مضمحل‘ لاغر اور رینگتی ہوئی انتخابی مہم اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ میں نے نام نہاد انتخابی مقابلوں پر لکھنے سے حتیٰ الامکان گریز کیا ہے۔ یہ تماشا اتنی بار دیکھ چکا ہوں کہ اب بیزاری ہونے لگی ہے۔ وہی ایک جیسے الزامات اور جوابی الزامات۔ وہی غم‘ غصے اور جعلی جوش سے بھری ہوئی تقریریں۔ وہی سہانے خوابوں کے نقشے اور وہی دکھوں‘ مصیبتوں اور بھوک ننگ کے ستائے ہوئے عوام جو تقریری تماشوں کو دیکھ دیکھ کر پھر سے امیدیں باندھ رہے ہوتے ہیں۔ ہر کوئی انہیں اپنا مسیحا دکھائی دیتا ہے مگر لیڈر اور عوام دونوں ہی حقائق کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ لیڈروں کو معلوم ہے کہ ان کی ظاہری لڑائیاں‘ تلخیاں اور معرکہ آرائیاں‘ انتخابی نتائج آنے کے بعد ختم ہو جائیں گی۔ انہیں اصل کھیل میں کودنا پڑے گا اور پھر ایک مخلوط حکومت بنانے کے لیے سودے بازیاں ہوں گی۔ وزارتوں پر چھینا جھپٹی ہو گی۔ کئی وزارتیں رس بھری اور فربہ ہوتی ہیں جن کے اندر سونے اور ہیرے جواہرات سے بھری دیگیں اپنے نئے مالک کے انتظار میں ہوتی ہیں اور کچھ وزارتیں سوکھی سڑی اور بیوہ کے گھر کی طرح خالی ہوتی ہیں۔ رس بھری وزارتوں پر شدید کش مکش ہوتی ہے اور سوکھی سڑی وزارتوں کی طرف کوئی پلٹ کر دیکھتا بھی نہیں۔ یہ ہوتا ہے وہ اصل کھیل جس میں شریک ہونے کے لیے انتخابی معرکے سر کیے جاتے ہیں۔ زور خطابت سے عوام کو باور کرایا جاتا ہے کہ وہ اگر فلاں پارٹی کو ووٹ دیں گے تو ان کے دن بدل جائیں گے۔ ملک میں خوراک‘ ملازمتوں اور بے خانماں لوگوں کے لیے گھروں کی بہتات ہو جائے گی۔ مہنگائی ختم کر دی جائے گی۔ ٹرانسپورٹ کی سہولتیں عام ہو جائیں گی۔ تعلیم مفت ہو جائے گی۔ علاج اور دوائیں گھروں پر مہیا کی جائیں گی۔ لیکن یقین کیجیے جب وزارتیں بٹ رہی ہوتی ہیں تو کسی کے ذہن میں یہ باتیں نہیں ہوتیں۔ کہاں کے عوام؟ کہاں کی فلاح و بہبود؟ کہاں کی خوشحالی؟ یہ سب ہرجائیوں کے وعدے ہوتے ہیں جو وہ کسی دلربا کو پھنسانے کی خاطر کرتے ہیں اور پھر مطلوبہ لمحہ گزرتے ہی سب کچھ فراموش کر دیتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی دوسروں سے مختلف نہیں۔ بھٹو صاحب نے اپنے زمانے کی تاریخ کے دھارے کا رخ دیکھتے ہوئے کچھ نعرے اور پروگرام نئے انداز میں عوام کے سامنے پیش کیے اور نجی شعبے میں سرمایہ دارانہ طرز کی تیزرفتار ترقی کا پہیہ روک کر جاگیرداری کو نئی زندگی دینے کی خاطر کلیدی صنعتوں اور سرمایہ کاری کے اداروں پر بیوروکریسی کے تالے لگا دیے اور اسے نیشنلائزیشن کہا۔ دراصل یہ بیوروکریٹائزیشن تھی۔ بیوروکریسی وہ آکاس بیل ہے جو اسی درخت کی توانائیاں چوس لیتی ہے جو اسے اپنے جسم سے لپٹا کر سہارا دیتا ہے۔ ترقی پذیر قوموں میں حب الوطنی اور وطن پرستی کو ایک نشے کی طرح استعمال کر کے حکمران طبقے اپنا کام چلاتے ہیں۔ اگر آپ نے نوٹ کیا ہو تو بھٹو صاحب کی انتخابی مہم میں وہ سارے مصالحے موجود تھے جو عوام کو جادوگر کی بنسری کی طرح مسحور کر کے‘ اپنے مسائل سے بیگانہ کر دیتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے ان سارے نعروں کا کامیابی سے استعمال کیا۔ اس میں غریب کے لیے روٹی اور روزگار کے خواب تھے۔ مگر ان خوابوں کو عزم و ارادے میں ڈھلنے سے روکنے کی خاطر حب الوطنی کا نشہ بھی شامل کر دیا گیا تھا۔ ’’ہم ہزار سال لڑیں گے۔ اوئے مائی! ہم تیرے سامنے نہیں جھکیں گے۔ گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے۔‘‘ اس نشے میں انہوں نے روٹی‘ روزگار کی خواہشوں کو پس منظر میں دھکیل دیا اور وہ جادوگر کی طرح عوام کو مسحور کر کے اپنا کام کرتے چلے گئے۔ یعنی حکمرانوں کو پہلے سے مضبوط کر دیا۔ جو فوج سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد اقتدار میں آنے کا جواز کھو چکی تھی اسے دوبارہ اتنا مضبوط کر دیا کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر سکے۔ شطرنج کی بساط کا نقشہ بدلا۔ بھٹو صاحب کے مخالفین نے انہی کے نسخے میں ردوبدل کر کے حب الوطنی کے ساتھ مذہبی جذباتیت کو شامل کر دیا اور اس طرح اسلام اور نظریہ پاکستان کے ہیولوں پر مبنی ایک ایسا نعرہ ایجاد کیا جس کا مطلب ہر کوئی اپنے اپنے مفاد اور مقصد کے تحت نکال سکتا تھا۔ ضیاء الحق نے خود اعتمادی سے قدم جماتے ہوئے معاشرے کو توڑ پھوڑ کے بے جان کر دیا‘ جس میں عوامی طاقت ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئی اور حکمرانوں کے لیے اقتدار پر قبضہ کرنا بچوں کا کھیل بن گیا۔ ترکیب بڑی سادہ تھی۔ عوام سے رابطے رکھنے پر مجبور سیاستدانوں کی کردارکشی کر کے ان کی ساکھ مٹی میں ملا دی گئی اور آمریت کے کل پرزوں کو کھل کھیلنے کے مواقع مل گئے۔ رہی سہی کسر افعانستان پر سوویت افواج کے قبضے سے نکل گئی۔ پہلے پاکستان کو کمیونزم سے بچانے کا نعرہ لگا اور اسلام کے نام پر دہشت گردوں کو منظم کر کے جنگی کارروائیاں شروع کر دی گئیں اور ان کے نتیجے میں منشیات‘ سمگلنگ‘ انتہاپسندی‘ دہشت گردی پاکستانی عوام کو ہیروئن کے نشے کی طرح لگ گئیں۔ نشہ کرنے والا جانتا بھی ہے کہ وہ اپنی جان لے رہا ہے لیکن وہ اس کی لذت میں اپنی موت کی طرف بڑھتا بھی رہتا ہے۔ آج ہم انہی منشیات کے عادی ہو کر مستقبل کے خواب تک دیکھنا بھول چکے ہیں۔ صنعتی ترقی خواب بن کر رہ گئی ہے۔ سرمایہ کاری کی توقع کرنا بھی ہمارے لیے عیاشی ہے۔ اب ہمارے مسائل یہ ہیں کہ بجلی ایک گھنٹہ زیادہ آ جائے۔ آٹا ہم مہنگا خرید لیں گے لیکن روٹی پکانے کے لیے گیس ہی مل جائے۔ دوا چاہے مفت نہ ملے لیکن ملاوٹ شدہ تو نہ ہو۔ بچے کو ہم فیس دے کر پڑھا لیں گے مگر وہ زندہ سلامت گھر تو واپس آ جائے۔ سودا ہم مہنگا خرید لیں گے لیکن بچوں کا باپ سودا خریدنے جائے تو زندہ سلامت ہی گھر لوٹ آئے۔ دن رات لائن میں ہی کیو ں نہ لگنا پڑے لیکن سی این جی تو مل جائے۔ ہمارے لیڈر کہتے ہیں کہ پاکستان ایٹمی ملک ہے۔ یہ ترقی پذیر نہیں‘ ترقی یافتہ ہے۔ مگر ان دعوئوں کو سن کے جب ہم اخبار پڑھنے بیٹھتے ہیں تو کمرے کا بلب نہیں جلتا۔ ہم کس طرح کے لوگ تھے اور کیسے بنا دیئے گئے؟ آج مجھے انتخابی میدان میں اترے ہوئے سارے لیڈروں اور ساری جماعتوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ سب ایک جیسے ہیں۔ یہ عوام کو طرح طرح کے خواب دکھاتے ہیں۔ مگر ان سب کا خواب مشترکہ ہے۔ وزارتوں کی بندر بانٹ۔ مجھے کوئی لیڈر دوسرے سے مختلف نظر نہیں آتا۔ ان کی صرف شکلیں مختلف ہیں‘ لباس مختلف ہیں‘ بولنے کے طریقوں میں فرق ہے لیکن ان کے ارادے اور عزائم ایک جیسے ہیں اور ان میں کسی بیروزگار‘ کسی غریب‘ کسی بیمار‘ کسی ضرورت مند اور امن اور سلامتی کو ترسے ہوئے کسی غریب کے لیے کچھ نہیں ہے۔ پہلے تو حکمران اور سیاسی پارٹیاں مل کر مخالفین کے خلاف دھاندلی کیا کرتے تھے۔ اب اس کی بھی ضرورت نہیں رہ گئی۔ جن جماعتوں کو کامیابی کے خاص درجے سے محروم رکھنا مطلوب ہوتا ہے‘ انہیں دہشت گرد تنظیمیں مقابلے کے میدان سے باہر کر دیتی ہیں۔ ان کے انتخابی دفتروں پر حملے ہوتے ہیں۔ ان کے لیڈروں کو مارا جاتا ہے۔ ان کے امیدواروں کو قتل کیا جاتا ہے۔ پسند کے لیڈر کھلم کھلا جلسے کرتے ہیں اور انہیں کسی سے خطرہ نہیں ہوتا اور زیرعتاب جماعتیں بڑا جلسہ تو کیا؟ کارنر میٹنگ بھی نہیں کر پا رہیں اور پولنگ کے دن صرف پسندیدہ جماعتوں کے ووٹر نقل و حرکت کرنے اور ووٹ ڈالنے میں آزاد ہوں گے اور ناپسندیدہ جماعتوں کے ووٹروں کو خوفزدہ کر کے پولنگ سٹیشنوں سے دور رکھا جائے گا۔ جو وہاں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے‘ انہیں بھگا دیا جائے اور باقی سب کو خوفزدہ کر کے گھروں میں بٹھا دیا جائے گا۔دھاندلی کی کیا ضرورت ہے؟ جمہوریت‘ عوامی شعور کے صیقل ہونے اور ترقی کے عمل کو تیز کرنے کے کام آتی ہے۔ لیکن ہم نے اسی جمہوریت کا یہ حال کر دیا ہے کہ انتخابی نتائج انتہاپسندوں کے رحم و کرم پر رہ گئے ہیں۔ کوئی سماجی طاقت‘ بے مقصد کچھ نہیں کرتی۔ دہشت گرد تنظیموں کو اپنے انتہاپسندانہ مقاصد میں روکنے والی جو سیاسی طاقتیں نظر آتی ہیں ان کے راستے بند کیے جا رہے ہیں اور جو سیاسی طاقتیں ان کے مقاصد کی تکمیل کر سکتی ہیں‘ انہیں آسانیاں فراہم کی جا رہی ہیں۔ اگلے مرحلے میں کیا ہو گا؟ یہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اب جو ہونے والا ہے‘ اس میں سوچنا بھی جرم ہو گا۔ صرف سرتسلیم خم کرنا پڑے گا کیونکہ جو کچھ عوام پر مسلط کیا جائے گا‘ اس کا نام ہو گا حکم الٰہی اور انکار کرنے والا کافر قرار پائے گا۔