انتخابی مہم اس مرحلے تک آ پہنچی ہے‘ جب پارٹیوں کے منشور‘ لیڈر اور امیدوار‘ سب پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور پارٹیوں کے انتخابی نشانات مقابلے کے میدان میں اتر آتے ہیں۔ مہم کے اس مرحلے میں‘ نشان نشان سے لڑتا ہے۔ ایک کے مقابلے میں دوسرے نشان کی بھد اڑائی جاتی ہے۔ ہر امیدوار اپنی پارٹی کے نشان کی خوبیاں بیان کرنے اور اس کی برتری ثابت کرنے پر زور لگاتا ہے اور اپنے حریف کے انتخابی نشان کی بھد اڑاتے ہوئے‘ اسے کم تر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے چوہدری شجاعت حسین‘ اس میدان میں بہت پہلے اتر آئے تھے۔ انہوں نے قریباً ایک سال پہلے‘ اپنی ہی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کے انتخابی نشان تیر سے ‘ اپنے انتخابی نشان سائیکل کا مقابلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’تیر کسی کام کا نہیں ہوتا۔ سائیکل پر دو آدمی بیٹھ سکتے ہیں اور تیر-----‘‘ اور گزشتہ روز انتخابی مہم کا دور عروج شروع ہونے پر بھی چوہدری صاحب نے ایک مرتبہ پھر اپنے انتخابی نشان کی تعریف کی۔ اس بار ان کا موضوع ووٹروں کے لئے امیدواروں کی طرف سے ٹرانسپورٹ کا استعمال ممنوع قرار دینے کا معاملہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ باقی ہر طرح کی گاڑیاں ٹرانسپورٹ کی تعریف میں آتی ہیں۔ لیکن سائیکل کو ٹرانسپورٹ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لئے ہماری سواری پر کوئی پابندی نہیں۔ ہمارے ووٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر پولنگ سٹیشنوں پر پہنچیں گے اور دوسری پارٹیوں کے ورکروں کو پیدل جانا پڑے گا۔ تحریک انصاف کے سونامیوں کو پہلی مرتبہ اتنے زیادہ ہوپ فل امیدواروں کے ساتھ انتخابی میدان میں اترنے کا موقع ملا ہے اور بلا پہلی مرتبہ انتخابی نشانوں کے مقابلے میں‘ زورآزمائی کرے گا۔ ابھی تک امیدواروں کی طرف سے بلے کے حق میں قابل ذکر دعوے نہیں آئے۔ صرف عمران خان کے ایک حامی کو یہ کہتے سنا ہے کہ ’’وہ بلا مار مار کے شیر کا بھرکس نکال دیں گے۔‘‘ بلا ایک چھوٹی سی گیند کی درگت تو بنا سکتا ہے لیکن شیر کے سامنے بلا لہرانا ایک انوکھا تجربہ ہو گا۔ گیند تو طرح طرح کے جل دے کر بلے سے کترا کر نکل جانے میں کامیاب رہتی ہے اور اگر اس کی زد میں آ جائے‘ تو پھر اس کی پٹائی بھی خوب ہوتی ہے۔ کبھی کبھار گیند اچھل کر بیٹسمین کے ماتھے یا سر میں آلو بھی رکھ دیتی ہے۔ لیکن شیر بلے کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ اس کا ابھی اندازہ نہیں کیا جا سکتا اور بلے والے اپنے ہتھیار سے شیر کا کیا بندوبست کرتے ہیں؟ یہ بھی مقابلے میں زور آنے پر معلوم ہو گا۔ انتخابی معرکہ آرائی میں بلا پہلی بار اترا ہے جبکہ شیر کئی انتخابی معرکوں میں اپنے کرتب دکھا چکا ہے۔ یہ شیر خوش خوراکی میں بڑی شہرت رکھتا ہے۔ سری پائے‘ کھد‘ حلیم‘ ہریسہ‘ لالٹین‘ ٹرک‘ گلاب‘ ترازو‘ ٹریکٹر ‘پتہ نہیں اور کیا کیا ہڑپ کر چکا ہے۔ ایک بار تو خبر آئی تھی کہ ’’شیر آٹا کھا گیا۔‘‘پیپلزپارٹی آج تک شکایتیں کر رہی ہے کہ شیر بجلی گھر کھا گیا۔ اس بار شیر کی نظریں سہیل ضیا بٹ پر بھی ہیں۔ دیکھتے ہیں‘ وہ انہیں کھاتا ہے یا پیار کر کے چھوڑ دیتا ہے؟ اب کے انتخابی مہم میں آٹے کی بجائے‘ روٹی کا نام لیا جائے گا۔ کیونکہ سستی روٹی کے نام پر سرکاری خزانے سے 8ارب روپے خرچ کئے گئے۔ اتنی روٹیاں صرف شیر ہی کھا سکتا ہے۔ دیکھنا کہ یہ نعرہ کب سامنے آئے گا؟ ’’شیر روٹی کھا گیا۔‘‘ پرویزمشرف سے بدلہ لینے کے لئے شیر‘ ان کے سارے مصاحبوں کو کھاتا چلا جا رہا ہے اور جو بچ گئے ہیں‘ انہیں الیکشن میں کھا جائے گا۔ اگر شیر کی ان حرکات کو دیکھا جائے‘ تو پھر بلے کی خیر نہیں۔ شیر کا پنجہ پڑ گیا‘ تو وہ بلا ہی نہیں‘ ممکن ہے ہاتھ بھی کھا جائے اور اگر بلا ٹھیک طرح گھما کے مارا جائے‘ تو وہ بھی شیر کے دانت توڑ سکتا ہے۔ البتہ بلے والا ہاتھ شیر کے منہ میں آ گیا‘ تو شیر کے دانت کھٹے ہو سکتے ہیں۔ بلے کے بارے میں بہت سے فلمی گیت بھی بنے ہوئے ہیں۔ جیسے ’’پَلّا مار کے بجھا گئی دیوا‘ تے اکھ نال گل کر گئی۔‘‘ انتخابی مہم کی رعایت سے اس گانے کو یوں بھی کیا جا سکتا ہے ’’بلا مار کے بجھا گئی دیوا‘ تے اکھ نال ووٹ لے گئی۔‘‘باقی تو پتہ نہیں کتنے ووٹ دے جائے گی؟ مگر شہبازشریف کا ووٹ تو ضرور لے جائے گی۔ ایسے معاملات میں ان کا ووٹ ہر وقت ہتھیلی پر رکھا رہتا ہے۔ کئی حلقوں میں شیر اور سائیکل کے مقابلے بھی ہوں گے۔ دوڑ میں دونوں کا مقابلہ مشکل ہے۔ ان کے درمیان ریس ہو‘ تو سو میٹر کی دوڑ میں شیر کی جیت یقینی ہے۔ لیکن دوڑ لمبی ہو گئی‘ تو پھر سائیکل کو ہرانا مشکل ہو گا۔ کیونکہ شیر بہت جلد ہانپنے لگتا ہے جبکہ سائیکل چلانے والا گھنٹوں ٹریک پر رواں دواں رہ سکتا ہے۔ اگر سائیکل سوار ‘ سرکس کا تجربہ رکھتا ہو‘ تو وہ شیر کو سائیکل پر بٹھا کر فرار بھی ہو سکتا ہے۔ ابھی تک تو یہی سنتے آئے ہیں کہ جاٹوں کے گھر بھینس چلی جائے تو پھر واپس نہیں ملتی۔ کہیں یہ محاورہ شیر کے بارے میں نہ بن جائے۔ مگر شیر اتنا بھولا بھی نہیں۔ وہ جاٹوں کے گھر نہیں جائے گا‘ ان کے کھیتوں میں مستی کرے گا۔ البتہ کراچی اور حیدر آباد میں شیر کا پالا پتنگ سے پڑے گا۔شیر کو سمجھ نہیں آئے گی کہ وہ کس مصیبت میں پڑ گیا ہے؟ وہ بڑے سے بڑے جانور کا شکار کر سکتا ہے۔ میں نے فلموں میں دیکھا ہے کہ غصے میں آجائے تو پرندوں پر جھپٹنے سے بھی باز نہیں آتا۔ لیکن پتنگ؟ اور پھر بہت سی پتنگیں۔ شیر کے تو اوسان خطا ہو جائیں گے۔ وہ ایک پتنگ کی طرف لپکے گا‘ تو پندرہ پتنگیں‘ اسے اپنے اوپر منڈلاتی ہوئی نظر آئیں گی اور جس پتنگ کی طرف شیر لپک رہا ہو گا‘ وہ شوں سے بلندی کی طرف اٹھ جائے گی۔ شیر پر چاروں طرف سے پتنگیں جھپٹ جھپٹ کے اوپر اٹھ رہی ہوں گی اور شیر بوکھلایا ہوا‘ ہوائوں میں کہیں پنجے مار رہا ہو گا ‘ کہیں دم گھما رہا ہو گا اور کہیں جبڑے کھول کے‘ خالی ہوا میں منہ مارنے میں لگا ہو گا۔ مگر اس کی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ ان آسمانی بلائوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ کراچی اور حیدر آباد میں شیر کو ساتھیوں کی کمی کا بھی شدید احساس ہو گا۔ ان شہروں میں شیر زیادہ سے زیادہ چار پانچ یا چھ سات ہوں گے۔ جبکہ پتنگیں درجنوں میں منڈلاتی‘ جھپٹتی‘ اس شعر کا نقشہ پیش کریں گی۔ جھپٹنا‘ پلٹنا‘ پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ لہو شیر کا ہی گرم ہو گا۔ پتنگ میں لہو کہاں سے آیا؟ اگر میں نے اپنے محبوب سیاستدان شیخ رشید احمد کی پارٹی اور ان کے انتخابی نشان کا ذکر نہ کیا‘ تو میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر سکوں گا اور اگر کر دیا‘ تو شیخ صاحب مجھے معاف نہیں کریں گے اور جب لکھنا ہی ٹھہرا‘ تو پھر کیوں نہ کھل کر لکھا جائے؟ شیخ صاحب کا انتخابی نشان قلم دوات ہے۔ بیلٹ پیپر کی فہرست میں آپ جب قلم دوات دیکھیں گے‘ بس وہی دیکھیں گے۔ نہ اس ساخت کا قلم بازار میں دستیاب ہے اور نہ ہی سکولوں میں کہیں نظر آتا ہے۔ یا تو شیخ صاحب نے نشان دیکھے بغیر ہی اس کا انتخاب کر لیا اور اگر دیکھ کر کیا ہے‘ تو بھی برا نہیں کیا۔ شیخ صاحب ایسی ہی چیزیں چنتے ہیں‘ جو یا متروک ہو چکی ہوں یا متروک ہونے والی ہوں۔ سید پرویزمشرف ہی کو دیکھ لیں۔ شیخ صاحب نے کتنے چائو سے ان کا انتخاب کیا تھا؟ ان کی شخصیت اور ان کے کاموں کی تعریفیں کرتے کرتے شیخ صاحب کی اردو ٹھیک ہو گئی تھی۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے آمروں کا فیشن آئوٹ آف ڈیٹ ہو گیا۔ آج شیخ صاحب کے انتخابی نشان قلم دوات کی طرح ‘ ان کے سیاسی ہیرو پرویزمشرف بھی متروک ہو چکے ہیں۔ سیاست کے بازار میں وہ اس طرح پھرتے ہیں‘ جیسے کوئی فیشن شو میں لنگوٹی باندھ کے چلا جائے۔ ویسے جو کچھ پرویزمشرف کے ساتھ ہو رہی ہے‘ اسے دیکھ کر یہ مثال دینا بھی دل رکھنے کے لئے ہے کہ کوئی فیشن شو میں لنگوٹی باندھ کر چلا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ پرویزمشرف کے پاس وہ بھی نہیں رہ گئی۔ وہ کہاوت تو آپ نے سنی ہو گی‘ جس میں ایک بچہ کہتا ہے ’’بادشاہ ننگا۔‘‘ اچھا ہوا عمران خان نے شیخ صاحب کا ہاتھ تھام لیا۔ ورنہ پرویزمشرف نے تو انہیں تنہائی کی مار دینے میں کسر نہیں چھوڑی تھی اور شیخ صاحب کو عمران خان کا ہاتھ نہ ملتا‘ تو ان کے سامنے حنیف عباسی کا ہاتھ رہ جانا تھا اور یہ ہاتھ شیخ صاحب کے لئے بڑا بدلحاظ ہوتا۔