جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یوم شہدا پر جو تقریر کی اس میں ’’مستور انتباہ‘‘ یابرطانوی روزنامے ’’ڈیلی ٹیلیگراف‘‘ کے الفاظ میں \"Veiled Warning\" کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جنرل کیانی کے الفاظ ہیں ’’میری نظر میں جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی کا اعصاب شکن کھیل صرف سزا اور جزا کے نظام ہی سے نہیں بلکہ عوام کی آگہی اور بھرپور شمولیت ہی سے ختم ہو سکتا ہے۔‘‘ ٹیلیگراف نے اسے ملک کے طاقتور ادارے کی ناپسندیدگی قرار دیا ہے‘ جو کہ سابق چیف آف آرمی سٹاف اور صدر کے ساتھ‘ روا رکھے جانے والے سلوک کے نتیجے میں پائی جا رہی ہے۔ پاکستان کے بعض مبصروں نے اس کھلی حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش ضرور کی لیکن اصل پیغام کو چھپانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ جنرل کیانی نے اس تقریر میں جو کچھ کہااس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہو گا کہ فوج کی طرف سے یہ واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ ’’حالات ناقابل اصلاح حد تک خراب ہوئے‘ تو فوج قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرے گی۔‘‘ اس کے ساتھ ہی جو دوسری بات اس تقریر سے اخذ کی جا سکتی ہے وہ کچھ اس طرح کی ہے کہ ’’ فوج کسی بھی دھڑے کے سیاستدانوں کی لوٹ کھسوٹ کے لئے آلہ کار نہیں بنے گی۔ اگر ایسا کوئی قدم اٹھایا گیا‘ تو یہ ایک ایسی فوج کا اقدام ہو گا جس نے خون دے کر دوستوں اور دشمنوں کی پہچان کی ہے۔‘‘ جنرل کیانی کے یہ الفاظ بھی توجہ طلب ہیں کہ ’’پاکستان سب کے لئے ایک عظیم نعمت ہے۔ جس کے سائے تلے ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے زندہ ہیں۔ اس آزادی کے لئے ہم نے بہت بڑی قیمت ادا کی اور اسے قائم رکھنے کے لئے ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ ان قربانیوں کے باوجود ابھی ہم اس منزل سے دور ہیں جس کا خواب قائد اعظم اور علامہ اقبال کی قیادت میں ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا۔ شاید ہم ابھی تک درست راستے کا تعین نہیں کر پائے۔ یا اگر کر پائے‘ تو اس پر ثابت قدم نہیں رہ سکے۔ ‘‘ آگے چل کر کہا گیا ’’حکومت کا صحیح معنوں میں عوام کے نمائندوں کی امانت بن جانا ہی وہ واحد راستہ ہے‘ جس میں ہمارے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہو گا جب عوامی نمائندگی کا نظام پاکستان اور اس کے عوام کے وسیع تر مفادات کو ‘ ذاتی مفاد پر ترجیح دے گا۔ورنہ آمریت ہو یا جمہوریت‘ حکمرانی صرف شخصی مفادات کے تحفظ اور قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ ہی بنتی رہے گی۔‘‘ ان الفاظ میں آمریت اور جمہوریت کو متبادلات کی صورت میں دیکھا گیا ہے اور دونوں کے قابل عمل ہونے کی شرط یہ رکھی گئی ہے کہ نظام کوئی بھی ہو‘ اس میں حکمرانی شخصی مفادات کے تحفظ اور قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ بنی‘ تو وہ نظام نہیں چل سکتا۔یہ بات مسلح افواج کی طرف سے کہی گئی ہے۔ پاکستانی معاشرہ جس بری طرح سے کرپشن کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے‘ اس میں فوری تبدیلی کے امکانات نظر نہیں آتے اور جو سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں‘ ان میں سے کوئی بھی فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔ مخلوط حکومتوں میں بنیادی خرابی یہ ہوتی ہے کہ مخلوط حکومت کے چھوٹے حصے دار‘ بلیک میلنگ سے باز نہیں آ سکتے اور بلیک میلنگ کی پوزیشن میں آ کر ہمارے سیاسی کلچر میں ناجائز مفادات حاصل کرنا پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ بھارت جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے اور جس میں ترقی اور دولت کی پیداوار کی رفتار ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ ہے‘ وہاں بھی مخلوط حکومت نے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ آج بھارتی جمہوریت کو دنیا کی بڑی جمہوریتوں میں گنا جا سکتا ہے۔ اس کی سالانہ شرح پیداوار کا اضافہ 8فیصد سے گر کے 5فیصد پر آ چکا ہے۔ پاکستان کرپشن کی وجہ سے بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ بدنامی اور تباہی کا شکار ہوا ہے۔ افغان جنگ نے ہمارے ملک کے تمام اداروں میںکرپشن کو مکڑی کے جالے کی طرح پھیلا دیا ہے۔ اس کے باوجود میں اسے خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ پاکستانی معاشرہ اور خود فوج کی قیادت ابھی تک جمہوریت سے مایوس نہیں ہوئے۔ آج بھی عوام کی بالادستی پر عوام اور فوج دونوں ایک سوچ رکھتے ہیں۔ سوچ کی یہی یکسانیت خطرناک نتائج بھی پیدا کر سکتی ہے۔ اگر خدانخواستہ کل فوج کوئی بڑا قدم اٹھاتی ہے اور اس کا بنیادی مقصد کرپشن کے خاتمے کو قرار دیتی ہے‘ تو اسے عوام کی مکمل حمایت حاصل ہو جانا یقینی ہے۔ یوں بھی فوج نے جب بھی بڑا قدم اٹھایا‘ اس نے عوام کی خواہشات کے مطابق اعلانات کئے اور ابتدائی اقدامات میں اچھی امیدیں بھی پیدا کیں۔ لیکن آگے چل کر حالات پہلے سے بھی خراب ہوتے گئے اور جب فوج اقتدار سے باہر گئی‘ تو ملک کی حالت پہلے سے زیادہ بگڑی ہوئی ہوتی۔ اگر ہماری سیاسی قیادت میں سوجھ بوجھ ہوتی‘ تو وہ اپنی اصلاح کر کے فوجی آمریتوں سے محفوظ رہ سکتی تھی۔ لیکن افسوس کہ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ آج کی سیاسی قیادت بھی اپنے پیش رو سیاستدانوں سے مختلف نہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بے احتیاطی اور بدنامی میں مبتلا ہے۔ سیاسی قیادت کو بالواسطہ مخاطب کرتے ہوئے جنرل کیانی نے کہا ’’انتخابات کا انعقاد بذات خود مسائل کا حتمی حل نہیںبلکہ مسائل کے حل کی طرف ایک اہم قدم ضرور ہے۔ مسائل کے دیرپا حل کے لئے قومی سوچ اور امنگوں کا ادراک بھی ضروری ہے۔ انتخابات اس مقصد کے لئے ایک بنیاد فراہم کریں گے۔ لیکن اس بنیاد پر تعمیر کے لئے ہمیں کئی سوالات کے جواب ڈھونڈنا ہوں گا۔ ان میں ایک اہم سوال دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔‘‘ جنرل صاحب نے آنے والی حکومت سے جن دو توقعات کا اظہار کیا ہے‘ ان میں سے ایک قومی سوچ اور امنگوں کا ادراک ہے‘ جو ہمارے سیاستدانوں نے کبھی نہیں کیا اور دوسری دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔ اس جنگ کا واحد قابل قبول نتیجہ صرف ایک بتایا گیا ہے کہ دہشت گرد ‘ قومی دھارے میں واپس آنے کے لئے ’’غیرمشروط طور پر پاکستان کی ریاست ‘ اس کے آئین اور قانون کی مکمل اطاعت کریں۔‘‘ یہاں آ کر کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا۔ لیکن موجودہ انتخابی صورتحال کو دیکھتے ہوئے‘ آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کونسی جماعتوں کے لئے انتخابات میں کامیابی کے امکانات پیدا کئے جا رہے ہیں؟ جو جماعتیں ‘ دہشت گردی کے بارے میں فوج اور اس کے سربراہ کی سوچ کے مطابق پالیسیاں رکھتی ہیں‘ ان کی انتخابی سرگرمیاں حد درجہ محدود کر دی گئی ہیں اور جو جماعتیں دہشت گردوں سے کچھ لواور کچھ دو کی بنیاد پر مذاکرات کی خواہش مند ہیں‘ انہیں انتخابی مہم چلانے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے اگر مفاہمت پسند جماعتیں اکثریت حاصل کر لیتی ہیں‘ تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ فوج اور وہ‘ دہشت گردی کے بارے میں ایک پالیسی پر نہیں چل سکیں گے۔ ایسی صورت میں عوام کس کا ساتھ دیں گے؟ یہ اندازہ کرنے کے لئے زیادہ مہارت اور ذہانت کی ضرورت نہیں اور جس ’’مستور وارننگ‘‘ کا ’’ٹیلیگراف‘‘ نے سراغ لگایا ہے‘ اسے بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ آج بھی جنرل پرویزمشرف کے خلاف ‘ جو مخالفانہ مہم چلائی جا رہی ہے اور جن وکلا نے ہنگامہ آرائی کر کے‘ شخصی توہین کا ارتکاب کیا ہے‘ وہ انہی سیاسی جماعتوں کے ہمدرد ہیں‘ جن کے اقتدار میں آنے کی امید کی جا رہی ہے۔انتہاپسندی اور تشدد کے جو رحجانات ضیاالحق کے دور میں پیدا کئے گئے تھے‘ اب وہ بری طرح سے پھیل چکے ہیں۔ جیل کے اندر سربجیت سنگھ کا قتل انتہاپسندی کا ہی نتیجہ ہے۔ یہ بات کوئی نہیں مانے گا کہ سزائے موت کے کسی قیدی کو دوسرے قیدیوں نے جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا ہو۔ کال کوٹھڑی میں پڑے ہوئے شخص کے ساتھ ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ یقینا جیل کا عملہ اور قیدی اس میں ملوث رہے ہوں گے۔ مگر انتہاپسندی کی وجہ سے ہونے والا یہ قتل‘ پاکستان کے لئے کیا مسائل پیدا کرے گا؟ اس کا آنے والے چند روز میں اندازہ ہو جائے گا۔ ایک بات تو واضح ہے کہ بھارتی جیلوں میں پڑے ہوئے پاکستانیوں کے ساتھ جو کچھ ہو سکتا ہے‘ وہ ہمارے لئے زیادہ تکلیف دہ ہو گا۔اس سے تو بہتر تھا کہ اسے قانون کے تحت پہلے ہی سزائے موت دے دی جاتی۔ یہ ہے وہ ذہنیت جو انتخابات کے بعد ہمارے لئے مشکلات پیدا کرے گی۔ دہشت گردوں اور پاکستان کی سلامتی کے ذمہ داروں کے مابین جنگ ایک عرصے سے جاری ہے۔ اس میں تیزی آنا اب لازم ہے۔ اس جنگ سے اور کتنی جنگیں جنم لیں گی؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بات مجھے بڑے دکھ سے لکھنا پڑے گی کہ سکھوں کے ساتھ تین عشروں کی کوششوں کے نتیجے میں خیرسگالی کے جو تعلقات پیدا ہوئے تھے وہ دوبارہ کشیدہ ہو جائیں گے۔