مسلسل امریکی دھمکیوں کی گونج میں ایران اور پاکستان کے صدور نے گیس پائپ لائن منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھ دیا۔ اس موقع پر بھی امریکی ترجمان اپنی دھمکیاں دُہرانے سے باز نہیں آئے۔ اس پائپ لائن پر امریکی اضطراب اور پریشانی کا قصہ نیا نہیں۔سب سے پہلے ایران سے قدرتی گیس درآمد کرنے کا تصور 1953ء میں سامنے آیا۔ اس وقت تک پاکستان میں قدرتی گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہو رہے تھے۔ لہٰذا اس منصوبے پر عملی کام شروع نہ ہو سکا۔ 1993ء میں پاکستان جب توانائی کے بحران کا شکار ہوا اور ایندھن کے طور پر تیل کی درآمد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا‘ تو دوبارہ اس پائپ لائن کی ضرورت کا احساس پیدا ہوا۔ اس وقت ملک کے اندر قدرتی گیس کے ذخائر کی دریافت میں واضح کمی آ چکی تھی اور پانی سے بجلی پیدا کرنے کے لئے فنڈز مہیا نہیں ہو رہے تھے۔ پاکستانی بیوروکریسی اور حکومتیں ہمیشہ سے بیرونی امداد پر انحصار کرتی آئی ہیں اور فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والوں کو بیرونی سرمایہ کاروں اور تاجروں نے بھاری کمیشن کے جال میں پھنسا رکھا ہے۔ پاکستان میں توانائی کے بے پناہ وسائل ہونے کے باوجود ان سے فائدہ اٹھانے کے منصوبے اس لئے نہیں بنائے جا سکے کہ تیل کمپنیاں پاکستانی مارکیٹ پر مقامی ایجنٹوں کی مدد سے قبضہ جما چکی تھیں۔ اگر پاکستان کی واٹر اینڈ پاور اتھارٹیز کے دفاتر میں گردآلود فائلوں کو جھاڑ کر دیکھا جائے‘ تو ان کے اندرسے متعدد عالمی کمپنیوں کی طرف سے بجلی پیدا کرنے کے لاتعداد منصوبے برآمد کئے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک منصوبہ میرے علم میں ہے کہ جرمنی کی ایک کمپنی نے آج سے 20 سال پہلے حکومت پاکستان کو پیش کش کی تھی کہ وہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں قدرتی جھرنوں سے20ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر کے دے سکتی ہے۔ ظاہر ہے اس پیش کش کی خبر سن کر پاکستان میں توانائی کی مارکیٹ پر قابض ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نیندیں اڑ گئیں اور انہوں نے اس منصوبے کو ہوا تک نہ لگنے دی اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے انہیں ایسا دبایا کہ آج بھی کوئی مقتدر شخصیت اس کی طرف دیکھنے کو تیار نہیں۔ اگر یہ منصوبہ منظور کر لیا جاتا‘ تو اس کمپنی کی پیش کش کے مطابق پاکستان کو ڈیڑھ سے دو روپے فی یونٹ بجلی دستیاب ہوناتھی اورپیداوار 200میگاواٹ سے شروع کر کے پانچ سال کے اندر 20ہزار میگاواٹ تک پہنچائی جانا تھی۔ منصوبے کے مطابق چھوٹے چھوٹے ٹربائن لا کر ‘دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں جھرنوں تک پہنچانا تھے اور جیسے جیسے یہ نصب ہوتے جاتے‘ بجلی کی پیداوار بڑھتی رہتی۔ ظاہر ہے پاکستان سے اربوں ڈالر کمانے والی کمپنیاں‘ ملک کے اندر قریباًمفت توانائی کی فراہمی پسند نہیں کر سکتی تھیں۔ چنانچہ ہم اپنے وسائل سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔ اس کے علاوہ مجھے ایک اور کمپنی کی پیش کش کا بھی پتہ چلا‘ جو آسٹریلیا کی تھی۔ اس کا منصوبہ ہمارے دریائی راستوں کو قابل استعمال بنا کر آبی ٹرانسپورٹ کا نظام قائم کرنے کا تھا۔ پاکستان سے برآمد ہونے والا بھاری مال جو ٹرکوں اور ٹرینوں کے ذریعے کراچی جاتا تھا‘ وہ دریائی راستوں سے بھیجا جاتا۔ اس کا خرچ زمینی ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں صرف 15 فیصد رہ جاتا اور تیل کی درآمد میں کمی سے اربوں روپے کے زرمبادلہ کی بچت ہوتی۔ مگر جن افسروں نے ایسے منصوبوں کو دفن کر کے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کیا‘ وہ خود چند سو ملین ڈالر کے ذاتی اثاثے بنا چکے ہوں گے۔ انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ جو کچھ کیا‘ و ہ ناقابل معافی ہے۔ آج ہم توانائی کی کمی کے سبب جن مشکلات کا شکار ہیں‘ ان کی ذمہ داری اسی طرح کے بے ضمیر لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔ جب توانائی کی شدید قلت نے ہمیں آ لیا اور تیل کی مہنگائی کے باعث‘ اس کی خریداری مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی‘ تو متبادل توانائی کے لئے گیس کے استعمال کی ضرورت پڑی۔ اس مقصد کے لئے گیس پائپ لائنوں کے متعدد منصوبوں پر غور شروع ہوا۔ ان میں دو منصوبے قابل ذکر ہیں۔ ایک قطر سے زیرآب پائپ لائن کے ذریعے گیس کو پاکستان میں لانے کا تھا اور دوسرا منصوبہ ترکمانستان سے پائپ لائن کے ذریعے گیس منگوانے کا۔ ایک مجوزہ منصوبے میں قطر نے جلد ہی دلچسپی لینا چھوڑ دی اور دوسرا منصوبہ متعدد وجوہ کی بنا پر قابل عمل نہ ہو سکا۔ ایک تو افغانستان کے حالات اس کے راستے میں رکاوٹ تھے۔ دوسرے راستہ لمبا ہونے کی وجہ سے تعمیری اخراجات بہت زیادہ تھے اور تیسرے بھارت کو حصے دار بنائے بغیر یہ منصوبہ بہت مہنگا پڑتا تھا اور اگر بھارت کو اس میں شریک کیا جاتا‘ تو ہمارے لئے مزید الجھنیں پیدا ہونے کا امکان تھا۔ ان دونوں منصوبوں پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ہماری توانائی کی ضروریات بڑھتی چلی گئیں اور تیل ‘گیس اور کوئلے سے توانائی حاصل کرنے کے مقامی وسائل میں اضافہ نہ ہو سکا اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہمارے کارخانوں کو طویل وقفوں کے لئے بند کرنا پڑ گیا۔ بہت سے فیکٹری مالکان اپنا سرمایہ لے کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے اور آج بھی جا رہے ہیں۔ ہمارے شہروں میں بجلی کی فراہمی نصف سے بھی کم ہو کر رہ گئی ہے۔ دس دس بارہ بارہ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ نے شہری زندگی کو معطل کر کے رکھ دیا ہے اور جس تیزی سے توانائی کی فراہمی میں کمی رونما ہو رہی ہے‘ ہماری معیشت کے زوال کی رفتار میں بھی تیزی آ رہی ہے۔ آج کل پاکستان میں روزانہ 4 ارب 30کروڑ مکعب فٹ گیس دستیاب ہے اور محتاط اندازوں کے مطابق 2025ء میں یہ مقدار ایک ارب مکعب فٹ رہ جائے گی۔ آج گیس کی کمی ایک ارب مکعب فٹ روزانہ سے کچھ زیادہ ہے اور اگر اس میں مزید کمی آ گئی‘ تو ہماری صنعتی پیداوار کے ساتھ ساتھ زرعی پیداوار میں بھی کمی آ جائے گی اور معیشت کی تباہی کا عمل مزید تیز ہو جائے گا۔ اب یہ خطرہ کسی کی نگاہوں سے اوجھل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے گیس پائپ لائن کے معاہدے پر عملدرآمد شروع کر دیا۔ امریکہ کی طرف سے دھمکیاں متوقع تھیں‘ جن میں روزبروز شدت آ رہی ہے۔ لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے باہمی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘ جس طرح اس منصوبے کی حمایت کی ہے‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم اپنی موجودہ مشکلات سے نکلنے کے لئے پختہ ارادہ کر چکی ہے۔پائپ لائن کی تعمیر کا افتتاح کرنے کے لئے وقت کا انتخاب خوب سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ یہ پائپ لائن 2014ء کے اختتام تک مکمل کر کے ہمیں گیس مہیا کرنے لگے گی۔ گیس کی سپلائی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہماری بجلی کی پیداوار میں بھی2000میگاواٹ کا اضافہ ہو گا۔ انرجی کے قحط کی موجودہ صورتحال میں یہ اضافہ ہمیں ایک نئی زندگی دے سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے امریکی دھمکیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے ‘ پابندیوں کا خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ہم بھی پوری طرح امریکہ کے رحم و کرم پر نہیں ہیں۔ پائپ لائن کی تکمیل کے عرصے کے دوران ہی ‘ امریکہ افغانستان سے اپنے اسلحہ کے ذخیرے ہمارے راستوں سے واپس لے جا رہا ہو گا۔ اس مقصد کے لئے امریکہ دوسرے تمام راستوں کے استعمال کا جائزہ لینے کے بعد یہ جان چکا ہے کہ نہ صرف ان راستوں کے استعمال سے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا بلکہ اس کا حساس اسلحہ بھی خطرے کی زد میں رہے گا۔ جبکہ پاکستان کا راستہ آسان بھی ہے‘سستا بھی اور محفوظ بھی۔ امریکی یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ وقت آنے پر پاکستان راستے بند کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں اپنے سٹریٹجک مقاصد کی تکمیل کے لئے امریکہ کو جس استحکام کی ضرورت ہے‘ وہ اسے پاکستان کے بغیر نہیں مل سکتا۔ ہم پرپابندیوں کی صورت میں خطے کے دو بڑے ملک جو افغانستان پر اثر انداز ہو سکتے ہیں‘ امریکی منصوبوں کو ناکام بنانے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ پابندیاں لگاتے ہوئے امریکہ یقینااس خطرے کو بھی پیش نظر رکھے گا اور سب سے بڑی بات یہ کہ جب پاکستان اور ایران نے مل کر امریکی مزاحمت میںباہمی تعاون شروع کر دیا‘ تو پھر خطے کی سٹریٹجک صورتحال وہ نہیں رہ سکے گی‘ جو آج ہے اور اس صورتحال میں چینی اثرات میں کتنا پھیلائو آ سکتا ہے‘ وہ بھی امریکہ کے لئے خسارے کا باعث ہو گا۔ میرا اندازہ ہے کہ امریکہ ان سارے پہلوئوں کا جائزہ لینے کے بعد‘ اس امکان پر یقینا غور کرے گا کہ ترکی اور چین کی طرح پاکستان کو بھی‘ اس کی مجبوریوں کی روشنی میں استثنیٰ دے دیا جائے اور پاکستان توانائی کی کمی کی بنا پر‘ تباہ حالی کے جس خطرے سے دوچار ہے‘ اسے انسانی حوالے سے جواز بنا کر پابندیوں میں نرمی کر دی جائے۔