ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی مقتدر شخص کو اس وقت انصاف کا سامنا کرنا پڑا ہو جب وہ بااختیار تھا۔ انصاف کا ڈنڈا اسی وقت چلتا ہے جب وہ اقتدار سے محروم ہو کر بے بس اور لاچار ہو جائے۔ حالیہ تاریخ کو دیکھوں تو مجھے صرف اٹلی کے وزیراعظم یاد آتے ہیں جن پردوراقتدار میں ہی مقدمہ چلا اور سزا بھی سنائی گئی۔ دنیا میں اور بھی کسی جگہ اگر ایسی مثال قائم ہوئی ہو تو اس کا زیادہ تذکرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ برصغیر میں جمہوری لیڈروں پر مقدمات چلتے رہتے ہیں۔ حال میں بھارت کے کئی وفاقی اور صوبائی وزیر کرپشن کے الزام میں پکڑے گئے۔ ان پر مقدمات بھی چلے۔ بعض کو جیل میں بھی جانا پڑا اور کئی مقدمات ابھی تک زیرسماعت ہیں۔ یہاں تک کہ تامل ناڈو کے اپوزیشن لیڈر جو کئی مرتبہ صوبے کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں‘ ان کی ایک بیٹی کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ دوران اقتدار قانون کی گرفت میں آنے کی مثالیں جمہوری نظام کے اندر ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔ فوجی آمروں کو البتہ بعداز اقتدار مقدمات اور سزائوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جن میں سب سے بڑی مثال پنوشے کی ہے۔ انہوں نے اقتدار سے محرومی کے بعد زیادہ عرصہ جلاوطنی میں گزارا۔ لیکن چلی کی حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے جرائم پر انہیں واپس لینے کی کوششیں جاری رکھیں۔ آخر کار جب پنوشے قریب المرگ ہو گئے تو برطانوی حکومت نے انہیں ان کے ملک کی حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں ضعیف العمری میں دور اقتدار کے مظالم کا حساب دینا پڑا اور 2006ء میں وہ ایک مصیبت زدہ بوڑھے کی حیثیت میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان میں فوجی آمروں نے خوب من مانیاں کیں۔ لیکن اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد صرف جنرل ارشاد کو قانون کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے جیل میں سزا کاٹی۔بنگلہ دیش کی آزادی کے کچھ ہی عرصے بعد فوجی افسروں نے اقتدار کا کھیل تیز رفتاری سے کھیلا۔ اس میں خون خرابہ بھی بہت ہوا۔ لیکن آخرکار ایک فوجی ڈکٹیٹر نے سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا اور وہ بھی پاکستان کے حکمران جنرلوں کی طرح ایک نئی سیاسی فصل تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ آج بھی اس کی پروردہ سیاسی جماعتیں بنگلہ دیش میں طاقتور اور منظم ہیں اور کئی بار عوامی لیگ کو شکست دے کر حکومتیں بھی بناتی رہی ہیں۔ اقتدار پر قابض ہونے والے دوسرے کسی جنرل کو عدالتی احتساب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پاکستان میں جنرلوں کی طویل حکومتوں کے باوجود اقتدار پر قبضہ کرنے کے جرم میں کسی بھی لیڈر کو قانون کی گرفت میں نہیں لیا جا سکا۔ ایوب خان نے 10 سال سے زیادہ عرصے تک اپنی آمرانہ حکومت چلائی اور بھرپور عوامی تحریک کے نتیجے میں انہیں اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا۔ لیکن اقتدار چھوڑ کر بھی وہ بڑی آرام دہ اور پرتعیش زندگی گزارتے رہے۔ آئین توڑنے کے جرم پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکی۔ یحییٰ خان ‘ ایوب خان کے بنائے ہوئے آئین کو توڑ کر ایک آمر کی حیثیت سے ایوان اقتدار میں داخل ہوئے۔ انہوں نے انتقال اقتدار کی خاطر انتخابات بھی منعقد کرائے۔ لیکن منتخب نمائندوں کو حکومت دینے سے انکار کر دیا۔ جس کے نتیجے میں زبردست خونریزی ہوئی اور ایک آمر کی ہٹ دھرمی اور ضد کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہو گیا۔ ایسے حکمران شاذونادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں جنہوں نے اپنے ملک کا آئین بھی توڑا ہو اور ملک کے بھی دو ٹکڑے کر دیئے ہوں۔ یہ ایسا بھیانک اور ناقابل معافی جرم تھا جس کی پاداش میں کوئی بھی حکمران سزا سے نہیں بچ سکتا۔ یحییٰ خان کو حراستی تحویل میں لے کر عوامی غیظ و غضب سے تحفظ دیا گیا اور انتہائی آرام دہ حکومتی حفاظت میں رہ کر انہوں نے زندگی کے آخری دن گزارے اور سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق اسی طاقت کی سازش کا شکار ہوئے جس کی خدمت میں انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ صرف کیا۔ وہ فوج کی نوکری کے دوران ہی امریکی مقاصد کی تکمیل کے لئے کام کرنے لگے تھے اور فلسطینی تحریک آزادی کو کچلنے میں نمایاں کردار ادا کر کے وہ امریکہ کے پسندیدہ جنرل بنے اور چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے اقتدار پر قبضہ کر کے امریکہ کی خاطر ہی پاکستان کی سالمیت کو دائو پر لگا دیا۔ آج ہمارے ملک میں جو دہشت گردی‘ ابتری اور سیاسی عملداری سے باہر نکل کر باغیانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے والے لوگ سرگرم ہیں‘ یہ ضیاء الحق کی امریکہ نواز پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے ہمارے ملک کو دوسپرپاورز کی باہمی کش مکش میں دھکیلا۔ دونوں سپرپاورز اپنے اپنے حساب برابر کر کے وہاں سے نکل جانے پر تیار ہو گئیں، لیکن پاکستان اس بری طرح سے افغان جنگ کا میدان بنا کہ آج بھی ہمارے شہری اور فوجی افسر اور جوان بڑی تعداد میں شہادتیں پیش کر رہے ہیں۔ لیکن نہ تو ملک کی عملداری سے باہر نکلے ہوئے علاقوں پر حکومتی کنٹرول بحال ہونے میں آ رہا ہے اور نہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے عذاب میں کوئی کمی واقع ہو رہی ہے۔ جب کارگل کے ایک شکست خوردہ جنرل پرویزمشرف نے اقتدار پر قبضہ جمایا تو اس کے لئے حالات پوری طرح سازگار نہیں تھے۔ خود فوج کے سارے جنرل 12اکتوبر کی بغاوت میں شامل ہونے سے انکاری رہے۔ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پرویزمشرف نے دوسرے جنرلوں کو فوج کے نظم وضبط اور یکجہتی کا واسطہ دے کر اپنے ساتھ ملایا اور پھر دس سال حکومت کرتا رہا۔ آخرکار اسے اپنے بنائے ہوئے ایوان نے ہی اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ اسے بھی اپنے پیشرو جنرلوں کی طرح زندہ سلامت ایوان اقتدار سے نکلنے کاموقع مل گیا۔ گارڈ آف آنر لے کر رخصت ہوا۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ دس سال تک اپنے ملک میں جابرانہ نظام چلانے کے بعد کسی میں یہ حوصلہ نہیں رہتا کہ وہ اپنے ملک کے غضبناک عوام کے درمیان واپس آنے کی سوچے۔ لیکن ایوان اقتدار کے فریب کدے میں رہتے ہوئے کسی بھی غیرجمہوری حکمران کو حقائق کی خبر نہیں ہوتی۔ جو بھی ڈکٹیٹر اقتدار پر قبضہ کرتا ہے اسے خوشامدیوں اور کاسہ لیسوں کا ایک بہت بڑا گروہ دستیاب ہو جاتا ہے جو اسے مافوق الفطرت شخصیت ہونے کا یقین دلاتے رہتے ہیں۔ حقیقت تب سامنے آتی ہے جب پیروں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ پرویزمشرف ایک خودسر اور خود فریب انسان ہے۔ منتخب پارلیمنٹ کا موڈ دیکھنے اور عوامی غیظ و غضب کا اندازہ کر لینے کے بعد بھی وہ بیرون ملک جا کر اسی وہم میں مبتلا رہا کہ اس نے پاکستانی عوام کی بہت خدمت کی ہے اور واپسی پر اہل وطن اس کی خوب پذیرائی کریں گے۔ اس کی بے پناہ دولت سے استفادہ کرنے والے سیاسی ساتھی حالات کا اندازہ کرتے ہوئے اسے جلدی جلدی چھوڑ گئے۔ اُن میں سے ایک تو ایسا بھی تھا جو مسلسل ٹیلیویژن چینلز پر بیٹھ کر پرویزمشرف کا دفاع کیا کرتا۔ اب وہ گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب ہو چکا ہے۔ ڈھونڈنے پر بھی کسی چینل کو تبصرے کے لئے دستیاب نہیں ہوتا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جنرل صاحب کے چھ کروڑ ہضم کر کے روپوش ہوا۔ پرویزمشرف نے پاکستان آنے سے پہلے جب بھی واپسی کا ارادہ ظاہر کیا تو اسے یہی کہا گیا کہ حالات اس کے حق میں سازگار نہیں ہیں۔ عزت اور سلامتی اسی میں ہے کہ آپ اپنی بے پناہ دولت کے ساتھ جلاوطنی کی آرام دہ زندگی گزاریں۔ سننے میں آیا ہے کہ جنرل کیانی نے بھی یہی مشورہ دیا تھا، مگر ایک ہٹ دھرم شخص کس کی سنتا ہے؟ وہ اپنی مقبولیت کے زعم میں میڈیا کے نمائندوں سے جہازبھر کے کراچی واپس آیا اور فوراً ہی ایک ایک کر کے اس کے خواب ٹوٹنے لگے اور وہی ریاستی مشینری جو اس کے اشارہ ابرو پر احکامات بجالانے کو تیار رہتی تھی آج اسے جکڑنے کے عمل میں مستعدی سے سرگرم ہے۔ آج اس کا کوئی اپنا نہیں۔ اس سے کوئی اظہارہمدردی نہیں کر رہا۔وہ سیاستدان بھی جنہیں اس نے اقتدار کی بلندیوں پر پہنچایا‘ اس کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھ رہے۔ لیکن مجھے اس صورتحال پر کوئی فخر نہیں۔ فخر کی بات یہ ہوتی کہ ہم نے ہر آمر کا گریبان اس وقت پکڑا ہوتا جب وہ پوری طاقت کے ساتھ ہم پر مسلط تھا۔ آج وہ اپنے اعمال اور تاریخ کے انتقام کا نشانہ بنا ہوا ہے تو ہم سب اس پر آوازے کس رہے ہیں، گالیاں دے رہے ہیں۔ وہ شخص جو خود ہی اپنی شکست کی آواز ہے‘ اس کی تذلیل کرناغیرشائستہ حرکت ہے۔ بڑاپن یہ ہوتا کہ جن لوگوں کو اس نے تکلیفیں پہنچائیں‘ وہ اس کے لئے انصاف اور آبرومندانہ سلوک کا تقاضا کرتے تاکہ عوام دیکھ لیتے کہ ظالموں‘ جابروں اور آمروں اور عوام کے منتخب نمائندوں کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے؟ قانون کو اپنے راستے پرچلنا چاہیے مگر تہذیب کی حدود میں رہتے ہوئے۔قانون کی آڑ لے کر ایک بے بس انسان کی تذلیل کرنا جبکہ وہ طاقت اور اقتدار سے محروم ہو چکا ہو‘ کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ جس چیز سے ہمیں نفرت تھی وہ اس کے پاس نہیں رہ گئی اور جو کچھ اس کے پاس رہ گیا ہے وہ قابل نفرت نہیں‘ قابل افسوس ہے،قابل رحم ہے۔ نوازشریف کو دی گئی اذیتیں قوم کبھی نہیں بھلا سکتی۔ پرویزمشرف اسی لئے آج اجتماعی نفرت کا ہدف بنا ہوا ہے۔ جب اس کے ساتھ وہی کچھ ہو گا تو کرنے والوں کی تحسین نہیں ہو گی، بلکہ یہ سلسلہ دراز ہوا توہمدردیاں پرویزمشرف کی طرف جا سکتی ہیں۔