دہشت گردوں نے پاکستان کی جمہوریت پر حملوں کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ غیرمتوقع نہیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمانوںنے بہت دن پہلے انتباہ کر دیا تھا کہ وہ آزادخیال اور جمہوریت پسند جماعتوں پر انتخابی مہم کے دوران حملے کریں گے۔ ان تین جماعتوں کے نام بھی بتا دیئے گئے تھے‘ جنہیں دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائے گا۔ یہ تین جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی‘ اے این پی اور ایم کیو ایم تھیں۔تین چار دن پہلے حکیم اللہ محسود نے ایک بیان جاری کیا‘ جس میں اس نے جمہوریت کو کافرانہ نظام قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اس نظام کو نہیں چلنے دیں گے اور اس کی جگہ اسلامی شریعت نافذ کی جائے گی۔ گزشتہ روز دہشت گردوں نے اپنے دعوے کے عین مطابق انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی مہم شروع کر دی‘ جس کا سب سے بڑا شکار ایم کیو ایم کے فخر الاسلام ہوئے۔ وہ حیدر آباد سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے امیدوار تھے۔ وانا میں ایک آزاد امیدوار کے انتخابی دفتر پر حملہ کر کے اسے تباہ کر دیا گیا اور ایک دوسرے امیدوار عبدالرحمن کے قافلے پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا۔جتنی آسانی اور سہولت سے دہشت گرد پاکستان کے اندر اپنی کارروائیاں آزادانہ طور پر انجام دے رہے ہیں‘ اس سے یہ تو ظاہر ہو گیا کہ نگران حکومت نے سکیورٹی سخت کرنے کے جو اعلان کیے تھے‘ ان میں کوئی حقیقت نہیں۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات معمول کا حصہ بن چکے ہیں اور اس معمول میں زیادہ فرق نہیں پڑرہا۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں خونریزی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ دہشت گردوں نے ابتدائی حملوں میں ایک بڑا مقصد حاصل کر لیا ہے۔ آنے والے انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے یورپی یونین اور دولت مشترکہ کے جو مبصرین پاکستان آ رہے ہیں‘ وزارت خارجہ نے انہیں مطلع کر دیا ہے کہ بلوچستان اور فاٹا میں سکیورٹی کے حالات خراب ہیں ‘ اس لیے مبصرین کا گروپ ان علاقوں میں جانے سے گریز کرے اور اگر انہوں نے ان علاقوں کا رخ کیا‘ تو اس کے ذمہ دار خود ہوں گے۔ یورپی یونین اور دولت مشترکہ سمیت 11 ممالک نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ انتخابی عمل کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کا دورہ کریں گے۔ لیکن جن علاقوں میں عالمی مبصرین کے جائزوں اور مشاہدے کی ضرورت ہے‘ وہاں جانے سے انہیں منع کر دیا گیا ہے۔ خصوصاً بلوچستان کے حالات ایک مدت سے پاکستانیوں اور دنیا کی نظروں سے اوجھل چلے آ رہے ہیں۔ ملک کے اندر جتنے بھی انتخابات ہوئے‘ ان میں بلوچستان کے عوام کو کبھی آزادانہ ووٹ دینے کا موقع نہیں ملا۔ قوم پرستوں نے جن انتخابات میں حصہ لیا ان پر بھی اعتراضات ہوتے رہے ہیں اور جب 90ء کے عشرے میں اختر مینگل کی سربراہی میں قوم پرستوں کی حکومت بنی تو اسے بھی قبل ازوقت برطرف کر دیا گیا تھا۔ اس مرتبہ ایک آئینی حکومت کے دور میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ خیال تھا کہ اخترمینگل کی قیادت میں نوجوان قوم پرست ان میں کھل کر حصہ لیں گے۔ اس مقصد کے لیے سکیورٹی ایجنسیوں نے مؤثر کردار ادا کیا اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی نے خودبلوچستان جا کر قوم پرستوں کو امید دلائی کہ انہیں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ہرطرح کی سہولتیںاور تحفظ مہیا کیا جائے گا۔ انہی کوششوں کے نتیجے میں اخترمینگل پاکستان واپس آئے اور انہوں نے انتخابی مہم میں حصہ لینے کااعلان کر دیا۔ لیکن جیسے ہی وہ انتخابی مہم پر نکلے‘ بعض عناصر ان کے خلاف سرگرم ہو گئے۔ اختر مینگل نے شکایت کی کہ ان کے ایک جلوس میںاجنبی لوگ پراسرار طریقے سے گھس آئے اور جب انہیں شناخت کیا گیا تو وہ اپنی گاڑیاں لے کر رفوچکر ہو گئے۔ اختر مینگل شدید خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے انتخابی میدان میں اترے ہیں۔ لیکن وہ اس یقین سے ابھی تک محروم ہیں جو انتخابات کے دوران سلامتی اور تحفظ کے حوالے سے حاصل ہونا چاہیے۔ غیرملکی مبصرین کے بلوچستان نہ جانے پر اختر مینگل نے شدید مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ بلوچستان میں حقیقی نمائندوں کو روکنے کا آغاز ہے۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں اس سے بھی بدتر حالات ہیں اور وہاں پر مبصرین گئے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہاں آنے والے مبصرین کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والی وہی قوتیں ہیں جن کی وجہ سے بلوچستان کے حالات اس حد تک پہنچ چکے ہیں اور یہ قوتیں انہیں چھپانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم انتخابات ملتوی نہیں کرانا چاہتے لیکن بلوچ قوم پرستوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں اور لگتا ہے کہ 2008ء سے بھی بدتر سلیکشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے عالمی مبصرین سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان ضرور آئیں اور نہ صرف انتخابات کی نگرانی کریں بلکہ صوبہ بھر میں جو صورتحال ہے اس کا بھی جائزہ لیں اور دنیا کو اس کے بارے میں بتائیں۔ فاٹا میں حالات برسوں سے خراب ہیں اور وہاں کئی علاقوں میں دہشت گردوں نے اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں اور وہ افغانستان کے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر خیبرپختونخوا میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں انتخابی مہم پر خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں۔کوئی امیدوار اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا اور نہ ہی کسی میں آزادانہ انتخابی مہم چلانے کی ہمت ہے۔ بڑے لیڈر تو واضح اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اپنی جان کو لاحق خطرات کے باعث کھلی انتخابی مہم نہیں چلا سکیں گے۔ اسفند یار ولی خان اور آفتاب شیرپائو جیسے معروف پختون لیڈر بھی اپنے ہی علاقے میں آزادانہ گھومنے سے گریزاں ہیںاور دونوں انتہائی محدود انتخابی مہم چلانے پر مجبور ہیں۔ اسفندیارولی خان ایک خودکش حملے میں بال بال بچے تھے جبکہ شیرپائو پر ایک سے زیادہ قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں اور ان کے بیٹے سکندر شیرپائو بھی دہشت گردوں کے حملے میں بمشکل بچے تھے۔ بلور خاندان کے ایک بہادر فرد اور اے این پی کے سرکردہ لیڈر بشیر بلور ‘ دہشت گردوں کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ سندھ اور پنجاب کے حالات بھی تسلی بخش نہیں خصوصاً کراچی تو مدت سے بدامنی کی لپیٹ میں ہے اور گزشتہ روز حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے ایک امیدوار کا بہیمانہ قتل‘ آنے والی انتخابی خونریزی کا پتہ دے رہا ہے۔ دہشت گردوں نے ’’تقسیم کرو اور راستہ بنائو‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے پاکستان اور خصوصاً پنجاب میں سیاسی جماعتوں کو دو حصوں میں تقسیم کر ڈالا ہے۔ انہوں نے تین جماعتوں کا نام لے کر اعلان کر رکھا ہے کہ وہ ان پر حملے کریں گے۔ اصولی طور پر اس دھمکی کے جواب میں تمام سیاسی قوتوں کو متحد ہو کر ‘ مزاحمت کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ جن جماعتوں کے نام نہیں لیے گئے‘ وہ سب کی سب اطمینان کا سانس لے کر انتخابی مہم میں مصروف ہو گئی ہیں اور جن جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے جرم پر قاتلانہ حملوں کی دھمکیاں دی گئیں ہیں انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دہشت گرد تقسیم کرو اور راستہ بنائو کی پالیسی میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ کچھ سیاسی جماعتیں اپنے آپ کو دہشت گردوں سے محفوظ سمجھ کر دوسری جماعتوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رہی ہیں۔ اس طرح ترقی پسند اور روشن خیال جماعتیں‘ دہشت گردوں اور انتہاپسند سیاسی طاقتوں کا مشترکہ نشانہ بن رہی ہیں۔ ایسے حالات میں نہ وہ آزادانہ انتخابی مہم چلا سکتی ہیں اور نہ ہی ان کے ووٹر اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں گے۔ گویا انتخابات سے پہلے ہی دہشت گردوں اور انتہاپسندوں نے مل کر آزادجمہوری قوتوں کے راستے بند کر دیئے ہیں۔ ان حالات میں انتخابات نہ آزادانہ ہو سکتے ہیں اور نہ ہی نمائندہ۔ اس طرح کے انتخابات ‘ امن اور معمول کے حالات بحال کرنے میں تو کیا مدد گار ہوں گے؟ اُلٹا زیادہ انتشار اور زیادہ خونریزی کی طرف لے کر جائیں گے۔میں نہیں سمجھتا کہ ایسے حالات میں منعقد ہونے والے انتخابات ملک کو استحکام اور عوام کو امن دینے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔حالات یہی رہے تو ہمارے ہاں جمہوریت نشوونما نہیں پائے گی‘ ہم جمہوریت سے مزید دورچلے جائیں گے۔اب بھی وقت ہے کہ جمہوریت پسند قوتیں اس نظام کو بچانے کے لیے اکٹھی ہو جائیں ورنہ جمہوریت دشمنوں کا راستہ روکنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔