"NNC" (space) message & send to 7575

بنتے بھنور‘ بڑھتے سائے

(آخری قسط) صدر زرداری نے قومی مالیاتی وسائل کی تقسیم کا آئینی فارمولا دے کر‘ فیڈریشن کی راہ میں حائل سب سے بڑی مشکل کا حل نکال دیا۔ صوبائی خودمختاریوں کا دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا۔ آئین کو مکمل طور سے جمہوری بنا دیا۔ لیکن بدقسمتی سے انہوں نے بطور وزیراعظم‘ جس شخصیت کا انتخاب کیا تھا‘ اس کے پاس نہ مستقبل کا کوئی ویژن تھا اور نہ ہی ملک و قوم کو درپیش مسائل کا پورا ادراک۔ ان کی ذاتی ساکھ پورے خاندان سمیت روزبروز بگڑتی چلی گئی اور میرے قارئین کو یاد ہو گا کہ میں نے 2010ء کے آخر میں وزیراعظم کے حوالے سے کچھ اشارے شروع کر دیئے تھے۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ ذمہ دار اداروں کی طرف سے وزیراعظم اور ان کے اہل خاندان کی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ خفیہ رپورٹیں ایوان صدر کو موصول ہو رہی ہیں۔ لیکن صدر صاحب ان کا نوٹس نہیں لے رہے۔ جس پر میں نے مطالبہ کیا تھا کہ صدر صاحب ان فائلوں پر توجہ دیں اور اگر خود کوئی فیصلہ نہیں کرنا‘ تو کم ازکم یہ فائلیں وزیراعظم ہائوس کو برائے ملاحظہ ارسال کر دیں۔ میں نہیں جانتا کہ ایسا ہوا یا نہیں؟ لیکن جس طرح صدر آصف زرداری اپنے وزیراعظم پر آخر تک اعتماد کرتے رہے‘ اس سے ظاہر ہو گیا کہ وہ ان کے طرز کارکردگی سے غیرمطمئن نہیں تھے۔ یوسف رضا گیلانی کے دور میں حکومت اور اداروں خصوصاً عدلیہ کے مابین باہمی تعلقات میں جو فرق آیا‘ اس کے پیپلزپارٹی کی حکومت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور آخر کار جب عدالتی احکامات کے تحت گیلانی صاحب کو وزارت عظمیٰ چھوڑنا پڑی اور ان کی جگہ راجہ پرویزاشرف جیسا کارکن وزیراعظم بنا‘ تو چند ہی روز میں پتہ چل گیا کہ جس سوال پر یوسف رضا گیلانی نے ایوان صدر اور عدلیہ کے درمیان طویل کشمکش پیدا کی تھی‘ وہ کتنی آسانی سے حل ہو سکتا تھا۔ مجموعی طور پر پیپلزپارٹی کی حکومت بڑے بڑے کارنامے انجام دینے کے باوجود ایک ناکام حکومت ثابت ہوئی‘ جس کا خمیازہ آج صدر زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ آج تاریخ نے سابقہ حکومتی اتحادیوں کو جو کہ انتخابات کے قریب پیپلزپارٹی سے علیحدہ ہو گئے تھے اور انتخابات میں اپنی اپنی حیثیت سے حصہ لے رہے تھے اور سندھ میں تو ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان مقابلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ حالات نے ایک نئی کروٹ لے لی۔ تحریک طالبان پاکستان نے ان تمام جماعتوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی دھمکی دے دی‘ جو دہشت گرد تنظیموں اور دہشت گردی کے خلاف تھیں اور جنہوں نے سوات آپریشن میں فوج کی بھرپور حمایت کی تھی اور عوام کو اس آپریشن کے حق میں منظم کیا تھا۔ ان میں پیپلزپارٹی‘ اے این پی اور ایم کیو ایم پیش پیش تھے۔ انتخابی مہم کے دوران دہشت گردوں نے انہی تینوں کو ہدف بنانے کا فیصلہ کیا۔ مولانا فضل الرحمن بھی اس مخلوط حکومت کا حصہ تھے لیکن وہ بہت پہلے الگ ہو گئے تھے۔ اس کے باوجود دہشت گرد تنظیموں نے انہیں معاف نہیں کیا اور وہ خود بھی ایک بار دہشت گردوں کے حملے کی زد میں آ گئے تھے۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ زندہ سلامت بچ نکلے۔ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں بھی مہم چلا چکے ہیں ۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ انتہاپسندوں نے انہیں معاف کر دیا ہے۔ یہاں میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ دہشت گردوں کی سیاسی لغت میں ایسی کوئی بھی سیاسی پارٹی قابل معافی نہیں‘ جو جمہوریت اور انتخابات پر یقین رکھتی ہو۔ کچھ کو نشانہ بنانا اور استثنیٰ دینا صرف حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جس کا واضح مقصد صرف ایک ہے کہ حریف کو تقسیم کر کے‘ اس کے ایک ایک حصے پر نشانہ لگایا جائے اور آگے بڑھنے کے لئے راستے پیدا کئے جائیں۔ وہ اپنی بات چھپاتے بھی نہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ طالبان کی اس پالیسی کے نتیجے میں‘ جن جماعتوں کو اپنی انتخابی مہم چلانے میں سہولتیں مل رہی ہیں‘ یعنی ان کے جلسے اور جلوس دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ ہیں‘ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جمہوری نظام میں حصے دار ہونے کی وجہ سے‘ انہیں خود بھی ایک نہ ایک دن دہشت گردوں کا نشانہ بننا ہے۔ آج کے دہشت گردوں کی جڑیں پرانی فرقہ پرست دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ جا ملتی ہیں اور یہ شریف برادران کے خلاف بھی دہشت گردی کے منصوبوں میں ناکام ہو چکی ہیں اور انہوں نے سابق امیرجماعت اسلامی قاضی حسین احمد کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ عمران خان اپنے مفاہمت پسندانہ بیانات کی وجہ سے اعلانیہ ہدف نہیں بنے لیکن انتخابی عمل میں حصہ لینے کی وجہ سے ایک نہ ایک دن انہیں بھی دوسروں کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے گا۔ دہشت گردوں کے تازہ کھیل کا نشانہ پاکستانی ریاست اور اس کے حکمران طبقے ہیں۔ لیکن جو سیاسی نتائج سامنے آ رہے ہیں‘ وہ دہشت گردوں سے زیادہ پاکستان کے روایتی دشمنوں کے حق میں ہیں۔ بھارت نے1970-71ء میں پاکستان میں سیاسی تقسیم کا جس طرح فائدہ اٹھایا‘ وہ میری عمر کے لوگوں کے لئے نئی بات نہیں۔ انہیں اس سانحے کا ایک واقعہ یاد ہے اور آج جب ہم وفاق میں شامل تین چھوٹے صوبوں اور پنجاب کے درمیان سیاسی تقسیم کے نمودار ہونے کے ابتدائی نمونے دیکھ رہے ہیں‘ تو ہمیں وہ مماثلت تلاش کرنے میں ذرا بھی مشکل نہیں پڑتی‘ جو 1970-71ء اور آج کے حالات میں پیدا ہو سکتی ہے۔مشرقی پاکستان کی سیاسی جدوجہد میں بھارت کی دلچسپی ایک حقیقت تھی۔ موجودہ صورتحال میںجن تین صوبوں کی نمائندہ سیاسی جماعتیں ‘ پنجاب کی سیاسی قوتوں سے شکایت کرتی نظر آ رہی ہیں‘ اگر آگے چل کر ایک مشترکہ ایجنڈے پر جمع ہو گئیں اور سیاسی حقوق کی جدوجہد کا اعلان کر دیا‘ تو وہ ماضی کے سایوں سے محفوظ نہیں رہ سکیں گی اور ماضی یہ ہے کہ پختونستان کی تحریک میں بھارت کی دلچسپی کبھی مخفی نہیں رہی۔ یہ رشتے بہت پرانے ہیں اور نئی صورتحال میں کسی بھی وقت پرانے زخموں کی طرح ہرے ہو سکتے ہیں اور شاید کسی سطح پر ہو بھی رہے ہوں۔ بلوچستان کی تحریک مزاحمت میں بھارتی امداد کا الزام پاکستانی حکومت بارہا دہرا چکی ہے۔ شرم الشیخ میں پاکستان کے وزیراعظم نے بھارتی وزیراعظم کو اس حوالے سے دستاویزی ثبوت بھی پیش کئے تھے۔ جس پر بھارتی پارلیمنٹ میںوزیراعظم من موہن سنگھ کی خوب درگت بنائی گئی۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ بلوچستان میں باغیوں کو بھارت اور امریکہ کی درپردہ مدد حاصل ہے۔ بلوچستان کی کوئی بھی سیاسی یا مزاحمتی تحریک ان مداخلتوں کے اثرات سے آزاد نہیں رہ سکتی۔ سندھو دیش کی تحریک صوبہ سندھ میں اتارچڑھائو کا شکار ہوتی رہی ہے۔ لیکن اس میں بھارت کی دلچسپی کبھی کم نہیں ہوئی۔ عالمی برادری میں سندھی تہذیب اور قوم کے معاملات اور شناخت کے سوال پر بھارتی افراد اور ادارے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں۔ امریکہ میں ایک سالانہ سندھی کانفرنس باقاعدگی سے ہوتی ہے اور سندھو دیش کے حقوق کی بات کرنے والے بعض عناصر بھارت کے ساتھ رابطے میں بھی رہتے ہیں۔ گویا ان تینوں صوبوں میں ہمارے روایتی دشمنوں کے کسی نہ کسی انداز میں اور کسی نہ کسی سطح پر رابطے موجود ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو بھی کلی یا جزوی طور پر بھارت کی مدد حاصل ہے۔ یہ اتفاقیہ امر نہیں کہ دہشت گردی کا راستہ اختیار کرنے والی کئی مجاہد تنظیمیں جہاد کشمیر کے ہمیشہ حق میں رہی ہیں۔ لیکن اب پاکستان کی جماعت الدعوۃ کے سوا‘ کوئی تنظیم جہاد کشمیر سے دلچسپی کااظہار نہیں کرتی۔ خصوصاً تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے مجھے جہاد کشمیر میں حصہ لینے کی نہ کوئی خبر پڑھنے کا موقع ملا اور نہ ہی کوئی بیان میری نظر سے گزرا۔ اگر ایسا ہے بھی تو پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے تمام عناصر شک و شبہے سے بالاتر قرار نہیں دیئے جا سکتے۔ دہشت گردی کے پیچھے بھارتی سازشوں کو تلاش نہ کرنا‘ سادگی اور بے خبری کی علامت ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس ملک کی حکومت ہر ہفتے عشرے میں پاکستان پر بھارت کے اندر دہشت گردی کا الزام لگاتی ہو‘ اس نے جوابی طور پر پاکستان کے اندر کچھ نہیں کیا ہو گا؟ اب ذرا اس ممکنہ سیاسی تقسیم کا تصور کر کے دیکھئے‘ جو اگر حقیقت کا روپ دھار گئی‘ تو ہم کیسے نتائج کا شکار ہو سکتے ہیں؟ میں تو یہ سوچ کر گھبرا جاتا ہوں۔ مجھے تو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ میں انتباہ کرنے کے لئے کس کو مخاطب کروں؟ موجودہ انتظامیہ میں دو حضرات پر ہی نظر جاتی ہے‘ نجم سیٹھی اور عارف نظامی۔ یہ دونوں عالمی اور علاقائی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ مناسب ہو گا کہ پالیسی سازی میں‘ ان سے مشاورت نہیں‘ رہنمائی لینے کی کوشش کی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں