"NNC" (space) message & send to 7575

قومی جوتا

مشتاق احمد یوسفی‘ 1965ء میں ’’قومی جوتا‘‘ کے عنوان سے طنزومزاح سے بھرپور ایک قسط وار مضمون لکھا کرتے تھے۔ دس بارہ سال پہلے جب میں نے ذکر کیا تو یوسفی صاحب نے بتایا ’’نہ تو انہیں اپنا وہ مضمون یاد ہے اور نہ ہی ان کے ذاتی ریکارڈ میں موجود ہے۔‘‘ اس پر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ اگر کسی کے پاس روزنامہ ’’انجام‘‘ کراچی کا اس دور کا ریکارڈ ہو یا کسی لائبریری میں نکل آئے‘ تو وہ اس کی کاپی یوسفی صاحب کو بھی بھجوا دیں۔ مجھے یاد ہے‘ جب ’’نقوش‘‘ کا افسانہ نمبر مرتب ہو رہا تھا‘ تو اشفاق احمد کا ناولٹ ’’گڈریا‘‘ اسی طرح کمیاب تھا۔ خود اشفاق صاحب کے پاس بھی نہ طبع شدہ کاپی تھی اور نہ ہی کتاب۔محمد طفیل مرحوم نے مجھے ذمہ داری دی ۔ میں نے دوچار جگہ ڈھونڈکر ہی اس کا سراغ پا لیا۔ پنجاب پبلک لائبریری میں ’’گڈریا‘‘ کتابی شکل میں موجود تھی اور کمیاب کتابوں میں ہونے کی وجہ سے‘ لائبریری کی انتظامیہ نے اسے جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ فوٹوسٹیٹ مشین موجود نہ تھی۔ میں نے پوری کی پوری کتاب لائبریری کے اندر بیٹھ کر اپنے ہاتھ سے لکھی جو ’’نقوش‘‘ کے افسانہ نمبر میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئی۔ اگر یوسفی صاحب کا ’’قومی جوتا‘‘ کہیں سے دستیاب ہو جائے‘ تو یہ قیمتی ادب پارہ محفوظ ہو سکتا ہے۔ یوسفی صاحب جیسے اہل قلم باربار پیدا نہیں ہوتے۔ ان کی لکھی ہوئی ایک ایک سطرکا محفوظ ہونا ضروری ہے۔ سابق صدر جنرل پرویزمشرف پر جب کراچی میں جوتا پھینکا گیا‘ تو ٹی وی پر اس کا منظر دیکھ کر مجھے ’’قومی جوتا‘‘ یاد آ گیا۔ یہ جوتا چونکہ قلمی تھا اور اسے تیار کرنے والے مشتاق احمد یوسفی تھے۔ اس لئے اس کی مخملی چوٹوں کی ٹیس بڑی دھیمی تھی۔ تب ٹی وی چینل بھی نہیں تھے کہ اس تحریر پر مبنی ڈرامے یا ٹاک شو‘ انورمقصود کی طرح‘ کرداروں کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کئے جاتے۔ اب ایک جوتاچلتا ہے‘ تو پل بھر میں ساری دنیا اسے دیکھ لیتی ہے۔ عراق میں صدر بش پر چلایا گیا جوتا‘ دنیا بھر میں مشہور ہو گیا تھا۔ یہ ایک صحافی نے مارا تھا۔ صحافی یہ کام نہیں کیا کرتے۔ عراق کو جس جارحیت اور ظلم کا نشانہ بنایا گیا تھا‘ اس کا شکار ہونے والوں میں غم وغصہ انتہائی شدید ہوتا ہے۔ قلمی جوتے پر تسلی نہیں ہوتی۔ ہرچند صدربش نہایت پھرتی سے‘ اپنے آپ کو جوتے سے بچانے میں کامیاب رہے۔ لیکن عراقیوں کی نفرت اور غصے کی کیفیت پوری دنیاکے سامنے آ گئی۔ یہی وجہ تھی کہ کسی کو صدر بش کا وہ بیان تک یاد نہ رہا‘ جو وہ جوتے والی پریس کانفرنس میں دے رہے تھے۔ ہرطرف جوتے کی خبریں چل رہی تھیں اور جوتے کی فٹیج ٹیلی ویژن چینلز پر باربار دکھائی جا رہی تھی۔ وہ صحافی چند ہی لمحوں میں اتنا مشہور ہوا کہ زندگی بھر صحافیانہ خدمات انجام دے کر بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ قومی جوتا خریدنے والوں میں مقابلہ شروع ہو گیا۔ ہر کوئی دوسرے سے بڑھ کے قیمت لگانے لگا۔ اس کی جو آخری قیمت لگی وہ لاکھوں میں تھی۔ مجھے یاد نہیں رہا کہ وہ کتنے لاکھ تھے اور یہ بھی یاد نہیں کہ صحافی نے وہ قومی جوتا بیچ دیا تھا یا بطور یادگار اپنے گھر یاعراق کے کسی میوزیم میں محفوظ کرا دیا۔ لیکن امریکہ کے حکمران طبقے اس جوتے کو کبھی نہیں بھُلا پائیں گے۔ شاید امریکی جارحیت کا شکارہونے والے عوام کی مزاحمت نے ‘ امریکی حکمرانوں کے حوصلے اس طرح نہ توڑے ہوں‘ جیسے ایک جوتے نے توڑے۔ اگر امریکی حکمرانوںمیں جارحانہ جنگوں کی پالیسی پر نظرثانی کا احساس پیدا ہوا‘ تو یقینا عراق کے قومی جوتے کا اس میں ضرور دخل ہو گا۔ اگر آپ کو یاد ہو‘ تو یہ عراق کے قومی جوتے ہی کا اثر تھا ‘ جس کی وجہ سے امریکیوں نے ’’بوٹس آن گرائونڈ‘‘ کے طریقہ کار کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ نہ امریکی فوجی بیرون ملک لڑنے جائیں گے‘ نہ حکومتی عہدیداروں کو مظلوموں کے سامنے جانے کی ضرورت پڑے گی۔ عراق کے بعد افغانستان سے بھی امریکی فوجیوں کو نکالنے کا فیصلہ ہوا۔ اب امریکیوں کی جنگ ان کے ایجنٹ لڑا کریں گے اور امریکہ صرف فضائی کارروائیوں سے اپنے ایجنٹوں کی مدد کرے گا۔ لبیا میں اس کی مثال سامنے آ چکی ہے اور اب شام میں بھی امریکہ ایسی جنگ لڑ رہا ہے‘ جس میں اس کا ایک بھی سپاہی شامل نہیں۔ پاکستان کا قومی جوتا‘ ہماری تاریخ پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟اس کا جائزہ بڑے تحمل‘ احتیاط اور باریک بینی سے لینا چاہیے۔ صدر بش اور ان کی ٹیم نے ایک قومی جوتے کی جھلک دیکھ کر ہی اسباب و وجوہ پر غور شروع کر دیا تھا۔ لیکن ہمارے سابق صدر جوتم پیزاری میں‘ اپنی برتری کے دعوے کرتے نظر آئے۔ انہوں نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی کہ ایک حاکم مطلق بن کر ملک پر حکمرانی کرنے والے شخص کے لئے ‘اس واقعہ میں عبرت کا کتنا سامان ہے؟ عراقی جوتے میں عبرت کے سامان نے ‘ وہاں کے حکمران طبقوں کی سوچیں بدل دی تھیں۔ لیکن ہمارے محبوب سابق صدر اسے جوتے بازی کا میچ سمجھ کر فخر سے کہہ رہے تھے کہ ’’آپ نے اس کا جوتا تو دیکھا ہے۔ یہ معلوم نہیں کیا کہ اس کی کیا حالت بنی؟‘‘ ہمارے سابق صدر ابھی تک یہی سمجھ رہے ہیں کہ اصل مقابلہ جوتے بازی کا تھا۔ جس میں ان کے حامیوں نے جوابی جوتے بازی کرکے فتح کا پرچم بلند کیا۔ شاید انہیں یہ شکایت تھی کہ اخبارنویس ان کی فتح کا چرچا کرنے کے بجائے‘ ایک مشتعل پاکستانی کے جوتے کو زیادہ کوریج دے رہے ہیں۔ یقینا سابق صدر پرویزمشرف کو یہ دکھ بھی ہو گا کہ ٹی وی چینلوں نے جو شاٹس بار بار دکھائے‘ ان میں مرکزی کردار سابق صدر کانہیں بلکہ اس جوتے کا تھا‘ جو باربار دکھایا گیا ۔ ستم ظریفی یہ کہ جوتے کو نمایاںکرنے کے لئے‘ اس کے گرد ہر انچ پر دائرے بنائے گئے۔ جبکہ سابق صدر کو یوں نظرانداز کیا گیا ‘ جیسے وہ جوتے کے برابر بھی نہیں۔ یہ بڑی ناانصافی ہے اور کچھ نہیں‘ تو جوتے اور چہرے کو مساوی اہمیت ضرور دینا چاہیے تھی۔ مجھ سے جب ایک ٹی وی چینل کے نیوز اینکر نے تبصرے کے لئے کہا‘ تو میرا جواب تھا کہ ’’جوتا بڑی دیر سے چلا۔ ہاتھ کو جوتا اتارنے کے لئے پیر تک پہنچتے پہنچتے قریباً 15 سال لگ گئے۔ یہی جوتا 12 اکتوبر کو چل گیا ہوتا‘ تو ہم کیسی کیسی تباہی سے بچ سکتے تھے؟ آج پاک فوج دہشت گردی کے جس عفریت سے نمٹنے میں مصروف ہے اور جس میں ہمارے 4ہزار سے زیادہ جوان اور افسر شہید ہو چکے ہیں۔ ہمارے 40ہزار سے زیادہ عام شہریوں کی جانیں قربان ہوئی ہیں۔ ہماری ریاست کے دست و بازو مضمحل ہو چکے ہیں اور وہ اپنے ہی ملک کے شہروں اور علاقوں میں امن قائم کرنے کی جدوجہد پر مجبور ہیں‘ ہم اس طرح کے بے شمار سانحوں سے محفوظ رہ سکتے تھے۔ ‘‘ جہاں تک جوتے کا سوال ہے‘ پرویزمشرف کے لئے وہ کوئی نئی چیز نہیں۔ انہوں نے کارگل پر مہم جوئی کر کے‘ جس طرح دو ایٹمی طاقتوں کو جنگ کے کنارے پہنچا دیا تھا اور پھر بھارتیوں کو کنٹرول لائن پار کر کے‘ پاکستانی پوزیشنوں پر بمباری کاموقع دیا تھا‘ وہ کچھ بھی ہو‘ توہین آمیز تھا۔ ایک جنگی منصوبہ بنانے والا جنرل خود اپنے ہی منصوبے کے نتیجے میں ‘ اپنے زیرکمان لڑنے اور شہادتیں دینے والوں کی میّتیں قبول کرنے سے انکار کر دے۔ کیا یہ باعثِ شرم نہ تھا؟ لیکن کیا مجال ہے کہ پرویزمشرف نے ابھی تک اپنے اس فعل پر ندامت کا اظہار کیاہو؟ محاذ پر لڑنے والے سپاہی اپنے کمانڈر کی اولاد کی طرح ہوتے ہیں۔ اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں ہو سکتا کہ اپنے ہی حکم پرجانیں قربان کرنے والوںسے لاتعلقی ظاہر کر کے‘ ان کی میّتیں لینے سے بھی انکار کر دیا جائے۔ مجھے اپنی ایک سرخی یاد آ رہی ہے۔ 1977ء میں جب جنرل ضیاء الحق نے 90دنوں میں الیکشن کرانے کا وعدہ توڑا ‘ تو میں اس وقت اپنا روزنامہ شائع کیا کرتا تھا۔ آمریت کو طول دینے کے اس فیصلے پر میں نے ایڈیٹوریل کی جگہ ایک جفت ساز کمپنی کا اشتہار شائع کر دیا‘ جس میں مختلف جوتوں کے ڈیزائن چھپے ہوئے تھے۔ اس کے اوپر سرخی جمائی ’’جوتے تمہارے منتظر ہیں۔‘‘ عوام دشمنی کرنے والوں پر لوگ کسی نہ کسی انداز میںجوتے برساتے رہتے ہیں۔ مگر انہیں سمجھ نہیںآتی۔ حیرت تو اس پر ہے کہ سچ مچ کے جوتے کانشانہ بن کر بھی سابق صدر حقیقت کو سمجھنے سے انکاری ہیں اور تن کر جواب دیتے ہیں کہ ’’مجھ پر جوتا چلانے والے کا انجام دیکھا؟‘‘ جوتا بھی شرم سے پانی پانی ہو رہا ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں