پاسنگ تھوڑے وزن والی اس چیز کو کہتے ہیں جو ترازُو کے دونوں پلڑوں میں وزن کا فرق ختم کرنے کے لئے اس پلڑے کی طرف لگائی جاتی ہے جس کا وزن قدرے کم ہو۔ اس سے دونوں پلڑوں میں وزن کا فرق مٹ جاتا ہے اور ترازو کی ڈنڈی سیدھی ہو جاتی ہے۔ آج کل ترازُو کا استعمال کم رہ گیا ہے۔ اب یہ صرف دیہات یا کچی آبادیوں میں پایا جاتا ہے یا سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس کی بلند و بالا عمارتوں پر لگا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ترازُو بہرحال درست اور صحیح پوزیشن میں ہوتا ہے۔ یہ واحد ترازو ہے جس کے بارے میں یہ بات لکھی جا سکتی ہے۔ انتخابات کے زمانے میں جب مختلف جماعتیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر مذاکرات کرتی ہیں تو ان میں کئی پاسنگ بھی گھس جاتے ہیں اور وہ بڑی پارٹیوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے مذاکرات کا تقاضا کرنے لگتے ہیں۔ عموماً بڑی جماعتیں پاسنگوں سے کنی کتراتی ہیں۔ لیکن بعض جماعتوں کے ساتھ انہیں لین دین بھی کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً ایک جماعت جو خود الیکشن میں حصہ لے‘ تو محض چند ایک نشستیں ہی نکال سکتی ہے‘ تن تنہاانتخابی میدان میں اُترکے اس کی حالت ایسے پاسنگ جیسی ہو جاتی ہے جسے کوئی ترازُو میسر نہ ہو اور اس کی حیثیت سڑک پر پڑے دھات کے کسی ٹکڑے یا پتھر کے برابر رہ جاتی ہے۔ ایسی حالت کے بارے میں ’’مَنجی کتھے ڈاہواں‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ ہفتوں سے دیکھ رہے ہوں گے کہ ایسی کئی جماعتیں ‘ بڑی جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے مذاکرات کر رہی ہیں۔ لیکن چند ہی ملاقاتوں کے بعد بڑی جماعتوں کے نمائندے کانوں کو ہاتھ لگاتے نظر آتے ہیں۔ اصل بات کہہ نہیں سکتے اور جو کہتے ہیں‘ وہ درست نہیں ہوتی۔ سچ یہ ہے کہ ہر پاسنگ جب بڑی جماعت سے سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ کی بات کرتا ہے تو اس کی طلب کردہ نشستوں کی تعداد بڑی پارٹی کے برابر ہوتی ہے۔ آپ مسلم لیگ (ن) کو دیکھتے ہوں گے کہ اسے جب بھی کسی طرف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی پیش کش ہوتی ہے تو یہ فوراً دامن بچانے کی کوشش کرتی ہے۔ پس منظر یہ ہے کہ نوازشریف شروع میں جب زیادہ سیاسی تجربہ نہیں رکھتے تھے تو ایڈجسٹمنٹ کی طلب گار جماعتوں کی چکنی چپڑی باتیں سن کر ان کے جھانسے میں آ جاتے تھے۔ ایک تو ایڈجسٹمنٹ کی طلب گار جماعت اپنے حصے اور سائز سے کہیں زیادہ نشستیں لے اڑتی اور اس کے بعد جب حکومت بنتی تو اتنی فرمائشیں ہونے لگتیں کہ نوازشریف کے اوسان خطا ہو جاتے۔ ایک اتحادی پارٹی ایسی بھی تھی جس کے نوازشریف کی مہربانی سے منتخب ہونے والے اراکین‘ فائلوں کے صندوق بھر کے دفتر میں جاتے اور پھر نوازشریف کا وہ دن صرف ان فائلوں پر دستخط کرتے گزر جاتا۔ میں نام دانستہ چھپا رہا ہوں۔ کیونکہ جس محترم بزرگ کی قیادت میں یہ سب کچھ ہوا کرتا تھا‘ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اس طرح کے تجربات کے بعد نوازشریف کسی دوسری جماعت کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے سے کترانے لگے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس بار بھی وہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے جال میں پھنسنے سے بچنا چاہیں گے۔ عمران خان اس میدان میں نئے ہیں۔ فلمی زبان میں ان کی ہوا بڑی اچھی جا رہی ہے۔ لیکن اقتدار ملنے سے پہلے ہی ان کے جو مداح ‘قصیدہ گوئی اور قصیدہ نگاری میں بڑھ چڑھ کر اپنے کمالات دکھا رہے تھے‘ اب وہ اپنے اپنے پنٹروں کو ٹکٹ نہ ملنے پر‘ طرح طرح کی کہانیاں پھیلا رہے ہیں۔ پنٹر کا ٹکٹ کیا ہوتا ہے؟ اس کی تفصیل میرے ایک کالم نگار دوست نے لکھی ہے کہ لوگ کس طرح لیڈروں سے قربت رکھنے والوں کے پاس آ کر بڑی بڑی رقمیں پیش کرتے ہیں کہ ٹکٹ کے لئے ان کی سفارش کر دی جائے۔ اگر میرے کالم نگار دوست کی باتیں درست ہیں تو ہو سکتا ہے تحریک انصاف میں بھی اسی طرح کے سودے چل رہے ہوں۔ الزامات کی بازگشت تو ہر طرف سنائی دے رہی ہے۔ لیکن پاسنگ پارٹیوں کو عمران خان بھی پلو نہیں پکڑا رہے۔ مولانا فضل الرحمن ایک سے زیادہ مرتبہ پاسنگ پارٹیوں کے ساتھ اتحاد بنا کر الیکشن لڑ چکے ہیں مگر ان کے تجربات بھی اتنے تلخ ہیں کہ اس بار وہ اکیلے رہ کر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ آخری لمحات میں شاید ان کا دل نرم ہو جائے اور وہ دوچار سیٹوں کی قربانی دے کر اتحاد کا تاثر پیدا کرنے کی طرف مائل ہو جائیں۔ اگر وہ بھی ہاتھ نہ آئے تو اس مرتبہ پاسنگ پارٹیوں کا حشر بھی جعلی ڈگری والوں کی طرح ہو سکتا ہے۔ پاسنگ پارٹی کی طرح ‘ پاسنگ امیدوار بھی ہوتے ہیں۔ ان کے اپنے پاس اتنے ووٹ نہیں ہوتے جن کے بل بوتے پر وہ الیکشن جیت سکیں۔ لیکن ان کے حلقے میں جس امیدوار کے پاس یقینی ووٹوں کی تعداد زیادہ ہو‘ یہ اپنا پاسنگ لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کے ووٹ بے شک زیادہ ہیں مگر آپ ان سے جیت نہیں سکتے۔ اگر میرے ووٹ بھی آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں تو آپ کی جیت یقینی ہے۔ لیکن آپ کو سوداکرنا پڑے گا‘ یا خود قومی اسمبلی کے امیدوار بن کر صوبائی اسمبلی میں میری حمایت کر دیں یا مجھے قومی اسمبلی کا امیدوار بنا کر صوبائی اسمبلی میں میری حمایت لے لیں۔ آپ کو تعجب ہو گا کہ اکثر حالات میں پاسنگ بڑی نشست لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ وجہ صاف ہے۔ کوئی بھی امیدوار الیکشن میں شکست کا خطرہ مول لینے سے ڈرتا ہے۔ جو ایک بار اسمبلی کا ممبر رہ گیا‘ اسے ممبری کے بغیر پانچ سال گزارنا عذاب نظر آتا ہے۔ وہ ہر حال میں یہ چاہتا ہے کہ پولنگ سے پہلے ہی اس کی فیصلہ کن اکثریت یقینی ہو جائے تاکہ الیکشن میں کسی طرح کا خطرہ باقی نہ رہے۔ جیت کو یقینی بنانے کے لئے امیدوار بڑی بڑی قربانیاں دینے پر تیار ہو جاتے ہیں اور اسی میں پاسنگ کی جیت ہوتی ہے۔ ابھی میں جے یو آئی کاذکر کر رہا تھا۔ مذہبی جماعتیں اسلام کے نام پر جو انتخابی اتحاد قائم کیا کرتی ہیں‘ اُن میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی صلاحیت‘ جے یو آئی میں ہوتی ہے۔ لیکن پاسنگیے ایک تو تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں اور دوسرے مولانا فضل الرحمن کو وہ زبان و بیان کے جادو سے بھی مسحور کر لیتے ہیں اور اس طرح وہ اتحاد میں اپنی اصل طاقت سے زیادہ نشستیں حاصل کر لیتے ہیں اور جب حکومت بنتی ہے تو اپنی چرب زبانی سے وزارتیں بھی زیادہ ہتھیا لیتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہوتی ہے کہ پاسنگی وزراء پالیسی بیانات یوں جاری کرتے ہیں کہ جیسے اصل حکومت انہی کی ہو اور جے یو آئی کے ووٹوں نے صرف پاسنگ کا کام دیا ہو۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ ووٹ جے یو آئی کے زیادہ ہوتے ہیں اور سیٹوں پر اتحادی ہاتھ مار جاتے ہیں اور پھر وہی ہوتا ہے جو ہاتھی اور چوہے کے درمیان ہوا تھا۔ ان دونوں کی دوستی ہو گئی۔ اکٹھے سفر پہ نکلے۔ راستے میں دریا آ گیا اور اسے پار کرنے کے لئے دونوں پل پر چڑھ گئے۔ پل خستہ حالت میں تھا۔ ہاتھی کے وزن سے ہلنے لگا۔ چوہے نے اتراتے ہوئے ہاتھی سے کہا ’’دیکھا؟ میرے اور تمہارے وزن سے پل کس طرح ہل رہا ہے؟‘‘ نوازشریف نے تو دھچکے کھائے ہوئے ہیں اور اپنے ہی ووٹوں سے جیت کر آئے ساتھیوں سے یہ بھی سنا ہوا ہے کہ ’’پل ہم دونوں کے وزن سے ہل رہا ہے۔‘‘ اس لئے انہوں نے ابھی تک کنی کترا رکھی ہے۔ مگر لگتا ہے کہ عمران خان کچھ زیادہ جوش میں آ گئے ہیں۔ حالانکہ گزشتہ دو انتخابات میں انہیں جو کچھ دیکھنا پڑا‘ اسے یاد رکھتے تو مقبولیت کے گھوڑے کی سواری پر اتنے پراعتماد نہ ہوتے۔ مقبولیت دھوکہ دینے والی چیز ہے۔ خاص طور پہ انتخابات سے پہلے۔ وزیراعظم بننے کے معاملے میں خان صاحب خود بھی بہت تیار ہیں۔ رہی سہی کسر حواری پوری کر دیتے ہیں جو انہیں مسلسل یقین دلاتے رہتے ہیں کہ ’’نئے وزیراعظم کی کرسی اس بار صرف آپ ہی کے لیے خصوصی آرڈر پہ تیار کی گئی ہے۔ اس پر کوئی دوسرا قبضہ نہیں کر سکے گا۔ آپ اطمینان رکھیں۔ البتہ میں نے اپنے ایک دوست کے لئے جو ٹکٹ مانگا ہے‘ اس کا ضرور خیال رکھیے گا۔ کیونکہ مجھے بھی اپنا کچھ خیال رکھنا پڑتا ہے۔‘‘ اس طرح کے لوگ ایک اور طرح کا پاسنگ ہوتے ہیں۔ سب سے دلچسپ معاملہ ق لیگ اور پیپلزپارٹی کے مابین ہے۔ پیپلزپارٹی نے ق لیگ کو پاسنگ سمجھ کر اپنے ساتھ ملایا تھا۔ لیکن اب ق لیگ‘ پیپلزپارٹی کو پاسنگ کی طرح دیکھ رہی ہے۔ وجہ ظاہر ہے۔ ایک کے پاس ووٹر بہت ہیں‘ لیڈر کم اور دوسری کے پاس لیڈر بہت ہیں اور ووٹر کم۔