اہلِ ادب کو ان کا ٹی ہائوس واپس مل گیا۔ لاہور کی دیگر تہذیبی و ثقافتی یادگاروں پر جو گزری‘ ٹی ہائوس اس سے الگ نہیں تھا۔صرف ایک معاملے میں ٹی ہائوس خوش نصیب رہا کہ اسے دوبارہ زندگی مل گئی۔ ورنہ باقی علم و ادب کے جو بے شمار مراکز اس شہر میں جگمگایا کرتے تھے‘ اب یادوں کی دھندلاہٹوں میں گم ہو چکے ہیں۔ فصیلوں اور دروازوں کے اندر آباد‘ قدیم شہر کے چاروں طرف باغات ہوا کرتے تھے۔ ہر باغ دروازے کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ لوہاری دروازے کے باغ میں مشاعرے ہوتے‘ تو بھاٹی کے باہر کُشتیاں‘ موچی دروازے کا باغ سیاسی جلسوں کے لیے مخصوص تھا اور جب کوئی جلسہ نہ ہوتا‘ تو وہاں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی اپنی منڈلی جمایا کرتے۔ علم و ادب کی محفلیں لاہور کے اسی مجموعی تہذیبی وجود کا حصہ تھیں۔ مزنگ کا مین بازار ہو یا لوہاری دروازے کے باہر کمیٹی کی لائبریری۔ مال روڈ کے ریسٹورنٹس ہوںیا گورنمنٹ کالج کی مجلسِ ادب۔ شعر‘ افسانے‘ تنقیداور دیگر اصنافِ ادب کے حوالے سے‘ جابجا محفلیں جما کرتیں۔ کئی اخباروں میں ایک کالم انہی محفلوں کے لیے مخصوص ہوا کرتا۔ ان میں انتظارحسین کا کالم بہت مقبول تھا۔ٹی ہائوس کی ایک اپنی شخصیت تھی۔ آزادی سے پہلے اس کا نام انڈیا ٹی ہائوس تھا۔ آزادی کے بعد یہ پاک ٹی ہائوس ہو گیا۔ لیکن پورے برصغیر میں اسے ٹی ہائوس کے نام ہی سے یاد کیا جاتا ۔ ممبئی سے کراچی تک اور لاہور سے دلی تک‘ کسی بھی شاعر‘ ادیب یا دانشور کے سامنے ٹی ہائوس کا نام آتا‘ تو وہ فوراً سمجھ لیتا کہ پاک ٹی ہائوس کا ذکر ہے۔ جب کاروباری سرگرمیوں نے انسان کے تہذیبی وجود کو نگلنا شروع کیا‘ تو ایسے چھوٹے چھوٹے مراکز ایک ایک کر کے کاروباری سرگرمیوں کی نذر ہونے لگے۔ کافی ہائوس گیا۔ وائی ایم سی اے ریسٹورنٹ گیا۔ شیزان گیا۔ چائنیز گیا۔ صرف ایک ٹی ہائوس سسکتا‘ ٹمٹماتا‘ اپنے تھکے اور افسردہ مہمانوں کی میزبانی کرتا رہا۔ جیسے جیسے اہلِ ادب ترقی کرتے اور خوشحال آبادیوں میں منتقل ہوتے گئے‘ ٹی ہائوس سے ان کا زمینی اور طبقاتی فرق بڑھتا چلا گیا اور پھر ٹی ہائوس چلانے والے خاندان کا سربراہ زاہد حسین‘ اپنے بچوں کے سامنے لاجواب ہونے لگا۔ جس جگہ ٹی ہائوس واقع تھا‘ وہاں ٹائروں کی منڈی بن چکی تھی اور نوجوان بچے اپنے باپ سے پوچھنے لگے کہ بزرگوں کی اس نشانی کو بچانے کے لیے وہ کب تک بھوکے مریں گے؟ یہ 1998ء کا زمانہ تھا۔ زاہد حسین نے مجھ سے اپنی مشکلات کا ذکر کیا تو میں نے پوچھا کہ حالات بہتر کیسے ہو سکتے ہیں؟ تو اس نے کہا کہ اگر یہاں کی تجدید و تزئین ہو جائے تو کاروباری حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ میں نے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سے ذکر کیا‘ تو انہوں نے فوراً اپنے صوابدیدی فنڈ سے ایک معقول رقم اس مقصد کے لیے بھجوا دی۔لیکن حالات پھر بھی نہ بدلے۔ آخر ٹی ہائوس ختم ہو گیا اور شاعر و ادیب جن کے لیے ٹی ہائوس ایک یادگار کا درجہ اختیار کر گیا تھا‘ اسے بچانے کے لیے اپنی سی کوشش کرنے لگے۔ لیکن زرومال کی دوڑ کے اس زمانے میں لکھنے پڑھنے والوں کے پاس اتنے وسائل کہاں؟ محفلوں کی لڑیاں ٹوٹ گئیں۔ مکالموں کے موتی بکھر گئے۔ شناسا چہروں کی یکجائی کے سنہرے لمحے ناپید ہو گئے۔ عطاء الحق قاسمی الحمرا کے سربراہ بنے‘ تو انہوں نے وہیں ایک ٹی ہائوس جمانے کی کوشش کی مگر انہیں ناصر زیدی کے سوا کوئی نہ ملا۔ الحمرا کے تجربے کے بعد عطاء الحق قاسمی نے پھر سے ٹی ہائوس کو زندہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اس ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ظاہر ہے‘ بہت کٹھن مراحل آئے لیکن آخر کار عطا نے شریف برادران کو شہر کی یہ تہذیبی شناخت بحال کرنے پر آمادہ کر لیا۔ میاں نوازشریف نے نوجوان حمزہ شریف کو یہ ذمہ داری سپرد کی کہ وہ ٹی ہائوس کو ازسرنو بحال کر کے‘ شہر اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اہل ادب کے لیے بحال کر دیں۔ حمزہ نے اپنے بزرگوں کی ہدایت کے مطابق ٹی ہائوس کی بحالی پر بھرپور توجہ دی۔ انہیں اس کام میں کافی مشکلات عبور کرنا پڑیں۔ آخرکار انہوںنے عہدحاضر کی ضروریات کے مطابق ایک نیا اور بانکا ٹی ہائوس تیار کر کے نوازشریف کی خدمت میں پیش کر دیا اور آج صبح نوازشریف نے سجاسجایا ٹی ہائوس بدست خود ‘ اہل ادب کے حوالے کیا۔ رواج کے مطابق یہ تقریب میڈیا کی تقریب بن گئی۔ مگر چند ایک پرانے ٹی ہائوسیے بھی اس ہجوم میں دکھائی دیئے۔ جن میں انتظار حسین‘ مسعود اشعر‘ یونس جاوید‘ تبسم کاشمیری‘ عبداللہ حسین‘ پروین ملک‘ خواجہ زکریا اور چند ایک دوسرے شاعر‘ ادیب اور نقاد اپنے پرانے ٹی ہائوس کو نئے رنگ میں دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ ظاہر ہے عطاء الحق قاسمی اپنی کوششوں کے اس نتیجے کو دیکھ کر پھولے نہیں سما رہے تھے۔ نئے پاک ٹی ہائوس میں ان نامور ادیبوں‘ شاعروں اور افسانہ نگاروں کی تصویریں جابجا آویزاں ہیں۔ بہتر ہوتا تصویروں کے انتخاب میں دو چار پرانے ٹی ہائوسیوں کو شامل کر لیا جاتا۔خیر! ٹی ہائوس بحال ہو چکا ہے۔ تصویروں کا انتخاب ہوتا رہے گا اور وہ اپنی جگہ لگتی رہیں گی۔ لیکن ایک بات کا ابھی سے خیال کر لیا جائے تو اچھا ہے اور وہ یہ کہ کسی ایسے کاروبار کو‘ جو تاریخی اور تہذیبی حیثیت بھی اختیار کر چکا ہو‘ سرکاری انتظام میں چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اسے ادیبوں اور شاعروں کی کوئی کمیٹی بھی نہیں چلا سکتی۔ مجھے یاد ہے جب تجدیدوتزئین کے لیے نوازشریف نے 3لاکھ روپے بھجوائے تھے‘ تو یہ چھوٹی سی رقم بھی زاہدحسین کے لیے وبال جان بن گئی تھی اور کئی شاعر اور ادیب آ کے زاہد حسین کو مالکانہ انداز میں ڈانٹنے لگے تھے کہ اب تمہارے پاس ہمارا پیسہ آ گیا ہے‘ فرنیچر اور برتنوں پر کھل کے خرچ کرو۔ زاہد بیچارا فریادیں کرتا پایا گیا کہ ’’میاں صاحب مجھ سے اپنے پیسے واپس منگوا لیں۔ میں اتنے زیادہ ادیبوں اور شاعروں کی نوکری نہیں کر سکتا۔‘‘ میاں صاحب نے پھر سے بھاری رقم خرچ کر کے ٹی ہائوس ازسرنو بحال تو کر دیا۔ اب ادیب اور شاعر خود کو بجا طور پر اس کا مالک سمجھیں گے۔ مجھے نہیں معلوم حمزہ شہباز کی رکھی ہوئی انتظامیہ ‘ اپنے ’’مالکان‘‘ کو کس طرح مطمئن کرے گی؟ میری سمجھ میں ایک ہی بات آ رہی ہے کہ ٹی ہائوس کا انتظام ہوٹلنگ کی کسی بڑی کمپنی کو دے دیا جائے اور جو خرچ ضلعی انتظامیہ اس پر کرے گی‘ اسے سبسڈی کی شکل میں مذکورہ کمپنی کو اس شرط پر دیا جائے کہ وہ ادیبوں اور شاعروں کو رعایتی نرخوں پر چائے اور کھانا مہیا کرے گی۔ وہ کمپنی شاید اپنی ساکھ کی خاطر مطلوبہ معیار قائم رکھ سکے ۔ خدمات بھی مہیا کرتی رہے اور ٹی ہائوس بھی چلتا رہے۔ مگرایک بنیادی مسئلہ پھر بھی رہے گا کہ انتظامیہ یہ فیصلہ کس طرح کرے گی کہ ادیب ‘ شاعر کون ہے اور ٹائرفروش کون؟ جب مال روڈ پر ایک شاندار ایئرکنڈیشنڈ ریسٹورنٹ میں رعایتی نرخوں پر اعلیٰ درجے کے مشروبات اور غذائیں دستیاب ہوں گی‘ تو اردگرد کے صحت مند خوش خوراک ڈشکروںکو کون روکے گا؟ عطاء الحق قاسمی کا تن و توش دیکھ کر پہلے سے کرسی پر بیٹھا پہلوان تو ہو سکتا ہے‘ جگہ چھوڑ دے۔ انتظار حسین کے لیے کون اٹھے گا؟ کسی نہ کسی مرحلے پر کلب کی طرز پر ادیبوں‘ شاعروں اور دیگر اہل قلم کے لیے ممبرشپ کارڈ بنانا پڑیں گے اور ٹی ہائوس میں کلب کی طرز پر داخلہ ممبروں تک محدود کرکے ٹی ہائوس کو بچایا جا سکے گا۔ ورنہ ’’ہر وقت‘ ہرایک کے لیے‘‘، کی بنیاد پر ٹی ہائوس چلانا مشکل ہو گا۔ حمزہ شہباز اور ان کے مشیروں کو ابھی سے علمی اور ادبی مرکز بحال کرنے کی غرض سے تیار کئے گئے اس شاندار ریسٹورنٹ کو سنبھالنے کا بندوبست بھی کر لینا چاہیے۔ورنہ چند ہفتوں کے بعد یہ جگہ بھی داتا کی نگری کا ایک اور لنگر بن کر رہ جائے گی۔ٹی ہائوس بنانا بے شک ایک بڑا کام ہے۔ مگر اسے بچانا اس سے بھی بڑا کام ہے۔