"NNC" (space) message & send to 7575

گردابوں کے جھرمٹ میں

پاکستان کے راستے‘ امریکی افواج اور جنگی سازوسامان کی واپسی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی افغان صدر حامد کرزئی اور پاکستان کے درمیان ایک مرتبہ پھر تلخیاں پیدا ہونے لگی ہیں۔ سینیٹرجان کیری ‘جن کے دورے میں پاکستان شامل نہیں تھا‘ نئے حالات میں انہیں ہنگامی تبدیلی کر کے اسلام آباد آنا پڑا۔ اس کی وجہ پاکستان اور صدر کرزئی کے درمیان پیدا ہونے والی تلخیاں ہیں۔ پاکستان نے پاک افغان سرحد پر جو نئی چیک پوسٹیں اور گیٹ تعمیر کئے ہیں‘ افغانستان کی نیشنل آرمی اس پر خوش نہیں۔ افغان حکومت کی طرف سے ‘ پاکستان کو بارہا مطلع کیا گیا کہ یہ تعمیرات اس کے لئے قابل قبول نہیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ یہ اقدام دہشت گردوں کو روکنے کے لئے کیا گیا ہے اور اس پر افغانستان کی طرف سے اعتراض کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں۔ یہ بات افغانستان کو شدید ناگوار گزری اور افغان نیشنل آرمی کے ایک اعلیٰ افسر جنرل ظاہراعظمی نے ایک پریس کانفرنس میں کھل کر پاکستان کی جانب سے سرحد پر گیٹ لگانے کی پاکستانی کوششوں پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن پرگیٹ کی تعمیر‘ بین الاقوامی ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ اس اقدام سے دوطرفہ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سرحد پر گیٹ اور چیک پوسٹوں کی تعمیر سے روکنے کے لئے‘ ہمارے پاس مختلف آپشنز موجود ہیں۔ بتایا گیا کہ افغان نیشنل آرمی نے سرحد پر چیک پوسٹوں کی تعمیر اور گیٹ لگانے سے روکنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگر پاکستان نے ازخود ایسا نہ کیا تو پھر تعمیرات کو زبردستی ہٹانا پڑے گا۔ صدر حامد کرزئی نے دفاع‘ داخلہ اور خارجہ امور کے وزراء کو ہدایت دے دی تھی کہ پاکستان کی جانب سے تعمیر کی گئی چیک پوسٹوں اور گیٹ کو ہٹا دیا جائے۔ تاہم آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کابل کی جانب سے پاک افغان سرحد پر چیک پوسٹوں کا مسئلہ افغان فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے ساتھ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا ہے۔ لیکن افغانستان کے رویے میں کسی تبدیلی کا اشارہ نہیں ملا۔ ظاہر ہے جان کیری کے دورے میں پاکستان کو شامل کرنے کا بنیادی مقصد‘ پاک افغان تعلقات کی بحالی ہے۔ افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلاکو سامنے رکھتے ہوئے ‘ افغانستان کی سرزمین پر‘ مختلف سٹیک ہولڈرز کی جو سرگرمیاں جاری ہیں‘ان پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ افغانستان میں اگر حکمران گروہ‘ پاکستان سے مخاصمت رکھتے ہیں اور بھارت سے زیادہ قریب ہیں‘ تو وہاں کے دوسرے کئی گروہ اور وارلارڈز‘ پاکستان سے اچھے تعلقات کے حامی بھی ہیں۔ امریکہ اور کرزئی حکومت چاہیں بھی تو ان رشتوں کو توڑ نہیں سکتے اور کبھی آزمائش کا مرحلہ آ گیا‘ تو پاکستان کے لئے میدان میں آنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ دوسری طرف ایران نے افغانستان کے اندر اپنے حامیوں کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ گوریلا جنگ کے ماہرین کو افغانستان میں داخل کرنا شروع کر دیا ہے۔ روس بھی صورتحال سے غافل نہیں۔ شمالی اتحاد کے ساتھ اس کے رابطے تیزہو رہے ہیں اور بھارت بھی ان رابطوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ یاد رہے طالبان حکومت کے خلاف جنگ میں یہ دونوں ملک شمالی اتحاد کے مددگار رہے ہیں اور انہیں ہر طرح کی امداد پہنچائی گئی تھی۔ ان رابطوں کی بحالی‘ نئی صورتحال کا سامنا کرنے کی تیاری کا حصہ ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ قریباً ساڑھے چھ سال پہلے جب قبائلی علاقوں میں نوجوانوں کے 13گروہوں نے مل کر تحریک طالبان پاکستان نامی تنظیم قائم کی تھی‘ تو میں نے اسی وقت امریکی اور پاکستانی طالبان کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے لکھا تھا کہ طالبان پاکستان درحقیقت امریکیوں کے اشارے پر منظم ہوئے ہیں اور یہ آخرکار پاکستان کے خلاف محاذ کھولیں گے۔ میرے نزدیک اس کی وجہ صاف تھی اور وہ یہ کہ پاکستانی طالبان ‘ ملا عمر کے ساتھ مل کر افغانستان میں جہاد کرتے تھے اور پاکستانی طالبان کی سرگرمیوں کا مرکز ہمارے قبائلی علاقے تھے۔ ابتدا میں انہوں نے افغانستان سے بھاگ کر پاکستان میں پناہ لینے والے غیرملکیوں کے خلاف کارروائیاں کیں۔ حقیقت یہ تھی کہ یہ غیرملکی‘ افغان اور امریکی افواج کا دبائو بڑھنے کی وجہ سے پاکستان آ گئے تھے اور پاکستان کے خلاف، پرانے رشتوں کی بنا پر وہ یہاں کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب طالبان پاکستان نے ان پر حملے شروع کئے‘ تو ظاہر ہو گیا کہ وہ قبائلی علاقوں کو غیرملکیوں سے خالی نہیں کرا رہے‘ جیسا کہ ان کا دعویٰ تھا۔ درحقیقت وہ خود ان علاقوں پر قبضہ کر کے‘ اپنے مراکز قائم کرنا چاہتے تھے اور جب وہ اس میں کامیاب ہو گئے‘ تو انہوں نے اپنے حملوں کا رخ پاکستانی ریاست کی طرف کر دیا اور کھل کر دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری لینا شروع کر دی۔ ان کی مدد کرنے والوں میں امریکہ اور بھارت دونوں شامل ہیں۔ انہیں اسلحہ افغانستان کی طرف سے پہنچایا جاتا ہے‘ جو اتنا جدید اور تکنیکی اعتبار سے اعلیٰ معیار کا ہوتا ہے کہ پاک فوج کو بھی دستیاب نہیں۔ جب ان طالبان کے خلاف پاک فوج نے کارروائی شروع کی‘ تو ان کے مراکز سے جو اسلحہ برآمد ہوا‘ اسے دیکھ کر ہمارے فوجی بھی حیرت زدہ رہ گئے تھے اور اسلام کے ان مجاہدین کے پاس ویڈیوز‘ تصاویر‘ ڈی وی ڈیز اور سکاٹ لینڈ کے مشروبات کے وہ اعلیٰ ترین نمونے پائے گئے‘ جو ہمارے فوجیوں کے لئے حیران کن تھے۔ ان طالبان کی مالی امداد خلیج کی ریاستوں سے کی جاتی ہے‘ جو مسلمان اسلام کے نام پر دیتے ہیں۔ لیکن اصل میں ان کے پیچھے بھارت اور امریکہ ہوتے ہیں۔ گزشتہ روز میں نے 1970ء کے انتخابات کا زمانہ یاد کرتے ہوئے‘ بھارت کی تیاریوں کی طرف اشارے کئے تھے۔ موجودہ انتخابات 70ء کے انتخابات سے مختلف نہیں۔ جس طرح وہ انتخابات 24سال کے بعد پہلی مرتبہ ہو رہے تھے اور ہمارے معاشرے کو پریشر ککر کی حالت میں رکھ کر جس طرح دم پخت کیا گیا تھا‘ اس کے نتائج کا اندازہ نہ ہمارے حکمرانوں کو ہوا اور نہ سیاستدانوں کو۔ مگر دشمنوں نے بھانپ لیا۔ میرے حساب میں موجودہ انتخابات بھی1970 ء سے مماثل ہیں۔ اس وقت پاکستانی معاشرے کو 24سال بند رکھنے کے بعد کھولا گیا تھا۔ آج ہمارامعاشرہ 36سال کے بعد کھل رہا ہے۔ ان 36 سالوں میں بظاہر بہت سے انتخابات ہوئے۔ لیکن یہ سارے کے سارے ریموٹ کنٹرول تھے اور پارٹیوں کی ہارجیت کا فیصلہ مشہور زمانہ لیبارٹری میں ہوتا تھا اور ان انتخابات کے نتیجے میں جو حکومتیں بنتیں‘ ان کی لگامیں اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتی تھیں۔ کبھی براہ راست فوجی حکمران اپنا کنٹرول قائم کرتے اور کبھی پس پردہ رہ کر۔ لیکن اختیارات کا مرکز ہمیشہ نام نہاد منتخب حکومتوں سے باہر ہوا کرتا تھا۔ حتیٰ کہ 2008ء کے انتخابی نتائج کوبھی میں فیکٹری میڈ ہی سمجھتا ہوں۔ پہلے ہی سے فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کون بنائے گا؟ اور صوبائی حکومتیں کون؟ اس اثناء میں صوبائی خودمختاری اور وفاقی مالیاتی وسائل کی تقسیم کے فیصلے ضرور کئے گئے۔ لیکن جو آزادیاں اس نظام کے تحت صوبوں کو ملنا چاہئیں‘ وہ ابھی تک پوری طرح نہیں ملیں۔ موجودہ انتخابی مہم‘ تکلیف دہ حد تک مفہوم اور مقصد سے عاری ہے۔ جھگڑے باریوں کے چل رہے ہیں۔ کسی بھی جماعت نے نہ تو سنجیدگی سے خارجہ امور کا تجزیہ کیا ہے۔ نہ مالیاتی بحران کا اور نہ وفاق اور صوبوں کے تعلقات کو زیربحث لایا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جن جذبات کو انتخابی مہم کے دوران ظاہرہونا چاہیے تھا۔ ان پر بحث کرنیکی ضرورت تھی۔ مسائل کی نشاندہی کر کے ان کے حل تلاش کئے جانا تھے۔ یہ سارے کام نہیں ہو سکے۔ سب اپنی اپنی امیدوں کے آشیانے‘ دوسروں کی غلطیوں پر بنا رہے ہیں۔ اول تو یہ انتخابات کسی بھی ایک جھٹکے سے آگے پیچھے ہو سکتے ہیں اور اگر منعقد ہو بھی گئے‘ تو نتائج بے نتیجہ ہوں گے۔ حکومت سازی میں کامیاب ہونے والی جماعت اپنے آپ کو فاتح قرار دے کر‘ لوٹ مار کے اسی نظام کی سربراہی شروع کر دے گی۔ لیکن ہماری معیشت‘ گردوپیش کے حالات اور سماجی ڈھانچہ‘ ایسی بے عملی میں برقرار نہیں رہ سکیں گے۔ افغانستان کے حالات ایک عفریت کی طرح منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔ ہم کسی بھی وقت وہاں شروع ہونے والی خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ اس کے بعد کیسی جمہوریت اور کیسا استحکام؟ ہماری فوجیں اسلام کی حفاظت کریں گی اور اسلام کے نام پر بنے ہوئے فرقے ایک دوسرے کے ایمان درست کریں گے اور طالبان ریاست پر قبضہ کرنے کی جنگ لڑیں گے۔ سب کا نعرہ اسلام ہو گا۔ سب کا ہدف پاکستان ہو گا اور ہر کوئی اپنے اپنے کافر کی بیخ کنی کر رہا ہو گا۔آج ہم ڈھونڈ رہے ہیں کہ اسلام آباد میں حکومت کس کی ہے؟ نگرانوں کی؟ عدلیہ کی؟ یاپس پردہ قوت کی؟ انتخابی نتائج کے بعد بھی ہم اسی طرح حکومت کو ڈھونڈ رہے ہوں گے اور وہ کسی کو‘ کہیں پر بھی دکھائی نہیں دے گی۔ جمہوری نظام کو چلانے کے لئے اداروں میں اختیارات کی تقسیم کا جو نظام ہوتا ہے اور جس میں سب آئین کے گرد کشش ثقل کے ایک نظام کے تحت اپنی اپنی جگہ پر رہتے ہوئے مقررہ مدار میں گھومتے رہتے ہیں‘ ہمارے ہاں وہ نظام وجود پذیر نہیں ہو سکا۔ ہر ادارہ چھینا جھپٹی میں مصروف ہے۔ کبھی کوئی غالب آ جاتا ہے‘ کبھی کوئی۔ نتیجے میں ہمارے ساتھ وہی کچھ ہو رہا ہے‘ جو ہم برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں