گزشتہ روز 5بجے بیدار ہو کر ٹی وی آن کیاتو پتہ چلا کہ شام کے پانچ ہیں۔ اخبار پڑھا تو انکشاف ہوا کہ آج نیند کا عالمی دن ہے۔ میں نے بغیر جانے ہی عالمی دن سو کے گزار دیا۔ جن ماہرین نے نیند کو صحت کے لیے مفید قرار دیا ہے‘ ان میں میرے معالج ڈاکٹر کامران چیمہ بھی شامل ہیں۔ ان سے پوچھوں گا کہ اگر کوئی بے خبری میں پورا دن سو کر گزار دے اور اسے شام کو پتہ چلے کہ آج نیند کا عالمی دن تھا تو کیا صحت پر اسی طرح اچھے اثرات ہو سکتے ہیں جیسے کہ نیند کے عالمی دن کی خبر معلوم ہونے کے بعد‘سونے سے ہوتے ہیں؟ خیر سونے والے کو نفع نقصان سے کیا؟ سونے کا اپنا مزہ ہے۔ نیند کے عالمی دن میں سویا جائے یا نیند کے عام دن میں۔ سونے والوں کے دونوں طرح مزے ہیں۔ مسائل جاگنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ مجھے شام پانچ بجے بیدار ہونے کے بعد پتہ چلا کہ میں نے تو یہ جانے بغیر ہی سارا دن سو کے ضائع کر دیا کہ یہ نیند کا عالمی دن تھا۔ سوچا آج کے دن میں جو وقت ضائع ہونے سے بچ گیا ہے‘ اسے مزید ضائع کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ جہاں ستیا ناس‘ وہاں سوا ستیاناس۔ وقت کا ستیاناس کرنے کے لیے سیاست سے بہتر کوئی مشغلہ نہیں اور پاکستانی سیاست تو اس مشغلے کے لیے ایک نعمت ہے۔ ہماری سیاست میں جب انتہائی اہم‘ نازک اور تاریخ ساز فیصلے ہو رہے ہوں تو شدید بحران اور مشکلات میں ہمارے غورو فکر اور سوچ بچار کے طریقے دنیا سے مختلف ہوتے ہیں۔ جنرل فضل مقیم نے اپنی کتاب میں 1970ء کا واقعہ لکھا ہے کہ جب مشرقی پاکستان میں شدید جنگ ہو رہی تھی اور ہماری فوج دفاع پاکستان کے لیے جانوں کی قربانیاں دیتے ہوئے وطن کا حق ادا کرنے میں مصروف تھی‘ راولپنڈی میں ایک شاندار تقریب برپا تھی۔ اس تقریب میں جنرل یحییٰ خان اور ان کے ساتھیوں کے سامنے کچھ میڈلوں کے ڈیزائن پیش کیے گئے۔ یہ میڈل ان افسروں اور جوانوں کے لیے تھے‘ جو اُنہیں پیشہ ورانہ کارنامے انجام دینے کے صورت میں دیئے جانا تھے۔ جنرل حضرات ان ڈیزائنوں پر اپنی اپنی رائے دے رہے تھے۔ ایک میڈل‘ جس پر چاند ستارا بنا ہوا تھا‘ دیکھ کر ایک جنرل صاحب نے ماہرانہ رائے دی کہ ’’ڈیزائن تو بہت اچھا ہے لیکن چاند کے دونوں کونے اور ستاروں کی نوکیں بہت تیز ہیں۔یہ میڈل لگا کر جب ڈانس کیا جائے گاتو چاند اور ستارے کی نوکیں ڈانس پارٹنر کی ساڑھی یا قمیض میں پھنس جائیں گی۔‘‘ یہ مشورہ بہت پسند کیا گیا اور میڈل کا ڈیزائن بدلنے کی ہدایت کر دی گئی۔ ایسے شدید بحران میں ‘ اعلیٰ قیادت کے مابین اتنی مفکرانہ اور برموقع گفتگو کرنے والی لیڈرشپ دنیا میں اور کہیں نہیں مل سکتی۔ بے شک اس واقعہ کو 42 سال گزر چکے ہیں، ہمارے لیڈروں کے طورطریقوں میں اب بھی فرق نہیں آیا۔ ایسے وقت جبکہ پاکستان میں دلچسپی رکھنے والے دنیا بھر کے ماہرین‘ دھڑکتے دلوں کے ساتھ آنے والے دنوںکے بارے میں تشویش بھرے اندازے لگا رہے ہیں‘ ہمارے ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادتیں‘ نگران وزیراعظم کے چنائو کے سوال پر مذاکرات کر رہی ہیں۔ آئین کے مطابق پہلے مرحلے میں قائد حزبِ اختلاف اور قائدِ حزبِ اقتدار کو نگران وزیراعظم کا انتخاب کرناتھا۔ وہ نہیں کر سکے۔ اس کے بعد مذاکراتی ٹیمیں بنا کر پارلیمانی کمیٹی تیار کی گئی‘ جس کے پاس فیصلے کے لیے 3 دن تھے۔ آج وہ بھی ختم ہونے والے ہیں۔ آج کا دن آدھا گزر چکا ہے‘ ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا۔ اس سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ گزشتہ کل یعنی مذاکرات کے دوسرے دن‘ قائدِ حزبِ اختلاف نے اعلان کر دیا ’’نگران وزیراعظم کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا۔ بہتر ہو گا کہ فیصلہ وہیں کیا جائے تاکہ کوئی تنازعہ ہی کھڑا نہ ہو۔‘‘ ایسے شدید بحران کے دنوں میں‘ جب معیشت کے سوال پر قوم گہری تشویش میں ڈوبی ہے اور عالمی برادری فکرمندی کے ساتھ پاکستان کے حالات کا جائزہ لے رہی ہے اور قوم بے تابی سے منتظر ہے کہ ملک میں قابلِ قبول انتخابی عمل کے انتظامات کرنے والا نگران وزیراعظم کون ہو گا؟ ہماری دونوں بڑی جماعتوں کی پارلیمانی ٹیمیںمذاکرات کر رہی ہیں۔ مذاکرات کا مقصد چھ ناموں میں سے نگران وزیراعظم کے لیے ایک نام چننا تھا۔ ٹیمیںابھی تک کسی نام کا فیصلہ نہیں کر پائی تھیں ۔ ٹیموں کے ارکان میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بڑی چالاکی سے آنے والے نگران وزیراعظم کا نام چھپا رہے تھے جبکہ اسی دن قائدِ حزبِ اختلاف نے اعلان کر دیاکہ ’’نگران وزیراعظم کا انتخاب الیکشن کمیشن کرے گا‘‘ اور ان سے بھی بڑھ کر ان کے لیڈر نوازشریف نے واضح طور سے بتا دیا تھا ’’نگران وزیراعظم ناصر اسلم زاہد ہوں گے۔‘‘ مجھے نہیں پتہ ان میں سے تفریح کون کر رہا تھا؟ مذاکرات کرنے والے ؟ یا ٹیمیں نامزد کرنے والے؟ یاپارلیمانی کمیٹی کو مذاکرات پر لگا کر یہ بتانے والے کہ ’’نگران وزیراعظم کا نام تو الیکشن کمیشن منتخب کرے گا‘‘ یا ان سارے معززین کو بیانات پر لگا کر یہ اعلان کرنے والے کہ’’ نگران وزیراعظم تو ناصر اسلم زاہد ہوں گے۔‘‘ہماری قوم اپنے لیڈروں سے بھی زیادہ زندہ دل اور بے فکری ہے۔ وہ کبھی نہیں پوچھے گی کہ ایوان کے دونوں لیڈروں کے پاس نگران وزیراعظم چننے کے لیے جو وقت تھا‘ اس کے دوران کیا کیا گیا؟پارلیمانی کمیٹی کے پاس 3 دن کا جو وقت تھا‘ اسے صرف کرنے کے لیے میٹنگیں کیوں بلائی گئیں؟ جبکہ نگران وزیراعظم کا نام کمیٹی کے اجلاس کے دوران ہی ایک پارٹی کے سربراہ نے بتا دیا تھا۔ قوم کا قیمتی وقت انتہاـئی احتیاط سے مصرف میں لانے کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ ہمارے بزرگ سیاستدان ڈاکٹر مبشر حسن عدالت میں چلے گئے ہیں کہ حکومت نے اپنے آخری دنوں میں جو ملازمتیں دی ہیں‘ انہیں غلط قرار دے کر ملازمت پانے والوں کو بیروزگار کر دیا جائے۔ بیروزگار ہو کر وہ کیا کریں گے؟ جلوس نکالیں گے اور ڈاکٹر صاحب کیا کریں گے؟ جلوس کی قیادت کریں گے۔ پارلیمنٹ میں ایک خصوصی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات بھی تھی۔ وہ الیکشن کمیشن کے خلاف مقدمے کی تیاری کر رہی ہے کہ’’ نامزدگی فارم غلط بنائے گئے ہیں،انہیں تبدیل کیا جائے۔‘‘ کمیٹی کے رکن اور سینٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف مولانا عبدالغفور حیدری نے بتایا کہ ’’الیکشن کمیشن اسلامی معاشرے میں کاغذات نامزدگی کے مطابق خاتون سے پوچھ رہا ہے کہ اس کے خاوند کتنے ہیں؟‘‘ الیکشن کمیشن کی نیت ہی خراب لگتی ہے۔ فخروبھائی صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ وہ خواتین کو اسمبلیوں کا رُکن بنانے کے حق میں ہی نہیں۔ ایسے بیہودہ سوال کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بعض لوگ خواتین سے بات کرنے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔ اسی طرح کے ایک شخص نے ایک خاتون سے براہ راست پوچھ لیا کہ ’’آپ کے بچے کتنے ہیں؟‘‘ خاتون نے جواب دیا ’’میں شادی شدہ نہیں ہوں۔‘‘ سوال کرنے والے نے دوست کو اپنی خفت کا بتایا‘ جو اسے اٹھانا پڑی تھی۔ دوست نے سمجھایا کہ ’’یوں براہ راست نہیں پوچھا کرتے، جب کسی خاتون سے بچوں کے بارے میں پوچھنا ہو تو پہلے شادی کا پوچھ لیا کرو۔‘‘ یہ نصیحت سننے کے بعد ایک پارٹی میں ان صاحب نے نئی ملاقاتی خاتون سے بات کرتے ہوئے شادی والی بات یاد رکھی اور شائستگی سے پوچھا ’’کیا آپ شادی شدہ ہیں؟‘‘ خاتون کا جواب تھا ’’نہیں۔‘‘ اس پر موصوف نے ٹھنڈی سانس لی اور اطمینان سے پوچھا ’’آپ کے بچے کتنے ہیں؟‘‘ کبھی آپ نے غور کیا کہ دنیا میں دوسرے لوگ فالتو وقت کیسے گزارتے ہیں اور ہم کس طرح؟ وہ سیروتفریح پہ نکل جاتے ہیں۔ شکار کھیلتے ہیں۔ تیراکی کرتے ہیں اور ہم انتہائی سنجیدہ مسائل پر بے معنی بحث کر تے ہوئے سمجھتے ہیں کہ قوم کی خدمت ہو رہی ہے۔ نگران وزیراعظم کے سوال کو بھی تماشا بنا کر ہم قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان مظلوموں سے مجھے بہت ہمدردی ہے جن کے نام بطور نگران وزیراعظم آ رہے ہیں۔ سب کے سب اچھے بھلے عزت کے دن گزار رہے تھے ۔ نگران وزیراعظم کے لئے ان کے نام کیا آئے کہ سب کے سب گندے ثابت ہونے لگے۔حالت یہ ہے کہ کسی شریف آدمی سے نگران وزیراعظم بننے کی بات کی جائے تو وہ کانوں کو ہاتھ لگانے لگتا ہے اور اگر کسی سے یہ کہا جائے کہ فلاں شخص بہت نیک نام ہے‘ اسے کیوں نہ نگران وزیراعظم بنایا جائے تو جواب ملتا ہے کہ ’’چھوڑو! اسے رسوا کرنے کی کیا ضرورت آن پڑی؟ وہ تو پہلے ہی سیاستدان ہے۔‘‘