آج بی بی سی نے بھی اقتدار کی سیاست میں صحافیوں کی شمولیت کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ نجم سیٹھی کے نگران وزیراعلیٰ بننے پر اظہار خیال کرتے ہوئے‘ میں نے ایک فرق ملحوظ رکھا تھا کہ بنیادی طور پر پیشہ صحافت سے تعلق رکھنے والے صحافی اور ہوتے ہیں اور اقتدار کی دوڑ میں شامل ہونے کے لئے صحافت کو ذریعہ بنانے والے دوسرے۔ بی بی سی نے سیاست اور اقتدار میں آنے والے صحافیوں اور خالص صحافیوں کوایک ہی صف میں شمار کیا ہے۔ میرے نزدیک جن لوگوں نے صحافت کو ذریعہ روزگار بنا کر مختلف شعبوں میں پیشہ ورانہ حیثیت سے کام کیا‘ ان میںاقتدار کا راستہ اختیار کرنے والے بہت کم ہیں۔ حسین حقانی کا خاندانی پس منظر سیاسی نہیں۔ وہ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد‘ انہوں نے انگریزی کے بیرونی جریدوں کے لئے نمائندگی کی اور بطور صحافی اپنی شناخت بنانے کے بعد اقتدار کے کھیل میں حصہ دار بنے۔ وہ پنجاب کی صوبائی حکومت میں بطور مشیر کام کرتے رہے اور پھر سفارتکاری میں چلے گئے۔ واپسی پر سیکرٹری انفارمیشن بنے اور گزشتہ انتخابات کے بعد انہیں ایک بار پھر سفیر بنایا گیا۔ شیری رحمن نے صحافت کو محض روزگار کے لئے پیشہ نہیں بنایا تھا۔ وہ ان کا شوق تھا۔ انہوں نے بہت عرصے تک عملی صحافت میں حصہ لیا اور جب سیاست کی طرف متوجہ ہوئیں‘ توپھر صحافت سے دور بھی چلی گئیں اور انہوں نے سیاست میں اپنی حیثیت بنانے کے لئے صحافت کا سہارا نہیں لیا۔ جب سیاست کی طرف متوجہ ہوئیں‘ تو صحافت کو خیرباد کہا اور پوری طرح سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگیں۔ پہلے پارٹی کی عہدیدار کی حیثیت سے کام کیا اور پھر وزیر اور سفیر بھی بنیں۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد صحافت کو بطور پیشہ اپنایا اور ایڈ یٹرکی حیثیت سے ایک روزنامے کے دفتر میں کام کرتی رہیں۔ عملی سیاست میں انہوں نے بطور ایک دانشور توخدمات انجام دیں لیکن مکمل سیاسی کارکن بننے سے گریز کیا۔ سفارتی عہدہ انہیں بطور ٹیکنوکریٹ ملا۔ مولانا کوثر نیازی نے جماعت اسلامی کے ترجمان اخبار روزنامہ ’’تسنیم‘‘ میں کچھ عرصہ کام کیا لیکن اس کے بعدجماعتی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ رنگ محل کی ایک جامع مسجد میں نماز جمعہ کی امامت کرائی اور انہی دنوں ہفت روزہ ’’شہاب‘‘ کے نام سے ایک جریدہ شائع کرنے لگے۔ انہوں نے بنیادی جمہوریتوں کے الیکشن میں بھی حصہ لیا۔ 1970ء میں جب سیاسی سرگرمیاں تیز ہوئیں‘ تو انہوں نے اپنے ہفت روزہ ’’شہاب‘‘ کو ایک سیاسی جریدہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے ایڈیٹر کی ذمہ داری مجھے دی گئی۔ سرمایہ نہ ان کے پاس تھا نہ میرے پاس۔ مگر میں نے اللہ کا نام لے کر ہفت روزہ ’’شہاب‘‘ کی اشاعت کو باقاعدہ کرنے کے لئے ایجنٹوں اور ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں سے ایڈوانس لے کر ’’شہاب‘‘ کو مارکیٹ میں پہنچایا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی اشاعت اس دور میں ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی‘ جو کسی بھی سیاسی ہفت روزے کی کسی بھی دور میں زیادہ سے زیادہ اشاعت کا ایک ریکارڈ تھا۔ ’’شہاب‘‘ کی اکانومی کا مکمل انحصار روزاول ہی سے اشاعت پر رہا۔ یوں بھی ہوا کہ کسی کمپنی نے ازخود اشتہار بھیج دیا‘ تو میں نے وہ بھی شائع نہ کیا۔ اخبار کی فروخت سے اتنا منافع ہونے لگا کہ مولانا اپنی سیاسی سرگرمیوں کے اخراجات بھی سرکولیشن منافع سے لینے لگے۔ ’’شہاب‘‘ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے‘ بھٹو صاحب نے انہیں پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی اور اس کے ساتھ ہی وہ پوری طرح سے سیاست کے ہو کر رہ گئے۔ گویا وہ صحافت کی خدمت کے بجائے اسے اپنی سیاست کا ذریعہ بنا کر آگے بڑھ گئے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ سیاست میں آنے والے صحافیوں کی رشتہ داری پر لکھتے ہوئے اکثر لوگ سندھ کے قاضی خاندان کو فراموش کر دیتے ہیں۔ یہ خاندان بنیادی طور پر صحافت کے شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی شعبے میں رہتے ہوئے‘ اس کے بہت سے افراد سیاست میں نمایاں ہوئے۔ قاضی عبدالمجید عابد وہ پہلے اخباری مالک تھے‘ جو وفاقی حکومتوں میں متعدد وزارتوں پر فائز رہے۔ ان کے بھائی قاضی اکبرصوبائی وزیربھی رہے اور سفیر بھی بنے۔ قاضی اسد عابد کا تعلق بھی اسی خاندان سے ہے۔ وہ خود صحافی ہیں لیکن قومی اسمبلی کی رکنیت کے علاوہ وفاقی وزارت پر بھی فائز رہے۔قومی اسمبلی کی سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا تعلق بھی سندھ کے اسی صحافتی خاندان کے ساتھ ہے۔ برطانیہ میں پاکستان کے موجودہ ہائی کمشنر واجد شمس الحسن جو ملک کے بڑے اشاعتی ادارے میں میرے ساتھی بھی رہے ہیں‘ جہاں وہ انگریزی روزنامے کے ایڈیٹر تھے اور میں ایک ہفت روزے کا۔ ان کا ذریعہ روزگار بھی صرف پیشہ صحافت تھا۔ سیاست میں حصہ لینے لگے تو صحافت سے لاتعلق ہو گئے اورسفارتی ذمہ داریاں انجام دینے لگے۔ مشاہد حسین سید نے سب سے پہلے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے آزادانہ خیالات رکھنے کی پاداش میں انہیں برطرف کر دیا گیا اور وہ پیشہ صحافت میں چلے گئے۔ ایک عرصے تک صحافت سے وابستہ رہے۔ لیکن جلد عملی سیاست کا حصہ بن گئے‘ تو سوچ سمجھ کر صحافت سے علیحدگی کا فیصلہ کیا اور متعدد اخبارات کی طرف سے تحریری تعاون کی پیش کشوں کو قبول نہیں کیا۔ وہ وفاقی وزیراطلاعات رہ چکے ہیں اور آج کل مسلم لیگ (ق) کے سیکرٹری اطلاعات ہیں۔ ایاز امیرفوج سے الگ ہونے کے بعد سفارتکاری کے شعبے میں چلے گئے اور کچھ عرصے تک پاکستان کے سفارتخانے میں خدمات انجام دیں اور پھر شعبہ صحافت کی طرف رخ کیا اور برصغیر کے نامور لکھنے والوں میں شمار ہونے لگے۔ عالمی صحافت میں انہیں بلند مقام حاصل ہے۔ وہ صوبائی اور قومی اسمبلی دونوں میں نمائندگی کے فرائض انجام دے چکے ہیں لیکن دونوں مرتبہ ہی انہوں نے اپنی آزادی رائے پر ‘ پارٹی پالیسی کو کبھی غالب نہیں آنے دیا۔ جو انہوں نے دیانتداری سے سوچا‘ وہی اسمبلیوں میں بولتے اور اپنی تحریروں میں لکھتے رہے۔ سب سے پہلے جو خالص صحافی وفاقی کابینہ کا رکن بنا‘ وہ ’’ڈان‘‘ کے ایڈیٹر الطاف حسین تھے۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو اخباری گروپوں کے مالکان نہ صرف سیاست میں حصہ لیتے رہے بلکہ مشرقی پاکستان میں انہیں بادشاہ گر بھی کہا جاتا تھا۔ ارشاد احمد حقانی بھی بنیادی طور پر صحافی تھے۔ وہ بھی جماعت اسلامی کے اخبار روزنامہ ’’تسنیم‘‘ سے وابستہ رہے مگر جلد ہی تعلیم و تدریس کے شعبے میں چلے گئے۔ یہ ملازمت ریٹائرمنٹ تک جاری رکھی۔ ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ پہلے وہ روزنامہ ’’جنگ‘‘ سے وابستہ ہوئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا انحصار بھی مکمل طور پر صحافت پر ہو گیا۔ اسی صحافیانہ حیثیت میں وہ ملک معراج خالد کی کابینہ میں وزیراطلاعات و نشریات بنے۔ نجم سیٹھی بھی اسی کابینہ میں شامل تھے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری اور بشریٰ رحمن دونوں ہی خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ شوق کی خاطر صحافت کے شعبے کی طرف رخ کیا۔ بشریٰ رحمن کا شمار ملک کے سینئر کالم نویسوں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک جانی پہچانی ناول نگار بھی ہیں۔ شیریں مزاری عالمی اور ملکی سیاست کی ایک سنجیدہ طالب علم ہیں۔ اب تو انہیں باقاعدہ سکالر کا درجہ حاصل ہے۔ وہ ایک سٹڈی سرکل کی سربراہ بھی رہ چکی ہیں اور اس سے پہلے انگریزی کا ایک مقبول جریدہ بھی نکالتی رہیں۔ عملی سیاست میں حصہ لینے کے لئے انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور بہت عرصے تک وہ عمران خان کے بااعتماد ساتھیوں میں شمار ہوتی رہیں۔ درمیان میں ایک چھوٹے سے معاملے پر ناراض ہو گئیں مگر اب دوبارہ اپنی پارٹی میں سرگرم ہو چکی ہیں۔ میں نے اس جائزے میں صرف یاددہانی کرائی ہے کہ کتنے صحافی سیاست میں آ کر اقتدار کے کھیل میں حصہ دار بنے؟ اور اس فرق کو دیکھنا آپ کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے کہ کون محض اقتدار میں حصے دار بننے کے لئے بذریعہ صحافت سیاست میں آیا؟ اور کون حقیقی طور پر صحافی تھا اور کون صحافیانہ حیثیت سے فائدہ اٹھا کے سیاسی جماعتوں کی ضرورت بنا؟ اور قیادت نے خود سیاست میں آنے کی دعوت دی۔ میاں عامر سیاست سے صحافت کی طرف آئے۔ لیکن ابتدائی سالوں میں ہی انہیں پنجاب کا نگران وزیراعلیٰ بننے کی دعوت دی گئی۔ مگر انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ میں صحافیانہ مصروفیات کو وزارت اعلیٰ پر ترجیح دیتا ہوں۔یہ ایک غیرروایتی طرزعمل ہے۔ لوگوں کو صحافت میں رہ کر اقتدار میں جانے کا موقع ملے‘ تو وہ لپک کر اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور میاں عامر نے اقتدار میں جانے کی دعوت قبول کرنے سے اس لئے معذرت کی کہ وہ میڈیا کو ترجیح دیتے ہیں۔یاددہانی کے لئے عرض ہے‘ کالم نصابی کتاب کی کہانیوں کی طرح نہیں ہوتا۔ جس کے آخر میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کہانی کے اندر کیا سبق دیا گیا ہے؟ اس کالم میں کوئی سبق نہیں۔ صرف ایک واقعاتی جائزہ ہے۔