نوازشریف اور عمران خان ‘ بھرپور انتخابی مہم پر نکلے ہوئے ہیں۔ وزرا ء بروقت الیکشن کا یقین دلا رہے ہیں۔ مگر بعض وزیر بے یقینی پیدا کرنے کا موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ کل ہی وزیرداخلہ رحمن ملک نے کہا کہ’’ اگر دھماکے اسی طرح ہوتے رہے‘ تو الیکشن کیسے ہوں گے؟‘‘ پیپلزپارٹی ابھی انتخابی مہم میں پوری طرح نہیں اتری۔ ٹیلی ویژن پر اس کی اشتہاری مہم تک شروع نہیں ہوئی جبکہ تحریک انصاف کی زوروں پر ہے۔ نہ ہی اس کے لیڈروں نے‘ اس طرح جلسے شروع کئے ہیں‘ جیسے ن لیگ اور تحریک انصاف کے ہو رہے ہیں۔ صدر زرداری نے کچھ جلسے ضرور کئے ہیں مگر وہ انتخابی مہم سے زیادہ صدر زرداری کی رابطہ عوام مہم لگتے ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی پیپلزپارٹی خاص سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ مولانا فضل الرحمن کی کانفرنسیں بظاہر انتخابی سرگرمیاں لگتی ہیں۔ مگر حقیقت میںوہ اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ شاید وہ کسی انتخابی اتحاد کے لئے اپنا وزن بڑھانے کی کوشش میں ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکیں۔ ایم کیو ایم حلقہ بندیوں کے چکر میں پھنسی رہی مگر اب لگتا ہے کہ وہ بھی انتخابی تیاریوں کی طرف متوجہ ہونے لگی ہے۔ حزب اختلاف کی طرف سے نگران حکومت کے لئے وزرائے اعظم کے نام تجویز کر دیئے گئے ہیں‘ جن میں سے ایک نام چنا جا سکتا ہے۔ لیکن جو تین نام سامنے آئے ہیں‘ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقصد‘ پیپلزپارٹی کو مخمصے میں ڈالنا ہے۔ ویسے اگر پیپلزپارٹی رسول بخش پلیجو کے نام سے اتفاق کر لے‘ تو جواب میں ن لیگ کو مخمصے میں ڈالا جا سکتا ہے۔ ہرچند ن لیگ نام تجویز کر بیٹھی ہے لیکن پلیجو صاحب واقعی نگران وزیراعظم بن گئے‘ تو نوازشریف کے لئے‘ صدر زرداری اور عمران خان کو مشکلیں پیدا کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ یہ کام ان کے اپنے نامزدوزیراعظم خوش اسلوبی سے کر لیں گے۔ قیاس آرائیاں اس وقت اچھی لگیں گی‘ جب الیکشن کا یقین ہو جائے گا۔ مجھے تو اپوزیشن کے مجوزہ نام دیکھ کر ہی شک ہو رہا ہے کہ الیکشن پھسل کر آگے یا بہت ہی آگے نہ چلے جائیں۔ جن دو جج صاحبان کو نگران وزیراعظم بنانے کی تجویز دی گئی ہے‘ وہ دونوں ہی اس سیاسی عہدے کی ضروریات مشکل ہی سے پوری کر سکیں گے۔ میں نے بہت سے نگران وزرائے اعظم دیکھے ہیں اور ان کی درگت بنتے بھی دیکھ رکھی ہے۔ ان میں سے دو نگران وزرائے اعظم تو میرے ذاتی دوستوں میں سے تھے۔ مصطفی جتوئی سر سے پیر تک سیاستدان تھے۔ اپنے صوبے کے وزیراعلیٰ رہ چکے تھے۔ وفاقی وزارت کا بھی تجربہ رکھتے تھے۔ اس کے باوجود انہیں ہر وقت شکایات او ر الزامات کا سامنا تھا۔ ایک طرف ان کے مخالفین ٹانگ کھینچ رہے تھے‘ تو دوسری طرف جس سیاسی اتحاد کے وہ سربراہ تھے‘ وہ بھی ان کی ٹانگ کھینچ رہا تھا۔حالانکہ اس وقت 8ویں ترمیم موجود تھی‘ جس کے تحت سارے اختیارات ایوان صدر میں مرتکز تھے اور ایک بے اختیار وزیراعظم کی مخالفت کرنا ‘ بے معنی مشق تھی۔ مگر پاکستانی رواج کے مطابق مخالفت کرنے کے لئے ’’نام ہی کافی ہے۔‘‘ یعنی اگر آپ صدر یا وزیراعظم ہیں‘ تو پھر اپوزیشن کے لئے آپ ایک فطری ہدف بن جاتے ہیں۔جتوئی صاحب بھی اپنے منصب کے جھٹکے برداشت کرنے پر مجبور تھے۔دوسرے نگران وزیراعظم مرنجاں مرنج ملک معراج خالد تھے۔ انہیں پہلے ہی دن سے پتہ تھا کہ وہ صرف دکھاوے کی چیز ہیں‘ اصلی سیاست صدر فاروق لغاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی پوری کابینہ کو صدر کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا تھا۔ خود یا تو کابینہ کی رسمی صدارت کر لیتے یا مختلف تقریبات میں دل بہلاتے رہتے۔ ان کی کابینہ میں ہمارے دو صحافی بھی گھس بیٹھے تھے اور عموماً تقریروں کا شوق وہی پورا کیا کرتے۔ وہ دونوں صحافی بھائی‘ زور اس پر دیا کرتے تھے کہ نگران حکومت کی عمر میں دو سال کا اضافہ کر دیا جائے تاکہ وہ احتساب کا شوق پورا کر سکیں۔ لیکن یہ بہانہ تھا۔ اصل میں وہ دونوں ہی دو سال تک وزارت کے جھولوں میں جھولنے کے مزے لینا چاہتے تھے۔ صدر لغاری اس طرف مائل تو تھے مگر حالات ان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ حالات کے ساتھ نگران وزیراعظم بھی اس تجویز کی حمایت سے گریزاں تھے۔ غالباً ملک صاحب پاکستان کے واحد سیاستدان تھے‘ جو اقتدار میں آ کر بھی‘ اقتدار سے بیگانہ رہے۔ جب انہیں صوبے کا وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا‘ تب بھی انہیں اقتدار میں دلچسپی نہیں تھی۔ حالانکہ اس وقت وہ باقاعدہ منتخب وزیراعلیٰ تھے۔ لیکن گورنر کھر جو کہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہ چکے تھے‘ اختیارات چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔ وزیراعلیٰ کی موجودگی میں بھی وہ خود ہی سارے احکامات جاری کرتے۔ اس زمانے میں یہ لطیفہ مشہور ہو گیا تھا کہ وزیراعلیٰ کابینہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے پہنچے‘ تو گورنر کے ملٹری سیکرٹری نے ہال کے دروازے پر انہیں بتایا کہ ’’سر! اندر کابینہ کی میٹنگ ہو رہی ہے۔ آپ ذرا ویٹنگ روم میں بیٹھ جائیں۔‘‘ وزیراعظم تو وہ نگران کے طور پہ بنے تھے اور وہاں بھی سارے اختیارات صدر لغاری کے پاس تھے۔ چنانچہ وزارت اعلیٰ کا تجربہ ان کے کام آیا اور انہوں نے خود ہی وزارتی امور میں مداخلت سے گریز کیا۔ آج کے حالات مختلف ہیں۔غلام اسحق خان اور فاروق لغاری کی طرح موجودہ صدر کے پاس نہ 8ویں ترمیم کے اختیارات ہیں اور نہ ہی وہ انتظامی اختیارات جو مذکورہ صدور کے پاس ہوا کرتے تھے۔ اس بار ایوان صدر میں آصف زرداری بیٹھے ہوں گے‘ جن کے پاس محض آئینی اختیارات ہیں۔وہ نگران وزیراعظم کو کسی دبائو میں نہیں لا سکیں گے کیونکہ سارے اختیارات اس کے پاس ہوں گے۔ لیکن یہ تو آئینی صورتحال ہے۔ عملاً اختیارات صرف اس کے پاس ہوتے ہیں‘ جو انہیں استعمال کرنے کا ہنر جانتا ہو۔ تینوں مجوزہ وزرائے اعظم میں صرف رسول بخش پلیجو ایک ایسے شخص ہیں‘ جو نقطے میں سے نکتہ نکالنے کے ماہر ہیں۔ باقی رہ گئے دو جج صاحبان‘ تو ان شریف لوگوں کا سیاسی فری سٹائل کشتی میں کیا کام؟ آپ نے اگر ٹیلیویژن پر ریسلنگ دیکھی ہے‘ تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ایک موقع پر آٹھ آٹھ دس دس پہلوان اکٹھے‘ ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس ہمہ گیر کشتی میں ریفری کی جو درگت بنتی ہے‘ وہی حال ہمارے نگران وزیراعظم کا ہو گا۔ خواہ ایک جج صاحب بنیں یا دوسرے‘ بدمست پہلوانوں کے فری سٹائل مقابلے میں‘ جسے پاکستان میں الیکشن کہا جاتا ہے‘ نگران وزیراعظم کبھی دھکا کھا کے ادھر گریں گے اور کبھی دوسری طرف۔ ذرا سوچئے! ایک طرف نوازشریف‘ مولانا فضل الرحمن‘ عمران خان‘ اسفند یار ولی‘ الطاف حسین اور آفتاب شیرپائو جیسے جغادری پہلوان ہوں گے اور دوسری طرف ایک پھرتیلا نقاب پوش پہلوان چھ چھ پہلوانوں سے ایک ساتھ نمٹ رہا ہو گا۔ وہاں نگران وزیراعظم کیا کرے گا؟ اور وہ بھی ریٹائرڈ جج۔ نقاب پوش پہلوان کے بارے میں مجھے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ آپ خود ہی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ وہی پہلوان ہے‘ جس نے اکھاڑے میں سارے پہلوانوں کا 5 سال تن تنہا مقابلہ کیا ہے اور کسی ایک کو بھی دائو لگانے کا موقع نہیں دیا۔ چوہدری نثار کو یقینا پتہ ہو گا کہ انہوں نے نگران وزرائے اعظم کی جو فہرست پیش کی ہے‘ وہ حقیقی نہیں۔ ان کی فہرست دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ شاید الیکشن نہیں ہو رہے۔ ورنہ مجوزہ شخصیتوں میں ایک نام تو ایسا ہوتا‘ جو موجودہ مشکل ترین حالات میں ایک بااختیار نگران وزیراعظم کو پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کر سکتا۔ اب حکومت کے مجوزہ ناموں کا انتظار کرنا چاہیے۔ اگر وہاں سے بھی اسی طرح کے دو تین نام آ گئے‘ تو پھر الیکشن اور نگران وزیراعظم کو بھول جایئے‘ کسی اور چیز کا انتظار کیجئے۔خدا لگتی کہیے کہ نگران وزیراعظم کے لئے مسلم لیگ کے تجویز کردہ نام دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ انتخابات ہو جائیں گے؟ لگتا تو نہیں پر شاید ----