اس غیب دان لڑکی کا قصہ تو آپ نے سنا ہو گا جس نے کئی دن پہلے کہنا شروع کر دیا تھا ’’ہمارے گھر سے کوئی ایک فرد غائب ہونے والا ہے ۔‘‘ چار دن بعد اس کی غیب دانی ثابت ہو گئی۔ لڑکی گھر سے بھاگ چکی تھی۔ ہمارے رانا ثناء اللہ بھی اسی طرز کے غیب دان ہیں۔ فیصل آباد میں انہوں نے ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے پیش گوئی کی کہ آنے والے انتخابات میں ن لیگ کلین سویپ کرے گی۔ جلسہ ختم ہوتے ہی کھانا کھلا اور روایتی چھینا جھپٹی شروع ہو گئی۔ میز پر سجائی گئی ڈشیں دیکھتے ہی دیکھتے اوندھے منہ گرنے لگیں۔ کسی کے ہاتھ پرات لگی‘ کسی نے چمچہ دبوچا‘ کوئی کڑچھافتح کرنے میں کامیاب ہوا۔ کسی کا مال غنیمت ایک پلیٹ تک محدود تھا۔ کھانا کھانے والے لوٹ مار سے بے نیاز شکم پری میں مصروف تھے۔ جسے جہاں دانہ نظر آیا‘ اس نے وہیں ہونٹ رکھ کے اس پر اپنی مہر لگا دی۔ متوالوں نے دانے دانے پر یوں مہر لگائی کہ خالی ہونے والی جگہ دیکھ کر کوئی یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ دہن میں جانے والا دانہ رکھا کہاں تھا؟ ایک صاحب قورمے سے بھری پرات پر قبضہ جمانے میں کامیاب تو ہو گئے لیکن اپنے دفاعی نظام سے بروقت کام نہ لے سکے۔ غنیموں نے تاک تاک کر بوٹیاں اچکنا شروع کر دیں۔ انہیں لوٹ مار کا پتہ چلا۔ شتابی سے ایک بڑی سی ہڈی والی بوٹی اٹھائی۔ بوٹی کو ایک ہی لقمے میں ہڈی سے جدا کیا اور پھر ہڈی کو ہتھیار بنا کر‘ استخواں زنی‘ بروزن شمشیرزنی کے ایسے ایسے جوہر دکھائے کہ لوٹ مار کرنے والوں نے بھی اپنی بھوک کی پروا کئے بغیر تالیاں بجانا شروع کر دیں اور لٹنے والا کارکن خالی پرات بجاتے ہوئے گانے لگا: مینوں دھرتی قلعی کرا دے میں نچاں ساری رات ایسے لوگوں کا تو ذکر ہی کیا جو براہ راست کھانوں کے مراکز پر مورچہ زن ہو گئے تھے۔ یہ فرزندان وطن زقند لگا کے میزوں پر چڑھ بیٹھے اور مال غنیمت کی شکل میں جو کچھ ہاتھ لگا اسے پوری طرح سے قبضے میں کر لیا۔ حالت یہ تھی کہ جو چاولوں کی ڈش پر قابض ہوا‘ اس نے پورے جسم کو ڈھال بنا کر اپنے مال غنیمت کی حفاظت شروع کر دی۔ کوئی قورمے کی پلیٹ کو میز پہ رکھ کے اس کے اوپر لیٹ گیا اور سینے کو کہنیوں کے بل ذرا سا اوپر اٹھا کر‘ نیچے پڑی پرات سے مزے لے لے کر بوٹیاں کھانے لگا۔ کچھ کارکنوں نے متحدہ محاذ بنا کر اللہ کا نام لیا۔ ’’شیر آیا شیر آیا‘‘ کے نعرے لگائے۔ ’’شیرآیا‘‘ کے نعرے سن کر بکروں کی پکی ہوئی بوٹیاں سہم گئیں۔ نعرے لگانے والے پلائو کی دیگ اٹھا کر مشتعل ہجوم کے نرغے سے نکلنے میں کامیاب رہے۔ ایک دبلا پتلا کارکن دیگ اٹھانے کے لئے اپنا گروہ بنانے میں ناکام رہا تو آئو دیکھا نہ تائو‘ دیگ کے اندر گھسنے میں کامیاب ہو گیا۔یہ کامیابی اسے مہنگی پڑی۔ دیگ کے اندر حدت اتنی تیز تھی کہ اس سے زیادہ پھرتی کے ساتھ باہر نکلا‘ جتنی پھرتی سے وہ دیگ کے اندر گھسا تھا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد کھانے کا نام و نشان تک نہ رہا اور منظر کچھ ایسا ہو گیا: اوندھی پڑی تھی دیگ ادھر‘ ٹوٹی ہوئی پلیٹ ادھر بوٹی کا کچھ پتہ نہ تھا‘ ننگی پڑی تھیں ہڈیاں چاول مسکینوں کی طرح زمین پر بے یارومددگار بکھرے تھے۔ چند لمحوں میںن لیگ کے کارکنوں کا ایک اور غول آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایک چاول چٹ کر گیا۔ رانا ثناء اللہ کی پیش گوئی پوری ہو گئی کہ مسلم لیگ (ن)کلین سویپ کرے گی۔ واقعی مسلم لیگ نے کلین سویپ کر دکھایا۔ مسلم لیگ اس میدان میں اکیلی نہیں۔ دوسری جماعتیں بہت پہلے کلین سویپ کا مظاہرہ کر چکی ہیں۔ قصور کا واقعہ کون فراموش کر سکتا ہے؟ یہ انتخابی مقابلوں کا پہلا دنگل تھا۔ تحریک انصاف کے تازہ دم کھلاڑیوں کو غصہ آ گیا کہ لیڈروں نے انہیں روکھی سوکھی تقریریں سنا دی ہیں۔ حد یہ کہ تقریروں میں چکنی چپڑی باتیں کرنے سے بھی گریزاں رہے۔ ظاہر ہے کہ 21ویں صدی کا ووٹریہ بدسلوکی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ صبر کی ایک حد ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کا صبر آخرکار جواب دے گیا۔ جلسہ گاہ میں نہ تو پیٹ بھرنے کے لئے کچھ تھا اور نہ ہی ساتھ لے جانے کے لئے۔ تقریروں میں بھی ایسی کوئی بات نہ نکلی جسے کوئی پلے باندھ کر لے جا سکے۔ ایک طریقہ باقی رہ گیا تھا کہ وہ جلسہ ہی اٹھا کر لے جائیں۔ پھر معرکہ برپا ہوا‘ جس میں جتنا زور تھا اس نے اتنی ہی کرسیاں اٹھائیں اور جلسہ فیتی فیتی ہو گیا۔ پہلے حملے میں حصہ لینے والوں کو دو دو کرسیاں مل گئیں۔ حملے کی دوسری لہر میں آنے والے ایک ایک کرسی لوٹنے میں کامیاب رہے اور اس کے بعد جلسے کی تکابوٹی ہونے لگی۔ کسی کے ہاتھ ٹوٹی ہوئی ٹانگ آئی۔ کسی نے تشریف رکھنے والا حصہ اٹھایا۔کسی نے ہاتھ رکھنے والی جگہ کو اسلحہ میں بدل کے اپنا راستہ صاف کیا اور کوئی ٹیک لگانے والی جگہ پر قبضہ جما کے اس پر اپنے مستقبل کی امیدیں رکھنے کے لئے گھر لے گیا۔ سیاسی جماعتوں کے لئے یہ پہلا انتخابی مظاہرہ حوصلہ افزا نہیں تھا۔ لیڈران کرام نے بہت غور و خوض کے بعد یہ راستہ نکالا کہ جلسے کو کارکنوں سے بچانے کے لئے ان کے سامنے کھانا ڈال دیا جائے۔ انتخابی مہم کے اگلے جلسے میں حاضرین کے لئے کھانے کا بندوبست کیا گیا۔ منتظمین کا خیال تھا کہ حاضرین کھانا کھا کر مطمئن ہو جائیں گے اور ان کے جلسے کا سامان حرص و ہوس کا نشانہ بننے سے محفوظ رہ جائے گا۔ یہ اندازہ غلط نکلا۔ حاضرین کی بھوک اتنی تیز تھی کہ ’’نظم وضبط‘‘ کو ایک ہی لقمے میں ہضم کر کے کھا نے پراتنی تیز رفتاری سے حملہ آور ہوئے کہ ’’نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز‘‘۔ یہ جلسہ سیالکوٹ میں ہوا تھا۔ اس سلسلے کا سب سے پہلا تاریخ ساز کھانا چودھری پرویزالٰہی کے اعزاز میں دیا گیا جب وہ ڈپٹی وزیراعظم بننے کے بعد گجرات گئے تھے۔ ان کی جماعت کے ایک مقامی زمیندار نے بڑے اہتمام سے چودھری صاحب کی دعوت کی۔ انتہائی پرتکلف اہتمام کیا گیا۔ لوٹ مار کا دور ختم ہونے کے بعد ماہرین نے اندازے لگائے کہ تمام حاضرین اطمینان سے بیٹھ کر کھانا کھا سکتے تھے اور چاہتے تو کوہان بھی بھر سکتے تھے۔ لیکن ہم ڈسپلن پر جان دینے والی قوم ہیں۔ جان پر کھیل جاتے ہیں‘ ڈسپلن سے مرعوب نہیں ہوتے۔ یہ ایک استقبالیہ تقریب تھی۔ اہل گجرات اپنے لیڈر کے ڈپٹی وزیراعظم بننے پر اظہارمسرت کرنے جمع ہوئے تھے۔ جب رسمی تقاریر ہو گئیں اور چودھری صاحب نے میزبانوں کا شکریہ ادا کر دیا تو حاضرین نے پورے جوش و خروش سے ’’پرویزالٰہی زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایااور دیگوں پر چھلانگیں لگا دیں۔بے تابی اور ندیدے پن کی لہریں اتنی تیز تھیں کہ دیگوں کے نیچے جلتی ہوئی آگ بھی توبہ توبہ کر کے ٹھنڈی ہو گئی۔قورمے‘ سویٹ ڈش اور پلائو کو دیگوں سے نکل کر برتنوں تک جانا بھی نصیب نہ ہو سکا۔ معززین یہ منظر دیکھ کر دنگ کھڑے رہے۔ انہیں سبق مل گیا کہ کھایا کیسے جاتا ہے؟ رمضان المبارک عبادات و برکات کا مہینہ ہے۔ عبادت تو اللہ کے نیک بندے ہی کرتے ہیں‘ برکات سے ہم گناہگار فیض یاب ہوتے ہیں۔ گناہگار اس لئے کہ روز ہ ہم ثواب کے لئے نہیں‘ کھانے سے لطف اندوز ہونے کے لئے رکھتے ہیں۔ آپ رمضان کے مہینے میں کسی بھی شام کو بازاروں میں نکل کر دیکھ لیں‘ ایسے ایسے لذیذ پکوان نظر آئیں گے جو عام دنوں میں دکھائی نہیں دیتے اور پھر ان پکوانوں پر جس طرح گاہکوں کی یلغاریں ہوتی ہیں‘ انہیں دیکھ کر پرانے زمانے کی کھڑکی توڑ فلمیں یاد آ جاتی ہیں جن کا پہلا شودیکھنے کے لئے دل پھینک نوجوانوں کی ٹولیاں قطار میں لگنے کے بجائے لوگوں کے کندھوں پر سوار(صفحہ 6بقیہ نمبر1) ہو کر کھڑکی تک پہنچا کرتی تھیں اور ایسے ایسے منظر دیکھنے میں آتے تھے جو اب صرف سیاسی جلسوں کے کھانوں اور افطاریوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے بھی تفریح ہماری تہذیب کا حصہ نہیں رہ گئی۔ اب ہم ڈسپلن سے اپنی نفرت کامظاہرہ کرنے سینمائوں میں نہیں جاتے‘ کھانوں پر ٹوٹتے ہیں۔ یہ ہمارے کلچر کے عین مطابق ہے۔ رمضان المبارک کامہینہ مجھے اس لئے یاد آیا کہ پیپلزپارٹی کی افطاریاں سیاسی کلچر کا ایک نیا اسلوب لے کر آئی ہیں۔ ان میں روزے دار کو افطار کے لئے کچھ نہیںملتا۔ جیالے ہمیشہ موذن کو شکست دینے میں کامیاب رہتے ہیں۔ میں نے نہیں دیکھا کہ پیپلزپارٹی کی افطاری میں کسی موذن نے افطارکرنے والوں پر برتری حاصل کی ہو۔ تحریک انصاف والے کہتے ہیں کہ وہ پیپلزپارٹی کی طرح کامیابی حاصل کریں گے۔ مجھے اس پر کوئی شک نہیں اور جب سے میں نے تحریک انصاف کی ایک افطار پارٹی دیکھی ہے اس کے بعد شک کرنے کی گنجائش بھی نہیں رہی۔ لوگ یونہی ہم پاکستانیوں کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ ہم نے آزادی کے بعد کچھ نہیں سیکھا۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ یہاں آ کر ہمارے سیاسی اور غیرسیاسی کھانوں کو دیکھیں‘ پھر انہیں پتہ چلے گا کہ کھایا کیسے جاتا ہے؟ دنیا کو چاہیے کہ اسلام آباد آ کر دیکھے‘ کھایا کیسے جاتا ہے؟اور ساتھ یہ بھی معلوم کرے کہ ہمارے ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے دفتر کا نیا نام اورپتہ کیا ہے؟