"NNC" (space) message & send to 7575

اُمیدوں کا مرکز

قائد انقلاب شیخ الاسلام حضرت علامہ مولانا پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان پر دوسری یلغار کر دی ہے۔ وہ زمانہ لد گیا جب فاتحین کو 17حملے کرنا پڑتے تھے۔ یہ زمانہ ترقی اور تیزرفتاری کا ہے۔ دو تین یلغاروں میں کام چل جاتا ہے۔ شیخ الاسلام نے پہلی یلغار میں طاقت کے زبردست مظاہرے کیے لیکن مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں کر پائے اور انہیں واپس اپنے ہیڈکوارٹر‘ کینیڈا جانا پڑا۔ میں بات ایسے کر رہا ہوں جیسے مجھے علم ہو کہ وہ کیا نتیجہ حاصل کرنا چاہتے تھے؟ اس کا علم تو بڑے بڑے سیاسی جغادریوں کو نہیں ہو سکا اور شاید شیخ الاسلام خود بھی نتائج کا واضح اندازہ نہیں رکھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے طاقت کے شاندار مظاہرے کیے اور شہر شہر لانگ مارچ کے کنٹینر گھمانے کا اعلان کر دیا۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ لانگ مارچوں کا پروگرام بیچ میں چھوڑ کر وہ کینیڈا تشریف لے گئے اور واپسی کا جو وعدہ کر کے گئے تھے‘ ایک دو دن کے فرق سے ‘ اس کے مطابق لوٹ آئے۔ سابقہ یلغار کی طرح تازہ یلغار میں بھی وہ اپنی مہم کی ابتدا عوامی جلسے کے ساتھ کر رہے ہیں۔ پہلا جلسہ انہوں نے لاہور میں کیا تھا اور نیا جلسہ اسلام آباد میں کر رہے ہیں۔ یہ اتوار 17مارچ ‘ دن کے 10بجے ہو گا۔ تفصیلی اطلاع اس لیے دے رہا ہوں کہ قائدِ انقلاب شیخ الاسلام حضرت علامہ مولانا پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری نے ’’دنیا‘‘ کے قارئین کو بذریعہ اشتہار اطلاع دینا مناسب نہیں سمجھا اور میں چونکہ شیخ الاسلام کا ایک ادنیٰ نیازمند ہوں‘ مجھے ان کے مشن کا بے شک پتہ نہ ہولیکن میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ ویسے بھی اشتہاروں کا نقصان اٹھانے کے بعد اتفاق تو کرنا ہی پڑے گا۔ شیخ الاسلام کی دوسری یلغارکا کوئی نہ کوئی تعلق آنے والے انتخابات سے ضرور ہے۔ 2008ء کے انتخابات کو انہوں نے درخوراعتنا نہیں سمجھا تھا مگر اب جو انتخابات ہونے جا رہے ہیں‘ ان میں عالی مرتبت کی دلچسپی کچھ زیادہ ہے ورنہ وہ تو پارلیمانی نظامِ حکومت کو لات مارتے ہوئے قومی اسمبلی کی رکنیت سے بھی مستعفی ہو گئے تھے۔ قومی اسمبلی میں جانا شاید اب بھی وہ پسند نہیں کریں گے لیکن اپنی جماعت کو الیکشن میں جھونکنے کا ارادہ وہ بہرحال رکھتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے مشن سے دست بردار ہو گئے۔ وہ انتخابات سے پہلے ہر چیز ٹھیک کرنے کے خواہش مند ہیں اورجو کچھ وہ ٹھیک کرنا چاہتے ہیں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالتے رہتے ہیں۔ مثلاً انتخابات کے بارے میں الیکشن کمیشن کے خیالات حضرت صاحب کے مشن کے قریب ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ بھی انتخابی امیدواروں کی زبردست چھان بین کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کاغذات نامزدگی کا جو فارم تیار کیا ہے‘ اسے کوئی سچا آدمی بھر ہی نہیں سکتا۔ پاکستان کی اشرافیہ یا سیاسی قیادت یا اپنے اپنے حلقے کے لیڈروں میں کون ایسا ہے جو فارم میں رکھے گئے تمام خانے خداکو حاضروناظر جان کر ایمانداری سے بھر سکے؟ کسی نہ کسی مقام پر آ کر باکردار انسان کا ضمیر ضرور جاگ اٹھتا ہے اور کہیں نہ کہیں اسے یہ لکھنا پڑے گا کہ وہ اپنے ٹیکس صحیح طریقے سے ادا نہیں کر سکا یا اس نے بنکوں سے قرض لیتے وقت کوئی گھپلا نہیں کیا یا اس نے اپنے حلقے کے عوام کی اپنے وعدوں کے مطابق خدمت نہیں کی۔ اگر کوئی دل کڑا کر کے پورا فارم بھرنے کا حوصلہ کر بیٹھا تو پھر آئین کی دو شقوں 62 اور 63 کے معیار پر پورااترنے کا دعویٰ کرنے سے پہلے اس کا ہاتھ ایک بار ضرور کپکپائے گا۔ اسے آخرت کا خیال بھی ضرور آئے گا۔ اگر اس کے ضمیر کی کوئی آواز ہوئی تو یقینا اسے بھی سنے گا اور اگر دل میں خدا کا خوف ہوا تو فارم بھرنے کا ارادہ ہی ترک کر دے گا۔ کون ایسا مسلمان ہے جو اسمبلی کی ایک سیٹ کے لیے جہنم کی سیٹ کو ترجیح دے؟ الیکشن کمیشن نے ہمارے اہلِ سیاست سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کر لی ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ موجودہ سیاسی پارٹیوں کے پاس کثرت سے ایسے امیدوار موجود ہوں گے جو الیکشن کمیشن کے تیار کردہ فارم بھرنے کے قابل ہوں۔ اس فارم کو پوری دیانتداری کے ساتھ تو الیکشن کمیشن کے اراکین بھی نہیں بھر سکیں گے‘ سیاستدان کیسے بھر سکتے ہیں؟ پوری دنیا میں کوئی ایسا سیاستدان نہیں جسے پیشہ ورانہ ضروریات کے تحت جھوٹ نہ بولنا پڑا ہو۔ جس سیاستدان نے سچ بولنے کی حماقت کی وہ تو اسمبلی کے قریب نہیں پھٹک سکتا۔ جسے اپنے گھر والے ووٹ نہیں دیتے اسے دوسرے کس طرح ووٹ دیں گے؟اگر مکمل ایمانداری سے فرائض ادا کرنے والا کوئی شخص ووٹروں کی غلطی سے اسمبلی میں جا بھی دھمکتا ہے تو چند مہینوں بعد ہی اس کے اہلِ خانہ اور حمایتی پچھتانے لگتے ہیں۔ اس کے بارے میں چہ میگوئیاں ہونے لگتی ہیں کہ وہ تو کوئی کام ہی نہیں کرا سکتا۔ وہ تو اپنے بیٹے کو نوکری نہیں دلا سکا حالانکہ اس کے پاس بی اے کی ڈگری ہے‘ سیکنڈ ڈویژن ہے تو کیا ہوا؟ کیا وہ اسمبلی کا ممبر ہو کر اتنی بھی رعایت نہیں دلا سکتا؟ ہمارا ممبر تو اپنے سگے چچا کو قرضہ نہیں دلا سکا؟ لوگ اربوں روپے کے قرضے معاف کرا لیتے ہیں مگر یہ عجیب آدمی ہے جو اپنے خاندان کے لیے بھی کچھ نہیں کرتا۔ حالانکہ چچا نے تو اپنی جائیداد کی مالیت کے برابر قرض مانگا تھا۔ خدا لگتی کہیے کہ اگر اسمبلیوں میں سارے کے سارے عوامی نمائندے اس طرح کے ہو جائیں تو ملک و قوم کا کیا بنے گا؟ جن اسمبلیوں میں وزیراعظم سے لے کر وزیروں تک ہر کوئی ایماندار ہو گا‘ وہاں تو سارے محکمے ٹھپ ہو جائیں گے۔ جو محکمہ ترقیاتی کام کرتا ہے اس کے افسر مختلف بہانوں سے کام کرنا چھوڑ دیں گے۔ فائلوں پر اعتراضات لگا تے لگاتے مالیاتی سال نکال دیں گے‘ یہاں تک کہ بجٹ کی رقم زائد المیعاد ہو کر واپس خزانے میں چلی جائے گی اور اگر کسی افسر نے ضد میں آ کر صحیح کام کرانے کی ٹھان لی تو اسے ٹھیکیدار نہیں ملیں گے۔ ایسا کون ٹھیکیدار یہاں موجود ہے جو حکومت کے مطلوبہ معیار کے مطابق کام کر کے نفع کما سکے؟ اس طرح کا ٹھیکیدار کام پورا بھی کر دے گا تو اس کے معیاری ہونے کا سرٹیفکیٹ کون دے گا؟ اس کا چیک کون بنائے گا؟ اور چیک بن بھی گیا تو ٹھیکیدار کے حوالے کون کرے گا؟ سارے کا ساراملکی نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا۔ فلاحی کاموں کے لیے جو فنڈز مختص ہوں گے وہ بھی کسی کام نہیں آ سکیں گے۔ غریبوں کے لیے بنائے گئے ہسپتالوں میں جعلی دوائیں ملنا بھی بند ہو جائیں گی کیونکہ اصلی دوائوں پر کمیشن نہیں ملے گا اور جب کمیشن نہیں ہو گا تو خریداری کون کرے گا؟ متعلقہ افسران خالص دوائوں کو بھی جعلی کہہ کے رد کر دیا کریں گے۔ ایمانداری سے تو وزیربھی اپنا کام نہیں کر پائیں گے کیونکہ اس کے پی ایس کو پی آئی اے میں ٹکٹ لینے کے لیے بھی باری کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اگر پی آئی اے باری پر وزیرصاحب کا ٹکٹ دے گی تو وہ کوئی بھی دورہ نہیں کر سکیں گے۔ افسروں کو گھر کے کرائے اور یوٹیلٹی بلوں کے لیے جو رقم ملتی ہے اس میں تو ایک بھی اے سی نہیں چل سکتا اور نہ ہی ساٹھ ستر ہزار روپے ماہانہ کرائے پر کوئی ایسا گھر مل سکتا ہے جس میں گریڈ 21 یا 22 کا افسر رہنا پسند کرے۔ اس طرح کے معاشروں میں کرپشن انتہائی محدود ہو جاتی ہے۔ جہاں پر انتہائی اختیارات ہوں گے کرپشن بھی وہیں ہو سکے گی۔ کرپشن کے یوں سمٹ جانے سے معاشرے کے تمام شعبے ہنرمندوں اور باصلاحیت لوگوں کی ایماندارانہ خدمات سے محروم ہو جائیں گے۔ کوئی بھی ضروریات کے مطابق وسائل پیدا نہیں کرسکے گا۔ ایسے معاشروں کا انجام سوویت یونین جیسا ہوتا ہے جہاں پارٹی کے عہدیدار توعیش و عشرت کر رہے تھے اور عام آدمی روٹی اور گھر کی بجلی کے لیے ترس رہا تھا۔ جو علمائے کرام ہمیں خلافتِ راشدہ کی مثالیں دیتے ہیں وہ اس معاشرے کے مقررہ معیاروں کے مطابق خود زندگی گزار کے دکھا دیں۔ میں قائد انقلاب شیخ الاسلام حضرت علامہ مولانا پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری سے امید رکھتا ہوں کہ وہ جس ایمانداری اور اصول پسندی کا پرچار کرتے ہیں‘ پاکستان کو اس کا نمونہ بنا دیں گے‘ لیکن کیا خود ان کا رہن سہن اس بات کی صدیق کرتا ہے؟خلفائے راشدین تو اپنے لباس پر تنقید سن کے ایک عام آدمی کے سامنے صفائی پیش کیا کرتے تھے۔ یہاں تو سرد موسم کی بارش میں بھیگتے اور کپکپاتے ہوئے لوگ بھی زبان نہیں کھول سکتے اور یہ تک نہیں پوچھ سکتے کہ آپ گرم کنٹینر کے اندر بیٹھ کر ہمیں قربانیوں کا سبق کیوں دے رہے ہیں؟ ذرا خود بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر بارش کا لطف اٹھایئے۔ جتنے افراد اور ادارے ہمارے لیے ایمانداروں کی اسمبلیاں قائم کرنا چاہتے ہیں وہ کسی طور ہمارے خیرخواہ نہیں۔ جھوٹ اور ناجائز آمدنی ہمارا طرز حیات ہے‘ ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے۔ہم قائدِ انقلاب شیخ الاسلام کو بھی نہیں چھوڑ سکتے۔وہ ہماری امیدوں کا مرکز ہیں۔ ابھی ابھی خوشخبری آئی ہے کہ سندھ اسمبلی نے اپنی رکنیت ختم ہونے کے بعد بھی سفری سہولتیں حاصل کرنے کے لیے استحقاق کا ترمیمی بل پاس کر لیا ہے۔ خود بدلتے نہیں‘ قانون بدل دیتے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں