اس وقت تین بڑی جماعتیں انتخابی مہم چلانے کی پوزیشن میں نہیں۔ انہیں عوام سے رابطے کی مساوی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ دہشت گردوں نے ان پر حملے کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ اے این پی کے متعدد امیدوار دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں اور بنائے جا رہے ہیں۔ اس کے کارکنوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس کے لیڈر مستقل طور پر قاتلانہ حملوں کی زد پر ہیں۔ بشیر احمد بلور کو شہید کیا جا چکا ہے اور دیگر تمام بڑے لیڈروں کو قتل کی دھمکیاں مسلسل دی جا رہی ہیں۔ یہ پارٹی خیبرپختونخوا میں گزشتہ 5سال حکومت کرتی رہی ہے۔ اب بھی صوبے میں یہ وسیع اثرورسوخ رکھتی ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کا ایک امیدوار حیدرآباد میں قتل کیا جا چکا ہے اور اس کے متعدد انتخابی دفاتر بموں کا نشانہ بنائے گئے ہیں۔ اس کے کارکن قتل کئے جا رہے ہیں اور اسے مجبوراً اپنے انتخابی دفاتر بند کرنا پڑے۔ عملاً اس جماعت کو بھی انتخابی مہم چلانے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت دہشت گردوں کے نشانے پر ہے جس کی وجہ سے اس کے مرکزی لیڈر بلاول بھٹو انتخابی مہم میں شریک ہی نہیں ہو پائے جبکہ دیگر بڑے لیڈر عوامی اجتماعات میں جانے سے گریزاں ہیں۔ ملک کے کسی بھی حصے میں یہ پارٹی کوئی بڑا جلسہ نہیں کر پا رہی۔ پنجاب میں امیدوار اپنے طور پر محدود سی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ ملک گیر یا پورے صوبے میں اس کی مربوط انتخابی سرگرمیاں دکھائی نہیں دے رہیں جبکہ ان تینوں جماعتوں کے مخالفین کو کھلی آزادی حاصل ہے ۔ ان جماعتوں کے لیڈروں کو دہشت گردوں نے نہ صرف تحفظ کا یقین دلا رکھا ہے بلکہ ان کی حامی جماعتیں ‘ پیپلزپارٹی کے حریفوں کی مدد بھی کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف اس امتیازی صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے بڑے جلسے بھی کر رہی ہیں‘ جلوس نکال رہی ہیں اور ووٹروں کے ساتھ کھلے رابطے کرنے میں بھی وہ آزاد ہیں۔ ایسے ماحول میں منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد عملی طور پر ناممکن ہو چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ یہ امتیازی برتائو کسی بھی طرح منصفانہ انتخابات کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ بلوچستان میں انتخابی اجتماعات پر راکٹ چلائے جا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے تو باضابطہ طور پر انتخابات کے مختصر التوا کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اے این پی ابھی بہادری سے انتخابی میدان میں ڈٹی ہوئی ہے لیکن جس تیزی کے ساتھ اس پر دہشت گردوں کے حملے ہو رہے ہیں‘ اسے بھی آخر کار انتخابات کے التوا کا مطالبہ کرنا پڑے گا۔ صدر زرداری‘ الطاف حسین اور اسفندیار ولی میں انتخابات کے بارے میں مشاورت ہوئی ہے۔ یہ تینوں جماعتیں دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں اور ان سب کو انتخابی مہم چلانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ظاہر ہے ان کی مشاورت اسی موضوع پر ہوئی ہو گی۔ اب یہ امکان بہت بڑھ چکا ہے کہ تینوں مذکورہ جماعتوں کے لئے پولنگ کے دن‘ اپنے تمام ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں تک لانے میں دشواریاں پیش آئیں گی۔ ان میں سے کوئی بھی جماعت اپنے تمام حامیوں کے ووٹ حاصل نہیں کر پائے گی۔ نتیجے میں انہیں سخت نقصان اٹھانا پڑے گا۔ جتنی نشستیں یہ حاصل کر سکتی ہیں‘ ان سے محروم رہیں گی اور لازمی طور پر وہ اس صورتحال کو انتخابی دھاندلی قرار دے کر نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیں گی اور ان کا یہ موقف منطقی بھی ہو گا اور جائز بھی۔ دہشت گردوں کی حمایت یافتہ جماعتیں اس صورتحال پر بے حد خوش ہیں۔ انہیں واضح طور سے نظر آ رہا ہے کہ ان کے حریفوں کے ہاتھ پائوں باندھ کر انہیں بے بس کر دیا گیا ہے اور وہ یکطرفہ ٹریفک میں مخالفین کو پیچھے چھوڑتی ہوئی اقتدار پر قابض ہو جائیں گی۔ تین صوبوں میں انتخابی ماحول انتہائی کشیدہ اور امیدوار خوفزدہ ہیں۔ ان تینوں صوبوں سے یہ آوازیں سنائی دے رہی ہیں‘ کھلا انتخابی مقابلہ صرف پنجاب میں ہو رہا ہے اور وہیں کی دو بڑی جماعتیں پرامن ماحول میں آزادانہ انتخابی مہم چلارہی ہیں۔ ان کے کسی جلسے اور جلوس میں دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہوا جس سے ان کا اعتماد بڑھتا جا رہا ہے اور مخالفین کا یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ دہشت گردوں کے سامنے انہیں بے بس کر کے انتخابی مقابلے میں جبری شکست کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں جو انتخابی نتائج حاصل کئے جائیں گے ان میں صرف پنجاب سے تعلق رکھنے والی دو جماعتیں ہی فائدے میں رہیں گی اور قومی اسمبلی میں حکومت بنانے کا اختیار انہی کو حاصل ہو گا۔ باقی تین صوبوں میں صرف پیپلزپارٹی سندھ سے اچھی تعداد میں نشستیں حاصل کر پائے گی اور لگتا ہے کہ اس مرتبہ اسے مخلوط حکومت بنانے کا موقع بھی نہیں دیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ انتخابی صورتحال میں 11 مئی کو زبردستی الیکشن کرانے پر اصرار کیا گیا تو یہ دہشت گردوں کی کامیابی ہو گی۔ ان کی مخالف سیاسی طاقتیں کمزور ہوں گی اور ان کی حمایت کرنے والے مضبوط ہوں گے جس کے نتیجے میں پاکستانی معاشرے کے پالیسی ساز اداروں میں بھی انتہاپسندی کے اثرات بڑھ جائیں گے اور ہم جو پہلے ہی دنیا سے بہت پیچھے جا چکے ہیں‘ مزید پستی اور زوال کی طرف رخ کر لیں گے۔ مذہبی انتہاپسندی کے زور پکڑنے سے فرقہ واریت کو مزید فروغ حاصل ہو گا اور ہمارا معاشرہ جو پہلے ہی دہشت گردی کا شکار ہے‘ فرقہ ورانہ تصادموں کی لپیٹ میں بھی آ جائے گا اور انتخابی مہم میں جو دلکش نعرے لگائے جا رہے ہیں‘ ان پر عملدرآمد کرنے کے لئے نہ تو ماحول باقی رہے گا اور نہ ہی عالمی برادری سے ہمیں کسی قسم کی مدد اور تعاون حاصل ہو سکے گا۔ اس کے برعکس ہمارے دشمنوں کو ضرور موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے مذموم عزائم پورے کرنے کے لئے سرگرم ہو جائیں۔ اس خطے کے امور میں امریکہ اور بھارت کا تعاون ایک مدت سے جاری ہے۔ افغانستان میں پاکستان کے لئے جو مواقع پیدا ہو رہے ہیں ہم ان سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں رہ جائیں گے۔ ہمارا داخلی سیاسی بحران اور صوبوں کے درمیان عدم اتفاقی ہمیں یہ موقع ہی نہیں دے گی کہ ہم اندرونی بحران سے اوپر اٹھ کر ارد گرد کے معاملات کو دیکھ سکیں۔ بھارت کے لئے ایک ایسا بے عمل اور داخلی تضادات میں الجھا ہوا پاکستان انتہائی فائدہ مند ثابت ہو گا اور وہ آسانی سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان کے اندر قدم جمانے میں کامیاب ہو سکے گا۔اقتدار کے لئے بے تاب سیاسی جماعتیں اس متوقع بحران سے بے خبر اپنی انتخابی مہم تو چلا رہی ہیں اور اس بات کا مزہ بھی لے رہی ہیں کہ دہشت گردوں نے ان کے حریفوں کو مقابلے سے باہر دھکیل رکھا ہے۔ لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں کہ تین صوبوں کی نمائندہ جماعتوں کو قومی اسمبلی میں غیرموثر کر کے وہ کتنا بڑا خطرہ مول لے رہی ہیں؟ جماعت اسلامی جو عموماً انتخابی اتحاد کرکے اچھی پوزیشن لیتی رہی ہے‘ اس مرتبہ تنہا الیکشن لڑ رہی ہے اور وہ کہیں بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ اس کے امیدوار بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر سکیں۔ اگر پورے ملک میں وہ ایک آدھ نشست حاصل کر بھی گئی تو وہ پاور گیم میں بہرحال کوئی موثر کردار نہیں لے سکے گی۔ لیکن اس کے لیڈرآج بھی انتخابات کے التواکی مخالفت کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے انتہاپسندی کی طرف اس جماعت کے فطری جھکائو اور دہشت گردوں کے ساتھ پرانے رشتے اسے اپنے لئے اچھے مستقبل کی خبر دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اچھی انتخابی پوزیشن نہ ہونے کے باوجود بہرطور 11مئی کو انتخابات پر اصرار کر رہی ہے۔ ظاہر ہے اس کی نظر قومی اسمبلی کی نشستوں پر نہیں‘ اس بحران پر ہے جو یکطرفہ انتخابی نتائج آنے کے بعد پیدا ہو گا اور وہ اس بحران میں اپنی کامیابی کی راہیں پیدا ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔