مسرت شاہین نے 62 اور 63 پاس کر کے انتخابات میں امیدوار بننے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ مسرت شاہین جیت گئیں تو آنے والی قومی اسمبلی بھی جانے والی اسمبلی کی طرح پُررونق اور باوقار ہو گی۔ ورنہ میں سوچ رہا تھا کہ کشمالہ طارق کے بغیر نئی اسمبلی کیسی ہو گی؟ مسرت شاہین کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ جب انہوں نے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو کہا جا رہا تھا کہ اس مرتبہ الیکشن میں حصہ لینے والوں پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں اور امیدواروں سے جو سوالات کیے جا رہے ہیں وہ اتنے مشکل اور سخت ہیں کہ بڑے بڑے متقی‘ پرہیزگار اور صاحب علم و فن بھی انہیں سن کر حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ اُن سے جواب نہیں بن پڑتے۔ مسرت شاہین نے زندگی کا بڑا حصہ فلم سٹوڈیوز میں فن کی خدمت کرتے ہوئے گزارا ہے‘ وہ یہ کڑا امتحان کیسے پاس کر پائیں گی؟ آفرین ہے اس باہمت خاتون پر کہ جو نیک اور پاکدامن لوگ گناہگاروں‘ نظریہ پاکستان کے مخالفوں اور امانت میں خیانت کرنے والوں کا راستہ روکنے پر مامور تھے‘ وہ سب کا بزن کر گئی: بڑے بڑوں نے الیکشن کی پاسبانی کی مگر وہ گھس ہی گئی خیر ہو جوانی کی انتخابی مقابلوں کو پاکیزہ‘ شفاف‘ بے داغ اور پارسائوں کے دامن کی طرح صاف رکھنے کے لیے گناہگاروں‘ نظریہ پاکستان کے مخالفوں اور امانت میں خیانت کرنے والوں کے راستے روکنے کی زبردست تدابیر کی گئی ہیں۔ جس کسی نے بھی 1947ء سے پہلے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی یا قائد اعظمؒ کے ساتھیوں میں شامل نہیں ہوا تھا‘ وہ نظریہ پاکستان کا مخالف ہے۔ ہرچند اس وقت نظریہ پاکستان کی ترکیب وضع نہیں ہوئی تھی۔ اسی لیے پاکستان کا جو پہلا دستوری خاکہ بنایا گیا‘ اس میں نظریہ پاکستان کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ خود قائد اعظمؒ نے 11 اگست کو دستور ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے آئین کے جو بنیادی خدوخال واضح کیے تھے‘ ان میں بھی نظریہ پاکستان کی ترکیب موجود نہیں تھی۔ یہ ترکیب پہلی بار سرکاری طور پر جنرل یحییٰ خان کے دور میں‘ ان کے وزیر اطلاعات جنرل (ر) شیر علی خان کے ایک ماتحت محکمے نے رائج کی تھی۔ اسے مذکورہ محکمے کے زیراثر سیاسی جماعتوں اور اخبارات و رسائل نے پھیلانا شروع کیا اور اس کی تشہیر اتنی کثرت سے کی گئی جیسے واقعی تحریک پاکستان کے پیچھے کوئی نظریہ پاکستان کارفرما تھا اور اس کی حیثیت اتنی مقدس ہے کہ ذکر شروع کرنے سے پہلے وضو کر لینا چاہیے۔ یحییٰ خان کا ایجاد کردہ نظریہ پاکستان اور وضو؟ اب تو یہی ہو گا۔ فاسق و فاجر اور گناہگار ایاز امیر نے پاکستان کے ایک ممتاز کالم نویس اور قائد اعظمؒ کے خاندان سے راہ و رسم رکھنے والے خاندان کے ایک فرد‘ اردشیرکائوس جی کی موت پر کالم لکھ دیا تھا۔ قائد اعظمؒ سے نسبت رکھنے والے ایک شخص کے لیے اچھے الفاظ لکھنے کا گناہ کیا کم تھا کہ کالم نویس نے ایک کافر کو موضوع بحث بنایا اور پھر اس کی تعریف کی! ظلم یہ کہ مملکت خداداد پاکستان میں واقع اس کے گھر کے اندر موجود‘ اس ناپاک مشروب کا ذکر بھی کر دیا جس کا نام لینے سے نیک لوگوں کے وضو ٹوٹ جاتے ہیں۔ ایسی نجس تحریر لکھ کر ایاز امیر نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کر دیا تھا کیونکہ اس ناپاک مشروب کا ذکر بھی نظریہ پاکستان کی مخالفت ہے، اس لیے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں داخل ہونے کے ہرگز مستحق نہیں رہ گئے۔ یہ ارباب بست و کشاد کی فراخ دلی اور شرافت تھی کہ پاکستان میں ان کی موجودگی برداشت کر لی گئی۔ ایاز امیر کو چاہیے تھا کہ اس مہربانی پر وہ نظریہ پاکستان کے محافظوں کے شکرگزار ہوتے اور خود ہی اپنی جان اور خاندان کو بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کر لیتے۔ ان کی دیدہ دلیری دیکھیے کہ وہ منہ چھپا کر جینے کے بجائے پھر سے قومی اسمبلی میں داخل ہونے کا حوصلہ کر بیٹھے اور کاغذات نامزدگی لے کر پریذائیڈنگ افسر کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ نیک اور پاک باز لوگوں کے صبر کا یوں امتحان نہیں لیا جاتا۔ کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں کہ ایاز امیر نے پہلے کالم لکھا، پھر چھپوایا، پھر اس کا اردو ترجمہ شائع کرایا اور اس کے بعد انتخابی امیدوار بننے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی جسارت کر بیٹھے۔ الیکشن کمیشن کے مقررکردہ افسروں کو فرائض کی ادائی کے سلسلے میں امیدوار کے لکھے ہوئے پلید کالم کے قابل اعتراض حصے پڑھنا پڑے جس کے بعد کاغذات نامزدگی کا مسترد ہونا یقینی تھا۔ یہ امیدوار کی خوش نصیبی تھی کہ صرف کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر جان چھوٹ گئی ورنہ جس طرح انتخابی امیدواروں کو تھوک کے حساب سے سزائیں اور جرمانے کیے جا رہے ہیں‘ ایاز امیر کا بچ رہنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ میں تو پریذائیڈنگ آفیسر کی نرم دلی‘ خدا ترسی اور قدردانی کا قائل ہو گیا ہوں۔ یقیناً وہ اہل قلم اور صحافیوں سے پیار کرنے والی شخصیت ہوں گے، ورنہ نظریہ پاکستان کی خلاف ورزی جیسے سنگین جرم پر صرف کاغذات نامزدگی مسترد کر کے چھوڑ دینا بہت مشکل تھا۔ جہاں جعلی ڈگری پر دھڑادھڑ سزائیں دی جا رہی ہوں‘ وہاں نظریہ پاکستان کی مخالفت کرنے والے کو سزائوں کے بغیر چھوڑ دینا دل گردے کا کام ہے۔ اگر پریذائیڈنگ افسر کے بدخواہ یہ کہنا شروع کر دیں کہ انہوں نے نظریہ پاکستان کی مخالفت کو جعلی ڈگری لینے کے جرم سے بھی کم تر سمجھا ہے تو ان کی زبان کون روک سکتا ہے؟ اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ کئی قومی اسمبلیوں کے کرپٹ ممبروں نے آئین کی قابل احترام شقوں 62 اور 63 کی بنیاد پر قانون سازی سے گریز کیا۔ اگر وہ قانون سازی کر کے نظریہ پاکستان کی واضح تشریح کر دیتے اور پھر اس تشریح کی روشنی میں جرم کی تعریف کر کے تعزیرات پاکستان میں شامل کر دیتے تو ایاز امیر جیسے گناہگاروں کو پھانسی‘ قید یا جلاوطنی کی سزا دی جا سکتی تھی۔ اب بھی الیکشن کمیشن اگر فرض شناسی سے کام لیتا تو ہر امیدوار سے یہ حلف لیا جا سکتا تھا کہ وہ نظریہ پاکستان کی مخالفت کرنے والوں کے سنگین جرم پر قانون سازی کر کے اسے تعزیرات پاکستان کا حصہ بنانے میں مددگار ہو گا تاکہ اسے تعزیرات پاکستان میں شامل کر لیا جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ نظریہ پاکستان کی تعریف کیا کی جائے؟ کیونکہ جب بھی کوئی قانون بنتا ہے تو سب سے پہلے ان افعال‘ اشیا اور تحریروں کی تعریف درج کی جاتی ہے جن کا تحفظ مقصود ہو۔ جیسے حرمت قرآن مجید کا قانون ہے۔ اس قانون کی زد میں وہ آئے گا جو قرآن مجید میں درج آیات کی‘ کسی بھی حوالے سے توہین کا مرتکب ہو گا۔ قرآن مجید ٹھوس صورت میں موجود ہے اور تحفظ و تعظیم قرآن کا قانون تحریری شکل میں دستیاب ہے۔ اس کی مزید تعریف کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح جان و مال کے تحفظ کا قانون ہے جس کے تحت قتل اور مداخلت بے جا کے جرائم آتے ہیں اور پھر ان کی سزائیں مقرر ہیں۔ آئین میں نظریہ پاکستان کی تعریف کہاں لکھی ہے کہ اس کی خلاف ورزی کو جرم قرار دیا جا سکے؟ جب آئین یا کسی قانون میں نظریہ پاکستان کی مصدقہ‘ مسلمہ اور قانونی تعریف موجود نہیں تو اسے تعزیراتی کتاب میں کیسے لایا جا سکتا ہے؟ اور اس کی خلاف ورزی کے جرم کی حدود کیسے متعین کی جا سکتی ہیں؟ اس کا تو ایک ہی مطلب ہوا کہ نظریہ پاکستان کی خلاف ورزی کے جرم کا تعین ہر کوئی اپنی مرضی سے کر سکتا ہے۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا جرم وجود رکھتا ہے جو ایک علمی اور قانونی طور پر غیرموجود چیز کے خلاف کیا جا سکتا ہو؟ ایسے جرم کا سراغ صرف شیخ چلی کے ہاں ملتا ہے جس نے خواب میں ایک مرغی سے کاروبار شروع کیا اور ہوتے ہوتے اس کے پاس سینکڑوں انڈے جمع ہو گئے۔ وہ ان انڈوں کو لے کر منڈی کی طرف جا رہا تھا کہ کسی نے لاٹھی مار کر سارے انڈے توڑ دیئے اور شیخ چلی بیدار ہوئے تو شور مچا رہے تھے کہ ’’پکڑو پکڑو! کوئی میرے انڈے توڑ بھاگا ہے۔‘‘ ایاز امیر نے بھی اسی طرح انڈے توڑ دیئے ہیں۔ شیخ چلی کا ملزم تو بچ نکلا، ایاز امیر دھر لیے گئے۔ میں اپنے دوست ایاز امیر کو ہمدردانہ مشورہ دوں گا کہ اگر انہیں آئین کی دفعات 62 اور 63 کے تحت امتحان پاس کرنا ہے تو مسرت شاہین کی شاگردی اختیار کر لیں۔ ایسی پرمسرت‘ خوبصورت اور روح پرور شاگردی ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ کالم مکمل کیا تو جنرل (ر) پرویز مشرف کے باسٹھ تریسٹھ کے تحت نااہل ہونے کی خبر آ گئی۔ جنرل ضیا کی تلوار جنرل مشرف پر چل گئی۔ بیچ میں ایاز امیر مارے گئے۔