پاکستان میں علاقائی بنیادوں پر تقسیم ہوتی ہوئی سیاست کے حوالے سے‘ میں کئی دن پہلے تشویش کا اظہار شروع کر چکا تھا۔ آج بھی میں نے30 اپریل کے کالم میں قدرے کھل کر اس تقسیم کو موضوع بحث بنایا اور لکھا کہ ’’تین صوبوں میں انتخابی ماحول انتہائی کشیدہ اور امیدوار خوفزدہ ہیں۔ ان تینوں صوبوں سے یہ آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ کھلا انتخابی مقابلہ صرف پنجاب میں ہو رہا ہے اور وہیں کی دو بڑی جماعتیں‘ پرامن ماحول میں آزادانہ انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ ‘‘ آگے چل کر میں نے تین چھوٹے صوبوں میں پائے جانے والے خدشات کا تذکرہ کرنے کے بعد یہ لکھا ’’اقتدار کے لئے بیتاب سیاسی جماعتیں ‘ متوقع بحران سے بے خبر‘ اپنی انتخابی مہم تو چلا رہی ہیں اور اس بات کا مزہ بھی لے رہی ہیں کہ دہشت گردوں نے ان کے حریفوں کو مقابلے سے باہر دھکیل رکھا ہے۔ لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں کہ تین صوبوں کی نمائندہ جماعتوں کو قومی اسمبلی میں غیرموثر کرنے کی کوشش کر کے وہ کتنا بڑا خطرہ مول لے رہی ہیں؟‘‘ مجھے صاف نظر آ رہا تھا کہ دہشت گردوں کا نشانہ بنی ہوئی تین جماعتوں میں اتفاق ‘الیکشن کے بائیکاٹ کی صورت میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔ آج باخبر صحافی سلیم صافی نے اس امکان کی طرف کھل کر اشارہ کر دیا ہے۔ کل 29 اپریل کو پیپلزپارٹی‘ اے این پی اور ایم کیو ایم نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کر کے ‘ دہشت گردی کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والی تین بڑی جماعتوں کی طرف سے یہ اشارے آنے لگے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت الیکشن کے بائیکاٹ پر مجبور ہو سکتی ہیں۔ میں تو اس خیال ہی سے گھبرا جاتا ہوں کہ اگر ایسا ہو گیا‘ تو کیا ہو گا؟ پاکستان کی انتہائی تکلیف دہ سیاسی تاریخ میں رونما ہونے والے واقعات‘ اکثر اوقات ایک دوسرے کی نقل معلوم ہوتے ہیں۔ 60ء کے عشرے میں جب ایوبی آمریت کے خلاف تحریک نے زور پکڑا اور ایوب خان صدارتی انتخاب پر مجبور ہوئے اور محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار بنایاگیا‘ تو مشرقی پاکستان اور کراچی نے بڑھ چڑھ کر مادرملت کا ساتھ دیا۔ لیکن ریاستی اداروں پر ایوب خان کا قبضہ تھا۔ انہوں نے دھاندلی کے ذریعے مادرملت کے خلاف اپنی کامیابی ڈیکلیئر کر دی۔ اس کے باوجود مشرقی پاکستان میں بنیادی جمہوریت کے اراکین کے اکثریتی ووٹ بھی مادرملت کے حق میں گئے اور اس طرح مشرقی اور مغربی پاکستان میں سیاسی تقسیم واضح ہو گئی۔ کراچی اسی وقت سے ریاستی اداروں کا ہدف بنا ہوا ہے۔ 1969ء میں جب یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کر کے عام انتخابات کا اعلان کیا‘ تو مشرقی پاکستان کے نمائندہ قائد شیخ مجیب الرحمن نے کھل کر یہ شک ظاہر کیا کہ ایوب خان کو ہٹانے کا فیصلہ اس وجہ سے کیا گیا کہ وہ مشرقی پاکستان کے سیاسی مطالبات تسلیم کرنے والے تھے اور جنرل یحییٰ ‘ مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت کو پاکستان میں اقتدار دینے کے لئے تیار نہیں۔ انتخابات کا اعلان ہوا تو انہوں نے یہ فیصلہ کن پالیسی اختیار کر لی کہ وہ اپنی پارلیمانی اکثریت مشرقی پاکستان ہی میں حاصل کریں گے۔ اسی لئے انہوں نے اپنی تمام انتخابی سرگرمیاں مشرقی پاکستان میں مرکوز کر دیں۔ جواب میں بھٹو صاحب نے مغربی پاکستان میں بھرپور سیاسی مہم چلا کے‘ مغربی حصے کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت کی قیادت حاصل کر لی۔ اس کے بعد جو المیہ رونما ہوا‘ اس کی تفصیل ہم سب جانتے ہیں۔ آج کے حالات میں یہ نکتہ انتہائی قابل توجہ ہے کہ پاکستان جغرافیائی طور پر تقسیم ہونے سے بہت پہلے سیاسی تقسیم کا شکار بن چکا تھا۔ جس کے بعد جغرافیائی تقسیم تاریخی جبر کے نتیجے میں‘ حقیقت بنی۔ آج میں پنجاب اور تین چھوٹے صوبوں کے مابین جو سیاسی تقسیم ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اگر یہ ٹھوس شکل اختیار کر گئی‘ جس کی نشانیاں ابھی سے دکھائی دینے لگی ہیں‘ تو پھر اس کے بعد جو کچھ ہو گا وہ خاکم بدھن 1970-71ء کے واقعات کو دہرانے کے مترادف ہو گا۔ جن تین چھوٹے صوبوں میں اس وقت انتخابی ماحول سے شکایت پائی جاتی ہے اور اس خیال کا اظہار کیا جانے لگا ہے کہ انتخابی مہم چلانے کی آزادیاںصرف پنجاب میں میسر ہیں‘ماضی میں اس طرح کے تلخ تجربات کے مشترکہ اثاثے موجود ہیں۔ یہ تینوں صوبے مختلف ادوار اور حالات میں اسلام آباد کے خلاف مزاحمت کی اپنی اپنی تاریخ رکھتے ہیں۔ پختونخوا کی سیاسی جماعتیں‘ صوبائی خودمختاری کے لئے طویل جنگ لڑتی رہی ہیں اور اکثر اوقات وہاں آزاد پختونستان کا نعرہ بھی بلند ہوتا رہا‘جسے غیرموثر کرنے میں‘ اے این پی کی موجودہ قیادت نے موثر کردار ادا کیا۔ آج وہی اے این پی‘ دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور اسے اپنے صوبے میں انتخابی مہم چلانے کی آزادی میسر نہیں۔ وہ ان حالات سے چیف الیکشن کمشنر کو بارہا آگاہ کر چکی ہے لیکن اس کے مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بلوچستان‘ اسلام آباد کے خلاف مزاحمت کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے اور آج بھی وہاں مزاحمت جاری ہے اور جو قوم پرست لیڈر‘ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں‘ ان کی اپنی زندگیاں بھی خطرے میں ہیں۔ بلوچستان کی تاریخ میں کبھی منصفانہ انتخابات ہوئے ہی نہیں اور آج بھی مختلف اقسام کے دہشت گردوں نے چیلنج کر رکھا ہے کہ وہ انتخابی عمل کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔ سندھ کی سیاسی تاریخ بھی ان دونوں صوبوں سے مختلف نہیں۔ اس صوبے کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں کی منتخب صوبائی اسمبلی نے پاکستان کے حق میں پہلی قرارداد منظور کی اور اس قرارداد کے محرک جی ایم سید نے ہی سندھی قوم پرستی کا نعرہ لگایا۔ 1970ء میں شروع ہونے والی یہ تحریک ‘ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد مزاحمتی رنگ اختیار کرنے لگی ۔ جس کے جواب میں اسٹیبلشمنٹ نے سندھ کو سیاسی طور سے تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں سندھ کی سیاست نسلی تقسیم کا شکار ہوئی اور سندھیوں‘ پختونوں اور مہاجروں کے درمیان محاذآرائی پیدا ہوئی جو کئی بار مسلح جھڑپوں کی شکل بھی اختیار کر گئی۔ 2000ء میں جئے سندھ متحدہ محاذ کا دوسرا جنم ہوا۔ شفیع محمد برفت کی قیادت میں اس تنظیم کا آئین تیار ہوا۔ اس میں کم و بیش وہی نکات شامل ہیں‘ جو جئے سندھ تحریک کے بانی جی ایم سید نے تیار کئے تھے لیکن ان میں عسکریت پسندی یا مزاحمت کا اضافہ کر دیا گیا۔ اسی دور میں سندھ لبریشن آرمی نامی ایک غیر معروف تنظیم کا نام سامنے آیا۔ حسب روایت ریاستی ادارے سرگرم ہوئے اور سندھی قوم پرستوں کے لیڈر اور کارکن لاپتہ ہونے لگے اور پراسرار ہلاکتوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ درمیان میں محمد خان جونیجو اور بے نظیربھٹو کی وزارت عظمیٰ کے تین ادوار میں سندھی قوم پرستوں کو غیرموثر کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ مگر جن دو وزرائے اعظم کا نام استعمال کر کے سندھ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی‘ وہ دونوں ہی نہ صرف حقیقی اقتدار سے دور رہے بلکہ انہیں تین مرتبہ توہین آمیز طریقے سے برطرف کر کے نکالا گیا۔ ایک بار محمد خان جونیجو کو اور دومرتبہ بے نظیر بھٹو شہید کو۔ طویل آمریت کے بعد 2008ء کے انتخابات کا اعلان ہوا‘ تو ان کے انعقاد سے پہلے ہی بے نظیربھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ اس پر پورا سندھ جل اٹھا اور ’’پاکستان نہ کھپے‘‘ کے نعرے بلند ہونے لگے۔ یہ آگ بی بی کے سیاسی جانشین آصف زرداری نے بجھائی اور انتہائی نامساعد حالات میں انتخابی مہم کی قیادت کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت کی حیثیت سے آ گئے۔ وہ چھوٹے صوبوں کی مدد سے مخلوط حکومت قائم کرنے میں تو کامیاب رہے لیکن انہیں ایک دن کے لئے بھی بااختیار صدر بننے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس کے باوجود انہوں نے عوامی مطالبات کا احترام کرتے ہوئے اقتدار کاملاً پارلیمنٹ کو منتقل کر دیا اور خود آئینی سربراہ کی کی حیثیت پر قناعت کر گئے۔ (جاری)