"NNC" (space) message & send to 7575

شوقِ رسوائی

صحافی دوستوں کو میرا مشورہ ہے کہ آئندہ انہیں صدر‘ وزیراعظم‘ وزرائے اعلیٰ یا وزرا کی طرف سے ‘ ناشتے‘ لنچ‘ شام کی چائے یا ڈنر کا دعوت نامہ آئے تو عزت بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ گھر سے ٹفن میں اپنا ناشتہ‘ کھانا یا چائے لے کر نکلیں۔ دعوت میں شریک ہوں اور گھر واپسی سے پہلے میزبان یا اس کے سیکرٹری سے تحریری طور پر شہادت لے لیں کہ آپ نے دعوت میں میزبان کی فراہم کردہ کوئی چیز استعمال نہیں کی۔ اس تحریر کو سنبھال کر رکھیں تاکہ دوران مقدمہ آپ اسے پیش کر سکیں۔ ورنہ کچھ پتہ نہیں‘ کب اس کھانے یا چائے کی قیمت ہزاروں میں لگا کرآپ کا نام خفیہ فنڈ استعمال کرنے والوں میں ڈال دیا جائے اور پھر آپ کے ہم پیشہ ساتھی‘ آپ کا نام لے لے کر‘ اسے ٹی وی اور اخبارات میں اچھالیں اور نشتر زنی سے اپنے شوق اذیت کی تسکین کریں۔ایک زمانہ ہوتا تھا جب صحافی حضرات ایک دوسرے کے کام کی تحسین بھی کرتے تھے اورجہاں پیشہ ورانہ عزت پر حرف آتا تھا تو اس کا دفاع بھی کرتے تھے۔ اب ایک نیا رواج نکلا ہے کہ جو ذرا سینئر ہو یا اللہ اسے تھوڑی بہت عزت عطا فرما دے تو اسے بے آبرو کرنے کے مواقع تلاش کئے جاتے ہیں اور اب تو انٹرنیٹ بھی لاہور میں ککے زئی خواتین کی معروف لڑائیوں سے بھی زیادہ ابتذال اور بیہودگی سے بھرا ہوتا ہے۔ بطور پاکستانی ہماری اجتماعی رسوائیوں کا بوجھ اتنا ہے کہ اگر ہم میں ذرا بھی عزت نفس ہو تو ہم انہی رسوائیوں پر ہی قناعت کر کے مطمئن ہو جائیں۔ لیکن اپنی ذلتوں سے لطف اندوز ہونے کی لت ہی ایسی ہے کہ ہیروئن کی طرح لگتی ہے اور اپنوں بیگانوں سب کو بھلا دیتی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر صحافیوں اور ان کی بیوائوں کو رسوا کرنے کی جس دستاویز کو برائے اشاعت جاری کیا گیا‘ اس پر اچھے خاصے صحافیوں کو صفائیاں پیش کرنا پڑ رہی ہیں۔ نصرت جاوید‘ سہیل وڑائچ ‘ رئوف کلاسرا اور چند دوسرے صحافیوں کو یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ وہ اس گندے کھیل میں کبھی شریک نہیں رہے جسے خفیہ فنڈ کہا جاتا ہے۔ اذیت پسندانہ سوچ رکھنے والوں نے ملک کے متعدد عزت دار صحافیوں کو محض اس جرم میں رسوا کرنے کا شوق پورا کیا کہ انہوں نے اپنی محنت اور کارکردگی سے جو تھوڑی بہت عزت کمائی ہے‘ اسے داغدارکیا جائے۔ صحافت واحد پیشہ ہے جس میں کرپشن کرنے کی گنجائش بہت ہی کم ہوتی ہے۔ ایک پیشہ ور صحافی زیادہ سے زیادہ بلیک میلنگ کر سکتا ہے۔ مگر اس میں چند لاکھ سے زیادہ کی کمائی نہیں کر سکتا۔ گھر بنانے کے لئے پلاٹ لے سکتا ہے۔ بڑا تیر مار لیا تو میری طرح بچوں کو نوکری دلوا سکتا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں کروڑوں اور اربوں کا ہیرپھیر ہوتا ہو اور بڑے سے بڑے معززین اور معتبرین‘ کرپشن کی بہتی گنگا میں صرف ہاتھ نہیں دھو رہے‘ غوطہ زنی کر رہے ہوں‘ کونسا پیشہ ہے جس کی روایتی آبرو باقی رہ گئی ہے؟ عدالت عظمیٰ کے جج حضرات کے بھی اس انداز میں چرچے ہوئے جیسے وہ جرائم پیشہ ہوں۔ جسٹس ڈوگر اور ان کے ساتھی درجنوں جج حضرات کے ساتھ یہ سلوک اپنوں نے کیا۔ اگر ہمارے ساتھیوں نے ہماری رسوائی سے لطف اٹھالیا تو کیوں گلہ کریں؟ آج ہی کے اخبار میں خبر ہے کہ فوج کے 70سے زیادہ افسروں نے سینیٹر سید مشاہد حسین سے فوج کی تضحیک پر شکایت کی۔ بیوروکریسی پہلے ہی سے بدنام ہے اور شاید اب اپنی عزت کی بحالی کے امکان سے پرامید نہیں رہ گئی۔ سیاستدانوں کو رسوا ہی نہیں ذلیل بھی کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ دنیا کی ہر برائی ان کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے۔ علمائے کرام ایک دوسرے کے لئے کافی ہیں۔ دنیا میں ہر پیشے کے لوگوں سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ بعض جرائم کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ مگر ایسی انفرادی غلطیوں کی سزا پورے پیشے یا طبقے کو نہیں دی جاتی۔ صرف متعلقہ شخص ہی نامزد ہوتا ہے۔ مگر یہاں ہر پیشے کے لوگ اپنے ہی ہم پیشہ لوگوں کو رسوا کر کے جس طرح لطف اندوز ہوتے ہیں وہ ایک بیمار ہی نہیں‘ بہت ہی بیمار معاشرے کی نشانی ہے۔ اپنی صفائی میں رئوف کلاسرا نے جس طرح پیٹ سے کپڑا اٹھا کر اپنی صفائیاں پیش کیں‘ اسے پڑھ کر مجھے ترس آ گیا۔ کیا زمانہ آ گیا ہے کہ رزق حلال سے گزراوقات کرنے والوں کو ناکردہ گناہوں پر صفائیاں پیش کرنا پڑتی ہیں اور اربوں کھربوں ہضم کر جانے والے ڈھٹائی سے کہتے ہیں ’’ثبوت لائو۔‘‘ لیکن ہمارے خلاف کوئی ثبوت بھی نہیں ہوتا اور کیچڑ اچھالا جانے لگتا ہے اور اس کھیل میں اپنے غیروں سے زیادہ پرجوش ہوتے ہیں۔یہ ہمارے ہاں کا محاورہ ہے کہ ’’چور اچکے چوہدری تے غنڈی رن پردھان۔‘‘ ہماری برادری میں کرپشن سے مالامال ہونے والے اتنی طاقت حاصل کر لیتے ہیں کہ کوئی کارکن صحافی ان کے خلاف لکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ جرات اور بیباکی کا استعمال صرف ان صحافیوں پر کیا جاتا ہے جو کسی کو ڈرانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ دوسروں کی کیا لکھوں؟ میں خود بھی یہ جرأت نہیں کر سکتا۔ خفیہ فنڈ میں جو حصہ مجھے دینے کا انکشاف کیا گیا ہے‘ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ اسلام آباد ہوٹل میں میرے ایک شب قیام کا خرچ 7ہزار 66 روپے ہے۔ اسلام آباد میں رینٹ اے کار کا بل 28 ہزار 222 روپے دیا گیا۔ اسلام آباد ہوٹل میں میں چار صحافیوں کے ساتھ قیام پذیر ہوا جس کا مجموعی بل 2لاکھ 45 ہزار روپے تھا۔ جو حضرات مجھے مزید ذلیل کرنا چاہتے ہیں‘ وہ 12-8-2012 کے حساب میں اس بل کی تفصیل دیکھ لیں اور جائزہ لیں کہ کس صحافی کے حصے میں کتنا آیا اور یہ لوگ کتنے دن مقیم رہے؟ اور ایسا کیا کچھ کھا پی گئے کہ اوسطاً 50ہزار روپیہ خرچ ہو گیا۔ اس چھان بین میں شاید وزارت کے کسی اہلکار کا ’’خفیہ‘‘ حصہ بھی نکل آئے۔ اس کے بعد 10-5-2012کو ایک ہوٹل کا بل ادا کیا گیا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ سرفراز حسین شاہ نامی کسی وزیر نے ایک روزنامے کی ٹیم کے اعزاز میں ڈنر دیا جس میں ناجی شریک تھا۔ میں نے زندگی بھر اس مذکورہ اخبار میں کبھی کام نہیں کیا جس کی ٹیم کا مجھے رکن بنا دیا گیا اور سچی بات ہے میں اپنے میزبان سرفراز حسین شاہ نامی وزیر کے بارے میں بھی‘ ابھی تک نہیں جان پایا کہ یہ کون صاحب تھے؟ اس طرح کے بیہودہ الزام کسی عام آدمی پر بھی لگائے جاتے تو میڈیا کی خبر کبھی نہ بنتی۔ خود رپورٹر یا ڈیسک ایڈیٹر اسے یہ کہہ کر حقارت سے پھینک دیتا کہ جو روٹی کھلا دی گئی ہے‘ اس کا خرچ مہمان کے کھاتے میں کیسے ڈال دیا گیا؟ پیسہ چوری کا ہے تو میزبان کو پکڑتے۔ بدقسمتی سے میرا تعلق میڈیا سے ہے‘ اس لئے نہ صرف میرا نام سرخیوں میں آیا بلکہ بعض ٹاک شوز میں بھی چٹخارے لے لے کر میری کرپشن کے قصے بیان کئے گئے۔ تازہ رواج یہ ہے کہ جب کسی پر الزام لگتا ہے تو وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے دوسرے آٹھ دس عزت داروں کو لپیٹ میں لے کر ان کے اجلے لباس کو گندا کرتے ہوئے کہتا ہے’’یہ بھی تو ایسے ہی ہیں۔‘‘ کیسی شرافت اور دانشمندی ہے؟ بجائے اس کے کہ اپنا داغ دھویا جائے‘ دوسروں کو داغدار کر لو تاکہ جس کمیونٹی سے بھی تعلق ہو‘ اس کی اجتماعی کردارکشی کرنے میں اپناحصہ بھی ڈال دیا جائے۔ میں تو خود پر لگائے گئے الزامات پڑھ کے حیران ہوں کہ صفائی میں کیا لکھوں؟ اسلام آباد ہوٹل میں ایک رات کے قیام کا بل ظاہر ہے اسی میزبان نے دیا ہو گا جس نے مجھے میرے پیشہ ورانہ فرائض کے سلسلے میں مدعو کیا۔ ورنہ اسلام آباد ہوٹل کی انتظامیہ مجھے 30سال سے زیادہ عرصے کی جانتی ہے کہ نجی دورے پر میں ہمیشہ اپنا بل خود ادا کرتا ہوں جو 7ہزار سے زیادہ ہی رہا ہو گا۔ میرا چھوٹا بھائی اسلام آباد میں اپنی کار سمیت ہر وقت مجھے دستیاب ہے اور عزیزی مشتاق منہاس نے تو اپنے ٹاک شو میں کہہ دیا کہ وہ مجھے ایئرپورٹ سے رسیو کرکے پورا اسلام آباد گھمانے میں خوشی محسوس کریں گے۔ اس طرح کے درجنوں مہربان‘ اللہ کے فضل سے وہاں موجود ہیں۔ مبینہ دعوت دینے والے وزیر کا ذکر میں کر چکا ہوں اور جن چار صحافیوں کے ہمراہ میں نے اسلام آباد ہوٹل میں قیام کیا‘ ظاہر ہے ہم سارے ایک ہی شہر سے تو آئے نہیں تھے اور نہ ہمیں وہاں کوئی ذاتی کام ہو سکتا ہے۔ تین شہروں میں رہنے والے صحافی ایک ہی وقت میں‘ ایک ہی ذاتی کام پر‘ اسلام آباد کیسے آسکتے ہیں؟ کیونکہ ہم سب نہ کسی ایک ادارے سے وابستہ تھے نہ ہمارا کاروبار مشترک ہے۔ جن لوگوں نے میرے ساتھ یہ کرم فرمائی کی‘ کیا وہ خود کسی دعوت پر نہیں جاتے؟ اگر جاتے ہیں تو کیا ٹفن ساتھ لے کر جاتے ہیں؟ اور کیا یہ معزز حضرات جب کانفرنسوں یا سیمینارزمیں شرکت کے لئے جاتے ہیں تو سفر کے اخراجات اپنی جیب سے دیتے ہیں؟ اور اگر نہیں دیتے تو ’’انصاف‘‘ کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی اس کرپشن کو بھی میڈیا پر تشہیر کے لئے جاری کیا کریں اور ان بیوائوں سے تو میں شرمندہ ہوں جن کے معمولی امدادی وظائف کی نہ صرف تشہیر کی گئی بلکہ انہیں معطل بھی کیا گیا۔پاکستان میں توہر پیشے کی روایت بن چلی ہے کہ ’’جو ہمارا ہم پیشہ ہے‘ وہ عزت دار کیسے ہو گیا؟‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں