی جنگ میں الجھا دیا جائے تاکہ وہ کابل میں قائم کی گئی امریکہ کی حاشیہ بردار حکومت کے لئے مشکلات پیدا نہ کر سکے۔ اس مقصد کے لئے دونوں طرف سے کام ہو رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان پر سفارتی اور اقتصادی دبائو ہے کہ وہ انخلا کے بعد افغانستان میں امریکی مقاصد کے تحت کارروائی کرے اور دوسری طرف یہ تیاریاں ہیں کہ اگر پاکستان امریکہ کے حواریوں کی مدد کے لئے افغانستان کے میدان جنگ میں نہیں اترتا بلکہ طالبان کی حمایت کرتا ہے‘ تو پھر اسے اندرون ملک اتنا الجھا دیا جائے کہ وہ کابل میں بنائی گئی امریکہ نواز حکومت کے لئے خطرات پیدا نہ کر سکے۔ سفارتی اور معاشی دبائو کا عمل اس وقت جاری ہے جبکہ پاکستان کو داخلی طور پر الجھانے کے لئے اندرونی محاذ کھولنے کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی دعوت درحقیقت سوچی سمجھی سکیم کا حصہ ہے۔ تحریک طالبان پاکستان اور ملا عمر کے زیرقیادت لڑنے والے افغان طالبان الگ نہیں ہیں۔ درحقیقت یہ ایک ہی مقصد کے تحت لڑ رہے ہیں اور ان کی کمان بھی ایک ہے۔ تحریک طالبان پاکستان والے ہمارے ملک میں رہ کر بھی خطبہ ملاعمر کا پڑھتے ہیں۔ احکامات بھی ملا عمر کے مانتے ہیں۔ لیکن جنگی ضروریات کے تحت وہ اپنے آپ کو الگ الگ ظاہر کرتے ہیں۔ اگر ہمیں ابھی تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی‘ تو پھر ہمیں اپنے مستقبل کے لئے اللہ سے دعا مانگنی چاہیے۔ مذاکرات کی دعوت ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت دی گئی۔ جس کا واضح مقصد دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قوم کو تقسیم کرنا تھا۔ ملالہ یوسف زئی پر حملے کے وقت پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف جس یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا‘ اس سے طالبان یقینا پریشان ہوئے تھے اور انہیں دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑی۔ مگر مذاکرات کی دعوت دے کر انہوں نے اسی متحد پاکستانی قوم کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ کہاں وہ وقت کہ پاکستانی عوام دہشت گردوں کو ختم کرنے کے مطالبے کر رہے تھے اور کہاں آج کے حالات کہ ہمارے ملک کی تمام نمائندہ سیاسی پارٹیاں نہ صرف طالبان سے غیرمشروط مذاکرات کے مطالبے کر رہی ہیں بلکہ انہیں دہشت گرد کہنے سے بھی گریزاں ہیں۔ انہوں نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں طالبان کے ان وحشیانہ حملوں کی بھی مذمت نہیں کی‘ جن میں وہ ہمارے بے گناہ شہریوں کو بے رحمی سے ہلاک کرتے ہیں ۔ ہماری مساجد‘ امام بارگاہوں اوردرگاہوں کو بموں سے اڑاتے ہیں اور پچھلے چند روز کے اندر ان کے حملوں میں 300 سے زیادہ پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔ لیکن ہمارے سیاسی لیڈروں کو یہ سب کچھ نظر نہیں آ رہا۔ وہ طالبان کے ان گناہوں کا حوالہ دینا بھی گوارہ نہیں کرتے‘ جو انہوں نے ہمارے 35ہزار سے زیادہ شہریوں اور 5ہزار سے زیادہ فوجی افسروں اور جوانوں کو شہید کر کے‘ کئے ہیں۔ کسی بھی قوم کے لئے وہ انتہائی بدنصیبی کا وقت ہوتا ہے‘ جب وہ عین جنگ کے دوران یکجہتی سے محروم ہو جائے اور اس بات پر آپس میں اختلاف کرنے لگے کہ اس کا اصل دشمن کون ہے؟ بھارت ہم سے 5گنا سے بھی بڑا ہے لیکن اسے پہچاننے میں ہم نے کوتاہی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارت کے ساتھ کشیدگی یا جنگ کے حالات پیدا ہوتے ہیں‘ تو ہم فوراً متحد ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم اپنے دشمن کے بارے میں قطعاً بے یقینی کا شکار نہیں ہوتے۔ لیکن اگر چند ہزار دشمنوں کے بارے میں بھی قوم کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہو جائے اور ان کی پہچان کے سوال پر بھی آپس میں جھگڑے ہونے لگیں‘ تو 18کروڑ کی قوم بھی جنگ لڑنے کے قابل نہیں رہ جاتی۔ہمارے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ان حالات میں صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے سیاسی اور مذہبی رہنمائوں کو راہ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان میں وہ عقل اور نظر پیدا ہو جائے‘ جس سے وہ جنگ کے پہلے اصول کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ یاد تو نہیں آ رہا مگر ممکن ہے اس بار کوئی معجزہ ہو جائے۔ ---------------

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں