"NNC" (space) message & send to 7575

کیا سربجیت‘ گنگا بن سکے گا؟

کیا سربجیت‘ گنگا بننے جا رہا ہے؟ گنگا اس فوکر جہاز کا نام تھا‘ جسے جنوری 1971ء میں اغوا کر کے لاہور میں اتارا گیا تھا۔ اغوا کرنے والے دو کشمیری نوجوان ہاشم قریشی اور اشرف بٹ تھے۔ اس جہاز کو مسافروں سے خالی کرنے کے بعد یکم فروری 1971ء کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ گنگا جب لاہور کے ایئرپورٹ پر کھڑا تھا‘ اسی دوران بھٹو صاحب لاہور میں اترے‘ غالباً وہ ڈھاکہ سے مذاکرات کر کے واپس آئے تھے۔ ایک ہجوم ان کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ بھارتی طیارے کی ہائی جیکنگ سے لوگوں میں بڑا جوش و خروش تھا۔ ان دنوں ہوائی اڈوں پر سکیورٹی کے انتظامات ایسے نہیں تھے جو آج کل ہو چکے ہیں۔ محض تین فٹ کی جالی کی ایک رکاوٹ جہازوں کی نقل و حرکت والے حصے کے گرد کھڑی تھی جس کے پیچھے کھڑے ہو کر لوگ مسافروں کو رخصت کیا کرتے تھے اور جن کا دل چاہتا‘ وہ یہ جنگلہ پھلانگ کے جہاز تک بھی چلے جاتے۔ بھٹو صاحب کا استقبال کرنے والا ہجوم یہ جنگلے پھلانگ کر ان کے جہاز تک چلا گیا اور وہ بھٹو صاحب کو گھیر کے گنگا کی طرف لے گیا جو جہازوں کے ٹیکسی کرنے کی جگہ سے ذرا دور کھڑا کیا گیا تھا۔ میں یہ منظر اوپر بالکونی میں کھڑا دیکھ رہا تھا لیکن کچھ رپورٹر بھٹو صاحب کے ساتھ بھی ہو لیے تھے۔ وہاں بھٹو صاحب نے ہائی جیکروں سے سلام دعا کی اور واپس آ گئے۔ اس کے بعد کئی کہانیاں چلائی گئیں۔ ایک یہ کہ جہاز کو بھٹو صاحب کے کہنے پر ہائی جیکروں نے جلایا۔ دوسری یہ کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی نے جلا دیا اور تیسری یہ کہ ہائی جیکروں کو جہاز جلانے کا سامان میزبانوں کی طرف سے مہیا کیا گیا اور آخری یہ کہ ہائی جیکر‘ بھارت کی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹ تھے۔ اسی الزام میں ان پر پاکستان میں مقدمہ چلا کر سزا دی گئی۔ لیکن یہ دونوں آج تک نہیں مانے کہ انہوں نے کسی کے ایجنٹ کی حیثیت سے یہ کام کیا۔ وہ آج بھی خود کو کشمیر کی جنگ آزادی کے مجاہد قرار دیتے ہیں۔ ان کہانیوں میں کوئی بھی سچی ہو سکتی ہے اور نہیں بھی۔ جو بات ناقابل تردید ہے‘ وہ ہے اس کے سیاسی اور سٹریٹیجک نتائج۔ بھارت نے اس جہاز کے جلتے ہی مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان مسافر جہازوں کی آمدورفت بند کر دی جس کی وجہ سے پاکستانی طیاروں کو لمبا روٹ اختیار کر کے ڈھاکہ جانا پڑتا۔ ان دنوں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے لیے اسلحہ اور افرادی قوت بھیجی جا رہی تھی۔ کہا گیا کہ بھارت نے یہ سلسلہ روکنے کے لیے جہازوں کی پروازیں بند کی تھیں۔ جہاز کے اغوا کا اصل فائدہ بھارت نے اٹھایا اور پاکستانی حکومت مشرقی پاکستان میں مناسب فوجی طاقت جمع کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی لیکن یحییٰ خان اور اس کے مشیروں نے پھر بھی فوجی آپریشن کر ڈالا اور نتیجہ وہی نکلا جو یقینی تھا۔ سربجیت کی ہلاکت پر بھارتی میڈیا اور سیاسی قیادت نے جو ردعمل ظاہر کیا وہ بالکل اسی طرح کا ہے جیسے گنگا کے اغوا پر شروع ہوا تھا اور پروازوں کی بندش پر ختم ہوا اور اس اغوا کی آڑ میں بھارت کے اندر جنگی فضا پیدا کر دی گئی تھی۔ جو لوگ ان دنوں بھارتی نیوز چینل دیکھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ بھارت میں جنگی جنون پیدا کرنے کا عمل زوروشور سے جاری ہے۔ وہ جانے پہچانے تجزیہ کار جو بھارت کی وزارت خارجہ اور خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی زبان بولتے ہیں‘ سب کے سب شعلہ فشانی کر رہے ہیں۔ کوئی پاکستان کے خلاف آزاد کشمیر میں فوجی کارروائی کا مشورہ دیتا ہے۔ کوئی رحیم یار خان کی طرف پیش قدمی کی تجویز پیش کرتا ہے اور کوئی یہ کہتا ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردوں کی کھلی امداد شروع کر دینی چاہیے۔ نریندر مودی نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے خلاف سفارتی مہم چلا کے عالمی برادری کو اس کے بائیکاٹ پر آمادہ کیا جائے اور وہاں پر قائم دہشت گردوں کے مراکز پر خود حملے کیے جائیں۔ ایک دانشور نے یہ تھیوری بھی داغی کہ پاکستان کے ایٹم بموں سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ اول تو وہ ایٹمی اسلحہ استعمال کرنے کی حماقت نہیں کرے گا اور اگر کر بیٹھا تو جوابی حملے میں بھارت‘ پورے پاکستان کو خاکم بدہن نیست و نابود کر سکتا ہے۔ یہ الزام کھلم کھلا عائد کیا جا رہا ہے کہ سربجیت سنگھ کو آئی ایس آئی نے مارا۔ سربجیت سنگھ کی بہن نے الزام لگایا کہ انصار برنی نے اس سے پہلے 25 کروڑ اور پھر 2 کروڑ روپے مانگے تھے جس کے عوض وہ سربجیت سنگھ کو بھارت بھجوا سکتے تھے۔ بھارت کی طرف سے ان الزام تراشیوں کی روشنی میں اگر سازش کا نظریہ مان لیا جائے تو سربجیت سنگھ کی ہلاکت سے اصل فائدہ بھارت اٹھا رہا ہے۔ پاکستان اس وقت انتخابی عمل سے گزر رہا ہے۔ پورے ملک میں عوام مستقبل کی منتخب حکومت بنانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ دوسری طرف دہشت گرد انتخابی عمل کو ناکام بنانے کے لیے پُرتشدد کارروائیاں کر رہے ہیں اور انہوں نے تین ایسی جماعتوں کو ہدف بنا رکھا ہے جنہوں نے سوات آپریشن میں کھل کر فوج کی مدد اور حوصلہ افزائی کی تھی۔ اس میں کسی کو بھی شک نہیں کہ پاکستان میں عدم استحکام کے لیے بھارتی سازشیں تیز ہو چکی ہیں۔ جو لوگ جیل کے ماحول اور انتظامی بندوبست سے واقف ہیں اور ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو خود جیل کے سپرنٹنڈنٹ یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ رہ چکے ہیں وہ یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں کہ سربجیت سنگھ کے قتل کا جو قصہ بیان کیا گیا ہے وہ ممکن ہو سکتا ہے۔ ایک ہائی پروفائل قیدی جو دشمن ملک کا تربیت یافتہ ایجنٹ ہو اور سزائے موت پانے والے قیدیوں کے سیل میں ہو اسے تین چار دوسرے قیدیوں کے قریب آنے کا موقع مل سکے یا دوسرے قیدی اس پر حملہ آور ہو سکیں اور ان کے درمیان اتنی لڑائی بھی ہو جائے کہ ایک چوٹوں کی تاب نہ لا کر بے ہوشی میں چلا جائے۔ بے شک پہلا شبہ خفیہ ایجنسی پر ہوتا ہے لیکن پاکستان میں جو حالات پائے جاتے ہیں ان میں دہشت گرد تنظیموں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے ملک میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک بہت موثر اور مضبوط ہے۔ وہ پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹر میں داخل ہو کر فوجی افسروں کو یرغمالی بنا چکے ہیں اور پھر مذاکرات کر کے صحیح سلامت نکل جانے میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ کراچی کا مہران نیول بیس‘ ہمارے حساس ترین اڈوں میں سے ہے۔ اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں ایٹمی میزائل بھی موجود تھے۔ وہاں دہشت گردوں نے کامیاب حملہ کر کے نگرانی کرنے والے جدید ترین طیارے جلا ڈالے تھے۔ کامرہ ایئربیس انتہائی محفوظ گنا جاتا تھا۔ یہ بات وثوق سے کہی جاتی ہے کہ وہاں پر دہشت گردوں کے مددگار پہلے سے موجود تھے جن کی مدد سے دہشت گرد اندر آنے میں کامیاب ہوئے۔ اتنے محفوظ اور حساس مراکز میں گھس کر کامیاب کارروائیاں کرنے والی تنظیموں کے لیے جیل میں ایک قیدی کو ہلاک کرنا کیا مشکل ہے؟ یہ تنظیمیں فوجی اڈوں کے اندر اپنے ایجنٹ پیدا کر سکتی ہیں۔ ان کے لیے جیل میں کسی کو استعمال کر لینا کیا مشکل ہے؟ موجودہ حالات میں کسی ہائی پروفائل بھارتی قیدی کی ہلاکت کا فائدہ کون اٹھا سکتا ہے؟ کم از کم پاکستان ایسی حماقت نہیں کر سکتا جبکہ بھارت کی پروپیگنڈا مشینری اور انتہاپسند لابی اس واقعہ سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ پاکستان پر بھارت کی طرف سے لگائے جانے والے روایتی الزامات کو شدت سے دہرایا جا رہا ہے۔ پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کی مہم شدومد سے جاری ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے کئی گروہوں کا تعلق بھارت کی خفیہ ایجنسی کے ساتھ ہونا واضح ہے۔ حکومت پاکستان نے بلوچستان کے حالات میں بھارتی مداخلت کے ثبوت بھی وزیر اعظم منموہن سنگھ کو پیش کر دیئے تھے۔ فاٹا میں کرزئی اور بھارت دونوں کے خفیہ رابطے موجود ہیں۔ سربجیت سنگھ کی ہلاکت کے واقعہ پر جیل حکام اور مبینہ طور پر حملہ کرنے والے قیدیوں سے اعلیٰ سطح کی تحقیقات کرنا چاہیے تاکہ سچائی سامنے آ سکے۔ بھارت سربجیت سنگھ کو گنگا بنانے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ کیا وہ اسے گنگا بنا سکے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں