اسلام ‘ درندوں کو انسان بنا دیتا ہے۔ یہ کونسا اسلام ہے جو انسانوں کو درندے بنا رہا ہے؟ جوزف کالونی کی بات بعد میں کروں گا‘ پہلے درندگی کے ان سانحوں کو تو یاد کر لیں جن میں مارنے یا مرنے والے کسی دوسرے مذہب سے نہیں تھے‘ سب کے سب مسلمان تھے۔ اعظم طارق سے لے کر صادق گنجی تک مختلف مسالک کے علمائے کرام‘ نمایاں افراد اور عام شہری گولیوں کا نشانہ بنے۔ مساجد میں بموں سے نمازیوں کے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے دیواروں اور چھتوں پر چپکایا گیا۔ امام بارگاہوں کو تباہ کیا گیا۔ جلوسوں پر حملے کئے گئے۔ بستیوں میں بم چلا کے سینکڑوں مسلمان شہریوں کو ہلاک اور برباد کیا گیا۔ اسلام کا نام لے کر پاکستانی فوج پر حملے ہو رہے ہیں اور پاک فوج اپنی ہی ریاست سے بغاوت کرنے والے مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں پر مجبور ہے اور پھر وہ بھی مسلمان ہیں جو ہماری فوج کے افسروں اور جوانوں کو اغوا کر کے ان کی گردنیں کاٹتے ہیں اور پھر وہ جو لاپتہ ہوتے ہیں اور ان کی لاشیں دورازکار مقامات پر لاوارث پائی جاتی ہیں‘ وہ سب بھی مسلمان ہوتے ہیں۔ کیا یہی وہ اسلام ہے جس کی بنیاد پر ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا؟ کیا یہی وہ اسلام ہے جسے نافذ کرنے کا مختلف مذہبی جماعتیں دعویٰ کرتی ہیں؟جو اپنوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھتے ہوں‘ ان سے اقلیتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ اقلیتوں کے ساتھ بھی ہم اپنوں جیسا سلوک ہی کر رہے ہیں۔ جیسے اپنوں کو مارتے ہیں‘ ویسے ہی انہیں بھی مارتے ہیں۔ اپنوں کے گھر ہم بموں سے اڑاتے ہیں۔ جیسے کوئٹہ میں اڑائے اور چند روز پہلے کراچی میں ہنستے بستے گھروں کو مسمار کر کے سینکڑوں مسلمانوں کو ہلاک و زخمی کیا۔ عباس ٹائون کسی ایک فرقے یا مذہب سے تعلق رکھنے والوں کا محلہ نہیں تھا۔ یہ مجموعی طور پر مسلمانوں کا محلہ تھا جس میں شیعہ‘ سنی‘ بریلوی‘ اہلحدیث‘ غرض سب ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ انہیں بموں کا نشانہ بنانے والے بھی مسلمان تھے۔ ان کا اپنا بھی کوئی مسلک ہو گا۔ لیکن یہ کیسے مسلمان اور یہ کیسا مسلک ہے کہ اپنے ہی ہم مذہبوں کو ایسی بے رحمی سے عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں سمیت ہلاک کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ بلکہ ان درندہ صفت لوگوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان کا مذہب اجازت ہی نہیں‘ ہدایت دیتا ہے کہ دوسرے مسلک کے مسلمانوں کو ہلاک کرو۔ چند ہی روز پہلے پشاور میں جس مسجد میں بم چلاکے درجنوں نمازیوں کو ہلاک و زخمی کیا گیا وہ بھی سب مسلمان تھے اورایسے مسلک سے تعلق رکھتے تھے جو پاکستان کی اکثریتی آبادی کا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کوئٹہ میں اہل تشیع کی پوری آبادی کو جس طرح تباہ و برباد کیا گیا‘ وہاں بھی غیرمسلم نہیں رہتے تھے۔ یہ سب کے سب بھی مسلمان تھے اور ان کا تعلق فقہ جعفریہ سے تھا۔ میں اکثر بڑے دکھ کے ساتھ یہ لکھا کرتا ہوں کہ جب پاکستان بنا تو ہم سب مسلمان تھے۔ اس وقت تو کسی نے فرقوں کا سوال نہیں اٹھایا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ کیا مصیبت آن پڑی کہ ہمارے ہی اندر سے طرح طرح کے کافر نکلنے لگے؟ اور پھر ہر کوئی‘ جس دوسرے مسلمان کو کافر سمجھتا ہے‘ اس کا قتل بھی خود واجب کر لیتا ہے۔ ایک ایسی قوم جس نے اپنی یکجہتی اور ہم مذہبی کو پارہ پارہ کر کے اپنے ہی اندر سے اتنے کافر تخلیق کر لئے اور پھر انہیں بے رحمی سے ہلاک کرنا‘ اپنے ایمان کا حصہ بنا لیا، اسے اسلامی تعلیمات یاد دلانے اور قرآن و حدیث کے حوالے دینے کا فائدہ کیا؟ جس قوم کا ریکارڈ اپنے ہی اندر سے پیدا کئے گئے کافروں کے معاملے میں وہ رہا ہو جس کے میں نے اوپر حوالے دیئے‘ اسے دوسرے مذہب والوں کے حقوق یاد دلانا بھی بیکار ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے قانون شکنی اور لوٹ مار کا کلچر پیدا کر کے اس سے اندھادھند فائدہ اٹھانے کی جو عادت اختیار کر لی ہے‘ اسے باقی رکھنے کے لئے وہ تمام رکاوٹیں دور کرنا ضروری ہے جو لوٹ مار اور خونریزی کے بغیر نشوونما نہیں پا سکتیں۔ ان عادتوں کو پورا کرنے کے لئے قوانین اور ضابطوں کو توڑنا بھی ضروری ہے۔ دین اسلام میں جو انسانی اور اخلاقی ممنوعات پائی جاتی ہیں‘ انہیں جائز قرار دینا بھی لازم ہے اور جب یہ سب کچھ کرنے کے بعد ایک کلمہ گو دوسرے کلمہ گو کو جانور کی طرح ہلاک کرنے لگتا ہے تو وہ ہر طرح کی تہذیبی اور اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ ایسے میں تمام اقدار کو پامال کرنے کی صلاحیت ہی طاقت کہلاتی ہے اور پھر اس طاقت کا پوری وحشت اور درندگی کے ساتھ استعمال‘ ایک رواج بن جاتا ہے۔ طاقت والا کمزور کو مارتا ہے، ہتھیار والا نہتے کو قتل کرتا ہے، خونخواری فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ جس طرح میں نے اسلام کے نام پر مسلمانوں کو ہلاک و برباد کرنے کے حوالے دیئے ہیں‘ اسی طرح دیگر مذاہب کے ماننے والوں پر مظالم کے واقعات بھی ان گنت ہیں۔ جہاں ہندوہیں‘ وہاں انہیں لوٹ مار کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس کے پاس چار پیسے ہوں‘ اسے اغوا کر کے تاوان لیا جاتا ہے۔ ان کی لڑکیاں اغوا کر کے جبراً گھروں میں رکھ لی جاتی ہیں اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ لڑکی نے رضا مندی سے اسلام قبول کر لیا ہے۔ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ تم جس طرح اقلیت کی بچیاں اغوا کر کے زبردستی گھروں میں رکھ لیتے ہو‘ وہ کونسے اسلام میں جائز ہے؟ خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں سکھ اقلیت کے ساتھ جو کچھ کیا گیا‘ اس کی دردناک داستانوں میں سے ابھی تک خون کے آنسو ٹپک رہے ہیں۔ عیسائیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کی داستان بھی بہت طویل ہے۔ ایک عیسائی لڑکے کے گھر پر محض اس لئے حملہ ہو جاتا ہے کہ اس نے کوئی توہین آمیز ٹیکسٹ پیغام بھیج دیا تھا۔ لاہور کے ایک نجی سکول کی تین برانچوں کو اس لئے تباہ کر دیا جاتا ہے کہ اس کی ایک استانی سے کوئی مبینہ غلطی ہو گئی تھی اور احمدپور شرقیہ میں قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں لوگوں کو زندہ جلایا جاتا ہے اور قتل ہونے والوں کی لاشیں جلانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ گوجرہ میں عیسائیوں کی ایک بستی کو گھیر کے گھر جلائے جاتے ہیں اور بچیوں سمیت 8افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے‘ جو بھاگ کر جان بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔یہ جوزف کالونی‘ گوجرہ‘ ہزارہ بستی یا عباس ٹائون کا قصہ نہیں۔ یہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کا جھگڑا بھی نہیں۔ یہ ایک فرقے کا دوسرے فرقے کو کافر قرار دینے کا معاملہ بھی نہیں۔ یہ اخلاق‘ مذہب‘ انسانیت‘ روایات اور تہذیب سے محروم ہونے والی ایک قوم کی تباہی کی داستان ہے۔ ہم سب اس داستان کے کردار ہیں۔ ہم بظاہر انسانی لباس میں انسانوں کی طرح رہتے بستے نظر آتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی ہمیں درندگی کا مظاہرہ کرنے کا کوئی موقع ملتا ہے تو ہم ایک لمحہ ضائع کئے بغیر درندگی کے مظاہرے پر اتر آتے ہیں۔ پھر ہم گھروں کو لوٹتے ہیں۔ عبادت گاہوں کو تباہ کرتے ہیں۔ اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق کا خون بہانے پر اتر آتے ہیں۔ ہم ہر وہ چیز ڈھونڈتے ہیں جو لوٹی جا سکتی ہو اور جو کچھ لوٹنا ممکن نہ ہو‘ اسے جلا کر راکھ کر دیتے ہیں اور درندگی کی اس حالت میں ہمیں جو انسان نظر آتا ہے‘ ہم اسے قتل کر کے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ زندہ انسانوں کو جلاتے ہیں اور مقتولوں کی لاشیں بھی نذرآتش کرنے سے باز نہیں آتے۔ درندوں کے اس معاشرے میں صرف مظلوم مرتے ہیں اور ہر طاقتور اپنے اپنے مظلوم کو تلاش کر کے‘ اسے ہلاک کرتا ہے۔ اعلیٰ ترین طبقے یہ کام پولیس اور خفیہ اداروں کے ذریعے کرتے ہیں۔ ان سے نچلے درجے والے اپنی غنڈہ فورسز کے ذریعے کرتے ہیں۔ ان سے نچلے درجے والے اپنے سے کم تر لوگوں کو گروہی اور خاندانی طاقت کے ذریعے کچلتے ہیں اور جو کسی کو کچلنے کے قابل نہیں رہتے‘ وہ سب سے زیادہ غریبوں اور بے بسوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ جس ہجوم نے غریب اور مظلوم عیسائیوں کی بستی کو جلایا‘ وہ اپنے سے زیادہ طاقتوروں کے ستائے ہوئے تھے۔ ان کے لباس ان غریب عیسائیوں سے مختلف نہیں تھے‘ جن کے گھر انہوں نے لوٹے اور جلائے۔ ان کے چہروں پر بھی غریبی اور بیروزگاری لکھی تھی۔ نہ ان واقعات کو میں مذہبی منافرت کا نتیجہ سمجھتا ہوں اور نہ ہی اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی۔ یہ ایک قوم کے بیمار جسم کی مجموعی حالت ہے جس پر ہمارے دشمن ہمارا مذاق اڑاتے ہیں اور ہم سے ہمدردیاں رکھنے والے ہماری صحت یابی کے لئے دعا مانگتے ہیں۔میں اپنے ہم وطن عیسائی بھائیوں سے یہی کہہ سکتا ہوںکہ آپ بھی عیسائی نہیں‘ ہماری طرح پاکستانی ہیں اور ہماری طرح ہی جہالت کے اندھیروں کے ڈسے ہوئے ہیں اور ہماری ہی طرح درندوں کی وحشیانہ بھوک کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ جب تک بیماری باقی ہے‘ ہمارے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہے گا۔ جب ہم صحت یاب ہوں گے تو سب کے سب ہوں گے۔