"NNC" (space) message & send to 7575

سونامی جلسے میں آ دھمکا

عمران خان نے سونامی کا نام مخالفین کے خلاف لیا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ جن لیڈروں اور سیاسی جماعتوں کے خلاف وہ میدان میں اترے ہیں‘ تحریک انصاف کے حامیوں کا طوفان انہیں بہا لے جائے گا۔ سونامی اس طوفان کا نام تھا‘ جس کا مرکزی ہدف جاپان بن گیا تھا اور وہاں سونامی کی خوفناک لہروں نے تباہی پھیلا دی تھی۔ ان طوفانی لہروں کی شدت کا یہ عالم تھا کہ وہ جدھر کا رخ بھی کرتیں‘ وہاں ہر چیز اس کے بہائو کی لپیٹ میں آ جاتی۔ ہم نے کاروں اور بڑے بڑے ٹرکوں کو سونامی کی طوفانی لہروں میں تنکوں کی طرح بہتے دیکھا۔ عمران خان نے اپنے حامیوں کو طوفان قرار دے کر یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ جن پارٹیوں کے خلاف وہ میدان میں اترے ہیں‘ ان کے حامیوں کا سونامی انہیں خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ جنہیں دھمکیاں دی گئیں‘ وہ تو جوں کے توں ہیں۔ البتہ ایک طوفانی بارش شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے پر برس گئی تھی۔ وہ شدید سردی کی بارش تھی اور ٹھنڈے پانی کی بوچھاڑیں‘ دھرنے میں بیٹھے ہوئے لوگوںکو نشانہ بنا رہی تھیں۔ لیکن نہ تو شیخ الاسلام کی تقریروں میں فرق آیا اور نہ حاضرین ٹس سے مس ہوئے۔ گویا سونامی کے چھوٹے سے چوزے نے بھی جس اجتماع کا رُخ کیا‘ وہ خان صاحب کے مخالفین کا نہیں بلکہ انہی کے ایک ہمسفر کا تھا‘ جو لوٹ مار کے نظام کو ٹھکانے لگانے کا عزم لے کر میدان میں اترے ہیں۔ دونوں لیڈروںکا ہدف بھی دو سیاسی جماعتیں ہیں‘ جو 1988ء سے اب تک باری باری اقتدار میں آ رہی ہیں۔ ان کی طرف سونامی کا چوزہ تک نہیں گیا۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں کے بڑے بڑے جلسے ہو رہے ہیں۔ کسی میں سونامی کی جھلک نظر نہیں آئی۔ لیکن سونامی خان کہلوانے والے لیڈر کا اپنا ہی جلسہ‘ سونامی کی زد پر آ گیا اور تیز ہوائوں کے ساتھ بارش نے وہ جلوہ دکھایاکہ لائوڈ سپیکرز کی آواز بند ہو گئی۔ جلسے میں ہلچل پڑ گئی اور خان صاحب تھوڑی دیر تقریر کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ مگر جب سونامی کی شدت میں کمی نہ آئی‘ تو انہیں بھی یہ کوشش ترک کرنا پڑی اور اس طرح جو سونامی وہ مخالفوں کے لئے تیار کر رہے تھے‘ وہ پلٹ کر خان صاحب اور ان کے حامیوں پر برس پڑا۔ قدرت کا نظام بھی خوب ہے۔ جن لیڈروں پر کرپشن کے الزامات ہیں ان کے جلسے تو پرسکون طریقے سے ہو رہے ہیں ۔ لیکن جو لیڈر کرپشن کے خلاف گرج برس رہے ہیں‘ ان پر سونامی کے چوزے حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ضرور اس میں کوئی نہ کوئی خفیہ پیغام موجود ہے۔ پیغام کیا ہو سکتا ہے؟ اس کا پتہ چلانا عمران خان کے مداحوں کا فرض ہے۔ میں تو البتہ عمران خان کے مداحوں سے ایک اور کام کہنے والا ہوں اور وہ یہ کہ خان صاحب نے اپنے عظیم الشان جلسے میںوعدوں کا جو چھکا مارا‘ اس کا سیاسی زبان میں ترجمہ کیا ہے؟ سننے میں آیا ہے کہ ان 6وعدوں کو تحریک انصاف کے ایک تھنک ٹینک نے بڑی عرق ریزی کے بعد تیار کیا ہے اور پھر خان صاحب نے پورے غور و خوض کے بعد انہیں حتمی شکل دی۔ لیکن یہ وعدے ہیں کیا؟ مثلاً کہا گیا کہ ’’میں ہمیشہ سچ بولوں گا۔‘‘ مجھے تو اس پر کبھی شک نہیں رہا کہ خان صاحب سچ بولتے ہیں۔ ان کے جلسے میں‘ ان کے حامی بیٹھے تھے‘ وہ بھی خان صاحب کی سچائی پر یقین رکھتے ہوں گے۔ پھر انہیں یہ وعدہ کرنے کی ضرورت کیوں پڑ گئی کہ میں سچ بولوں گا؟ خان صاحب کے بعض مخالفین پہلے ہی کہتے تھے کہ وہ سیاست نہیں کر سکتے۔ خان صاحب نے یہ وعدہ کر کے ‘ ان کی رائے کو درست ثابت کر دیا۔ جو شخص جھوٹ بولنے کے لئے تیار ہی نہ ہو‘ وہ سیاست کیسے کر سکتا ہے؟ سیاست تو ناشتہ ہی سچائی سے کرتی ہے۔ آپ نے دکانوں پر لگے ہوئے کارڈ دیکھے ہوں گے‘ جن پر درج ہوتا ہے کہ ’’دس چیزیں‘ دس چیزوں کو کھا جاتی ہیں۔‘‘ ان میں آسانی سے یہ اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ ’’سیاست‘ سچائی کو کھا جاتی ہے۔‘‘ سیاست وہ پیشہ ہے‘ جس میں سچائی ہمیشہ نقصان دیتی ہے اور خان صاحب تو وزیراعظم بننے نکلے ہیں۔ اس منصب تک پہنچنے کے لئے سچائی کسی کام نہیں آ سکتی۔ جو لیڈر اپنے منہ سے یہ کہتا ہو کہ میں ہمیشہ سچ بولوں گا۔ وزیراعظم کیسے بن سکتا ہے؟ عمران خان کا دوسرا وعدہ یہ ہے کہ ’’ظلم ختم کروں گا۔‘‘ دور کیوں جایئے؟ خود خان صاحب کی میزبانی کا تجربہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ عمران خان کا مہمان بننا ‘ بھوک کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اگر بھول چوک سے کوئی مہمان لنچ یا ڈنر کے وقت خان صاحب کا مہمان بن جائے اور وہ گھر سے خالی پیٹ آیا ہو‘ تو اس کا بھوک سے پہلو بدلنا لازم ہو جاتا ہے۔ آخر کوئی کب تک خالی پیٹ بیٹھ کر خان صاحب کے مفکرانہ خیالات سن سکتا ہے۔ بھوک سے بڑا ظلم کسی انسان پر نہیں کیا جا سکتا۔ وہ حکومت میں آنا چاہتے ہیں اور وہ بھی عام حیثیت میں نہیں‘ حکومت کے سربراہ بن کر اور دنیا میں کوئی حکومت ظلم کے بغیر چلائی ہی نہیں جا سکتی۔ آوارہ کتے قابو سے باہر ہو جائیں‘ تو حکومت انہیں مارنے کا حکم دیتی ہے۔ بھوک کا ستایا ہوا کوئی شخص چوری کر بیٹھے‘ تو اسے جیل میں ڈال دیتی ہے اور اس کے بچے بھوکے مرتے ہیں۔ بے گھر لوگ ‘ گرمی یا سردی سے تنگ آ کسی خالی گھر کے ایک کمرے میں گھس جاتے ہیں‘ تو حکومت نکال کر انہیں سڑک پر بے یارومددگار پھینک دیتی ہے۔ اخلاقی لحاظ سے یہ بھی ایک ظلم ہے۔ مگر حکومت اس طرح کے ظلم نہ کرے تو امن و امان برقرار نہیں رہتا۔ ایسے لیڈر کو حکومت کا سربراہ بنانا اپنی موت کو دعوت دینا ہے اور خان صاحب چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے وعدے سن کر انہیں ووٹ دیں۔ خان صاحب کا تیسرا وعدہ ہے کہ ان کا جینا مرنا پاکستان کے لئے ہو گا۔ مجھے کوئی بھی ایسا شہری دکھا دیں‘ جس کا جینا مرنا وطن کے لئے نہ ہو۔ یہی بات مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے لیڈر بھی کہتے ہیں۔ بلکہ وہ تو عملاً اس کا ثبوت بھی دے چکے ہیں۔ وہ پھانسیوں پر چڑھے ہیں۔ انہوں نے گولیاں کھائی ہیں۔ جلاوطن ہوئے ہیں۔ تشدد برداشت کیا ہے۔ انہیں برفوں پر لٹایا اور چھت سے لٹکایا جاتا رہا ہے۔ یہ ساری تکلیفیں انہوں نے پاکستان کے لئے اٹھائی ہیں اور خان صاحب نے اپنی زندگی میں ابھی تک پاکستان کے لئے ایک خراش تک نہیں لگوائی۔ وہ کسی حکومت سے برسرپیکار نہیں رہے۔ کسی آمر کے خلاف انہوں نے جدوجہد نہیں کی اور نہ ہی ایسا کوئی کام کیا جو کسی آمریت کو ان کے خلاف کارروائی کے لئے مجبور کرتا ہو۔ وہ پاکستان کے لئے اچھی کرکٹ ضرور کھیلے ہیں۔ پاکستان کے غریبوں اور بیماروں کے لئے انہوں نے ہسپتال ضرور بنایا ہے۔ بچوں کی تعلیم کے لئے ایک یونیورسٹی ضرور تعمیر کر رہے ہیں۔ لیکن جینے مرنے کی کش مکش میں وہ کبھی مبتلا نہیں رہے۔ جب ایسے کسی امتحان سے گزریںگے‘ تو پھر وہ یہ دعویٰ ضرور کر سکتے ہیں۔ چوتھے وعدے میں خان صاحب نے کہا ہے کہ ’’وہ اقتدار سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔‘‘ اس فائدے کی تفصیل انہوں نے نہیں بتائی۔ کیا وہ وزیراعظم ہائوس میں رہنے سے انکار کر دیں گے؟ کیا وہ غیرملکی دورے‘ مسافر پروازوں میں کریں گے؟ کیا وہ کھانا گھر سے باندھ کر لے جایا کریں گے؟کیا وہ پٹرول اپنا خرچ کریں گے؟ کیا وہ اہل خاندان اور دوستوں کے لئے کھانا بازار سے منگوائیں گے؟ یا سرکاری قیام گاہ میں آئے ہوئے مہمانوں سے وہی سلوک کیا کریں گے‘ جو وہ اپنے گھر آئے ہوئے مہمانوں سے کرتے ہیں؟ خان صاحب کا پانچواں وعدہ ہے کہ’’ وہ قومی دولت کی حفاظت کریں گے۔‘‘ یہ حفاظت کیسے کی جاتی ہے؟ تحریک انصاف نے اس کا کوئی نہ کوئی طریقہ کار ضرور سوچا ہو گا۔ جہاں تک اپنی دولت کی حفاظت کا سوال ہے‘ وہ خان صاحب یقینا کرتے ہیں۔ لیکن قومی دولت کی حفاظت کے لئے انہیں ساری بیورو کریسی نئی لانا پڑے گی۔ کیا وہ ایسا کوئی پروگرام رکھتے ہیں؟ اگر رکھتے ہیں‘ تو عوام کو بتا دینا چاہیے۔ آخری وعدے میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ’’وہ بیرون ملک پاکستانیوں کی عزت میں اضافہ کریں گے۔‘‘ ایٹم بم بنانے والے تو پاکستان کی عزت میں اضافہ نہیں کرا سکے۔ خان صاحب کیا دہشت گردوں کی سرپرستی کے ذریعے پاکستان کی عزت میں اضافہ کرائیں گے؟انہوں نے پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی یا تنظیم کی عزت نہیں کی۔ صرف دہشت گردوں کا ذکر عزت کے ساتھ کرتے ہیں۔عزت کرانے کے لئے بھی ان کے ذہن میں یہی لوگ ہوں گے اور آخری بات بہت ہی معمولی ہے ۔ خان صاحب کے چھ وعدوں میں اپنے لیے تو بے حد ثواب ہے،کسی غریب کے لئے کچھ نہیں ۔ نہ روٹی۔ نہ روزگار۔ نہ امن۔ نہ چوروں سے تحفظ اور نہ مفت تعلیم اور دوا‘ ریاست کی طرف سے مہیا کرنے کی طرف اشارہ۔ ان کے سارے وعدے تصورات کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ حقیقت میں یہ نہ کبھی بدلے ہیں اور نہ بدلیں گے۔ ان سارے وعدوں یا ارادوں کو جزوی طور پر عملی شکل دی جا سکتی ہے۔ مکمل طور سے ایسا ایک بھی وعدہ سوائے نبیوں اور اولیائے کرام کے کوئی عام انسان پورا نہیں کر سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں