"NNC" (space) message & send to 7575

بچو! جھوٹ مت بولو

جب اراکین اسمبلی پر ڈگری یافتہ ہونے کی پابندی لگی تھی‘ تو میں نے اسی وقت لکھا تھا کہ کوئی بھی امیدوار عدالت میں جا کر استدعا کر سکتا ہے کہ ’’بطور ووٹر‘انتخابات میں حصہ لینا میرا بنیادی حق ہے۔ آرڈی نینس یا قانون کے ذریعے میرا یہ حق چھینا نہیں جا سکتا۔ امیدوار بننے کے لئے ڈگری کی پابندی لگانا‘ میرے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا جو بھی آرڈی نینس یا قانون مجھے اس حق سے محروم کرتا ہے‘ اسے خلاف آئین قرار دیا جائے۔‘‘ ہمارے ملک کی قسمتیں بنانے اور سنوارنے کا اختیار مانگنے والوں کو اپنے اس بنیادی حق کا بھی خیال نہیں تھا۔سب جانتے تھے کہ عدلیہ ایک آمر کے حکم کو کالعدم قرار نہیں دے گی۔ اس کے باوجود ان میں سے کسی کو عدالت میں جا کر یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہیے تھی کہ پی-سی- او کی عدلیہ نے ایک شہری کے بنیادی حق کا تحفظ نہیں کیا۔ جہاں تک اس قانون کا تعلق ہے‘ میں نے اس کے بارے میں واضح طور سے لکھ دیا تھا کہ اسے بدنیتی سے بنایا گیا ہے۔ یہ بات ایک سے زیادہ صحافیوں کے علم میں ہے کہ جن دنوں قانون تیار ہو رہا تھا‘ جنرل پرویزمشرف نے صحافیوں سے ایک ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ ملاقات ختم ہونے پر جب میزبان گھلے ملے‘ تو امتیاز عالم نے اس مسئلے پر کوئی بات کی اور جنرل مشرف نے جو کچھ جواب میں کہا‘ اسے ایک سے زیادہ صحافیوں نے سنا۔ جنرل صاحب کا جواب یہ تھا’’یہ جو سیاستدان بنے پھرتے ہیں‘ ان میں سے آدھے تو ڈگری کی پابندی سے ہی باہر ہو جائیں گے۔‘‘میں نے یہ الفاظ براہ راست نہیں سنے ۔ جو صحافی قریب کھڑا تھا‘ مجھے اس کے ذریعے معلوم ہوئے۔ ان دنوں میں نے یکے بعد دیگرے جو متعدد کالم لکھے۔ ان کی تلخیص چیف جسٹس آف پاکستان نے‘ ڈگری کیس کی سماعت کے دوران ایک جملے میں کر دی‘ جو آج کے اخباروں کی شہ سرخیوں میں شائع ہوئی ہے۔ ’’ان پڑھ الیکشن کے اہل ہو سکتا ہے۔ جعلی ڈگری والا نہیں۔‘‘ گویا میرے اس موقف کی تائید ہو گئی کہ اسمبلی میں جانے کے لئے ڈگری کی ضرورت نہیں۔ یہ بات آئین کا تحفظ کرنے والے سب سے بڑے ادارے کے سربراہ نے کہی ہے‘ جو یقینا درست ہے۔ جعلی ڈگری کا معاملہ دانستہ دروغ گوئی کا ہے‘ جو عام قوانین کے تحت بھی جرم ہے اور نافذالعمل آئین کی دفعہ 62 اور 63 کے تحت مصدقہ طور پر جھوٹ بولنے والا شخص‘ عوامی نمائندگی کا اہل نہیں رہتا۔ جعلی ڈگری والوں کو سزائیں ملنا شروع ہو چکی ہیں اور جو سزا ملی یا آئندہ ملے گی‘ وہ جھوٹ بولنے کے جرم پر ہوں گی۔ ان پڑھ ہونے کی کوئی سزا نہیں۔ مجھے دو مرتبہ ایسے فارم بھرنا پڑے‘ جن میں تعلیمی قابلیت درج کرنا تھی۔ پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان میں سکرپٹ سپروائزر کے کنٹریکٹ میں اور دوسری مرتبہ کنٹریکٹ پر حکومت پاکستان میں گریڈ 22 کی ملازمت قبول کرتے وقت۔ جس کی پیش کش مجھے وزیراعظم نوازشریف نے کی تھی۔ میں نے دونوں مرتبہ تعلیم کے خانے میں’’ اکتسابی ‘‘ (Self Educated)لکھا۔ جھوٹ بولنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ میں جانتا تھا کہ میری کارکردگی سب کچھ ظاہر کر دے گی۔ احتیاطاً میں نے اکادمی ادبیات کی سربراہی کی پیش کش قبول کرتے وقت ‘ وزیراعظم نوازشریف کو بتا دیا تھا کہ میرے پاس کوئی ڈگری نہیں۔ جس پر انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ’’فکر نہ کریں۔ کسی نے اعتراض کیا تو میں آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے دوں گا۔‘‘ کسی نے اعتراض ہی نہیں کیا۔ ورنہ آج میں ڈاکٹر ہوتا۔ حقیقت میں ملک کا منتخب چیف ایگزیکٹو‘ کنٹریکٹ پر کسی کو بھی ذمہ داریاں تفویض کر سکتا ہے۔ اس وقت ڈگری کی پابندی کو‘ بدنیتی سے استعمال کرتے ہوئے کسی کو کام سے محروم نہیں کیا جاتا تھا۔ صورتحال آج بھی کم و بیش وہی ہے۔ ڈگری کی پابندی ایک غاصب نے لگائی تھی اور اس میں بدنیتی یہ تھی کہ پارلیمانی امور کا تجربہ اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے تجربہ کار سیاستدان اسمبلیوں سے باہر رہ جائیں اور جو باقی ماندہ اسمبلیوں کے اندر آئیں‘ ان کے ساتھ سودے بازی کر لی جائے۔ سیاسی لیڈروں اور جماعتوں کو طویل انتظار اور بے پناہ تکالیف اٹھانے کے بعد ایک آمر سے جان چھڑانے کا راستہ مل رہا تھا۔ انہوں نے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے ناجائز پابندی برداشت کر کے انتخابات میں حصہ لے لیا اور جیسے کہا جاتا ہے کہ جان بچانے کے لئے ممنوع چیزیں بھی کھائی جا سکتی ہیں‘ اس ناجائز قانون کی پابندی کر لی گئی۔ لیکن اسمبلیوں میں پہنچے ہوئے نمائندوں نے اس غیرآئینی پابندی کو ختم کرنے کی بجائے‘ اپنی ممبری بچانے اور مفادات حاصل کرنے کو ترجیح دی۔ جس کی سزا جعلی ڈگریاں لینے والے آج بھی بھگت رہے ہیں۔ قانون اپنے راستے پر چل رہا ہے اور جب تک موجود ہے‘ چلتا رہے گا۔ یہ قانون ختم ہو کر بھی‘ اپنے اہداف کی جان نہیں چھوڑے گا۔ کیونکہ اس کی موجودگی میں جن لوگوں نے جعلی ڈگریاں پیش کیں یا جھوٹے دعوے کئے‘ (جن کی آج تک تصدیق نہیں ہو سکی) انہیں بہرحال سزا بھگتنا پڑے گی۔ کیونکہ قانون کی موجودگی میں انہوں نے جعلی سازی اور جھوٹ سے کام لیا اور یہ دونوں جرائم قابل سزا ہیں۔ آج یہ قانون موجود نہیں‘ سزائیں اس جرم پر دی جا رہی ہیں‘ جو قانون کی موجودگی میں کیا گیا۔ آج بقول چیف جسٹس آف پاکستان‘ ان پڑھ آدمی الیکشن لڑ سکتا ہے۔ جعلی ڈگری والا نہیں۔ جن لوگوں نے جعلی ڈگری کا راستہ اختیار کیا‘ انہیں یا تو عدالت کی طرف رجوع کرنا چاہیے تھا یا اسمبلیوں میں جا کر اس قانون کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے ختم کر کے‘ وضاحت کر دی جاتی کہ اس غیر آئینی قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سزا سے مستثنیٰ ہیں۔ اس معاملے میں جعلی ڈگری پر اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کو خود پیش عملی کرنا چاہیے تھی۔ آج اگر ان لوگوں کو سزائیں مل رہی ہیں‘ تو اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ کی کارروائی پڑھ کر ‘ان لوگوں کو کتنی شرم آتی ہو گی جو گزشتہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر‘ چوہدری نثار علی خان کی شاندار پارلیمانی کارکردگی کی تحسین کرتے رہے ہوں گے یا ان کے بارے میں یہ تصور رکھتے ہوں گے کہ وہ بہت صاف گو اور کھری بات کرنے والے لیڈر ہیں۔ ان کے وکیل نے سپریم کورٹ میں صفائی دیتے ہوئے کہا ’’چوہدری نثار نے برن ہال سے او لیول اور ایچی سن سے اے لیول کیا ہے۔‘‘ عدالت عظمیٰ کے ایک معزز جج‘ جواب میں فرماتے ہیں ’’اس دور میں اے لیول ہوتا ہی نہیں تھا۔‘‘ چوہدری نثار کا احترام کرنے والوں اور ان کے مداحوں پر یہ سن کر کیا گزری ہو گی؟ یہ مخالفین کی طرف سے سیاسی الزام تراشی نہیں ہے۔ واقعاتی رپورٹ ہے۔ چوہدری صاحب پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں جو تعلیم لکھی‘ اس کے مطابق اسناد پیش نہیں کیں۔ جواب میں چوہدری صاحب کے وکلاء فرماتے ہیں کہ انہوں نے ’’او لیول اور اے لیول کر رکھاہے۔‘‘ عدالت عظمیٰ کی طرف سے جواب آتا ہے کہ جب چوہدری صاحب طالب علم تھے تو او لیول ہوتا ہی نہیں تھا۔یہ ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ بن جائے گا‘ جسے حل کرنے میں چوہدری صاحب کو مزید مشکلات کا سامناکرنا پڑے گا۔مجھے نہیں معلوم کہ چوہدری صاحب جس برن ہال میں پڑھے‘ وہ مشنری برن ہال ہے یا ملٹری برن ہال؟ اور کیا ملٹری برن ہال میں اس وقت او لیول تھا؟ یہ سب کچھ کر کے وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک معزز جج کو جھٹلائیں گے‘ جو ظاہر ہے ناممکنات میں سے ہو گا۔ اے اور او لیول کی بحث کے سلسلے میں ادھر ادھر جھانکتے ہوئے میرے سامنے ’’وکی پیڈیا‘‘ میں چوہدری نثار علی خان کے کوائف آ گئے۔ ان میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ہائیرایجوکیشن کمیشن نے چوہدری صاحب کے انٹر سرٹیفکیٹ کو جعلی قرار دیا ہے۔‘‘ اسی سائٹ پر یہ بھی درج ہے کہ ’’2008ء میں پاکستان میں امریکی سفیر این پیٹرسن کو چوہدری نثار نے بتایا کہ ’’مسلم لیگ (ن) کو امریکی پالیسیوں پر تنقید کرنا پڑتی ہے۔ کیونکہ ہمیں عوام کے سامنے اپنے کریڈیبلٹی کا خیال رکھنا ہوتاہے۔‘‘چوہدری صاحب نے اپنی بیگم صاحبہ اور بچوں کی امریکی شہریت کا بھی اعتراف کیا۔ انتخابی مہم کے دوران ‘ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ بات جعلی ڈگریوں سے چلی تھی۔ مجھے اسی کی طرف آنا چاہیے۔ ایک جھوٹ کتنے بڑے بڑے لوگوں کو مصیبت میں ڈال دیتا ہے۔ میری دعا ہے چوہدری صاحب کے سرٹیفکیٹ دستیاب ہو جائیں۔ مصدقہ دستاویزات کے بغیر ان کے ساتھ‘ ان کی جماعت کو بھی مشکل سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میری تو کوئی پبلک لائف نہیں لیکن مجھ جیسے معمولی آدمی کو بھی اندازہ تھا کہ تحریری غلط بیانی‘ زندگی میں کہیں بھی پکڑی جا سکتی ہے اور اس کے بعد منہ دکھانا آسان نہیں رہتا۔بہت سے دکھاتے بھی رہتے ہیں۔بہتر یہ ہے کہ سچائی کا راستہ چنا جائے‘ خواہ اس میں کتنی ہی مشکلات آئیں؟پرویزمشرف سچے تھے۔ انہوں نے ڈگری کا قانون بنا کر بہت سے سیاستدانوں کو راستے سے ہٹایا اور بہت سے ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں۔اس کالم کا سبق یہ ہے ’’بچو! جھوٹ مت بولو۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں