پاکستان کے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ ’’پاکستان کو ووٹ دیں۔‘‘عام آدمی یقینا اس مشورے پر عمل کرنے سے پہلے یہ سوچتاہو گا کہ پاکستان کو ووٹ کیسے دوں؟ بیلٹ پیپر پر امیدواروں کے نام اور نشانات ہوں گے اور ان امیدواروں میں بیشتر مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ ہولڈر ہیں۔ کسی پارٹی کا نام پاکستان نہیں۔ نہ ہی کسی امیدوار یا اس کی پارٹی کو پاکستان سمجھا جا سکتا ہے۔ پہلے الیکشن کمیشن بیلٹ پیپرز میں ایک خانہ خالی رکھنا چاہتا تھا لیکن میڈیا نے اس کا خانہ خراب کر دیا۔ یہ تجویز ختم کر دی گئی، ورنہ وہ خالی خانہ دستیاب ہوتا تو اس پر مہر لگا کر سمجھا جا سکتا تھا کہ میں نے پاکستان کو ووٹ دے دیا۔ کیونکہ پاکستان کو جو لوگ اب تک چلاتے آ رہے ہیں‘ قائد اعظمؒ اور لیاقت علی خان کے سوا‘ ان سب کا خانہ خالی تھا۔ کسی کے سامنے پاکستان کی تعمیرو ترقی کے لئے کوئی نقشہ یا منصوبہ موجود نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہوا۔ حد یہ ہے کہ باربار آئین بنائے اور توڑے گئے۔ موجودہ آئین کو بھی ازسرنو معرض وجود میں آئے ہوئے صرف 3سال کا عرصہ ہوا ہے۔ نئے انتخابات ہو رہے ہیں۔ کچھ پتہ نہیں ان کے بعد کون آئے گا؟ کوئی سیاسی پارٹی یا اسلام اور نظریہ پاکستان کے محافظین؟ اگر کوئی سیاسی پارٹی آئی تو وہ آئین کو جوں کا توں قبول کرے گی یا اپنی مرضی کی تبدیلیاں لائے گی، کچھ پتہ نہیں۔ اگر اسلام اور نظریہ پاکستان والے آ گئے تو انہیں آئین توڑنا ہی پڑتا ہے۔ وہ چیز جسے ہم اتفاق رائے سے پاکستان کہہ سکتے ہیں‘ آئین ہوتا ہے۔جب اس کا ہی پتہ نہیں تو پاکستان کا کیا پتہ؟ آئین سے زیادہ دیرپا تو یہاں کی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ اصولی طور پر ہم صرف ا ن پارٹیوں کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ ہمیں کہا جاتا ہے پاکستان کو ووٹ دیں۔ یہ بات ماننے کا واحد طریقہ ایک ہے کہ ہم ایک دوسرے کو پاکستان کا دشمن کہنے والی پارٹیوں میں سے کسی ایک کو ووٹ دیں۔ ایسی صورت میں ہم جس پارٹی کو بھی ووٹ دیں گے وہ دوسری پارٹیوں کے خیال کے مطابق پاکستان دشمن ہو گی۔ ہم پاکستان کو ووٹ کیسے دے سکتے ہیں؟ اور پھر یہ بھی ہے کہ ہر ووٹر کے حلقے میں مختلف امیدوار کھڑے ہوتے ہیں۔ کچھ آزاد۔ کچھ پارٹی ٹکٹ والے۔ پاکستان کو ووٹ دینے کے لئے ہمیں انہی میں سے ایک امیدوار کو چننا ہو گا۔ اسمبلیوں کی رکنیت رکھنے والے امیدواروں میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو کرپشن سے پاک رہ سکا ہو۔جس نے کچھ بھی نہیں کیا اس نے ہاسٹل‘ بجلی یا کنٹین کے بل تو ضرور مارے ہوں گے۔ اسمبلی میں 10منٹ بیٹھ کر دن بھر کا معاوضہ تو وصول کیا ہی ہو گا۔ کرپشن سے کسی کا دامن صاف ہونا بہت ہی مشکل ہے۔ اگر تجربہ کار امیدوار کو ووٹ دیں تو وہ کرپشن کے حق میں جاتا ہے۔ تو کیا ہم پاکستان کا ووٹ کسی کرپٹ امیدوار کو دیں؟ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم کیسا پاکستان چاہتے ہوں گے؟ ہر الیکشن میں بہت سے نئے امیدوار بھی آتے ہیں۔ انہیں تجربہ نہیں ہوتا۔ تو کیا ہم ایک بار پھر پاکستان کو تجربہ گاہ بنائیں گے؟ 1947ء میں ملک نیا تھا۔ ہم اسے تجربہ گاہ بنانے کے لئے مجبور تھے۔ لیکن جب ہم نے ملک کی بنیادیں رکھ کر اسے چلانے کا تھوڑا بہت تجربہ کیا تو جنرل حضرات آ دھمکے۔ ان کے لئے ملک کا نظام چلانا بالکل نیا کام تھا۔ انہوں نے اپنے تجربے شروع کر دیئے اور جب انہیں 10سال کا تجربہ ہو گیا توایک اور جنرل یحییٰ خان ملک چلانے کے لئے آ بیٹھا۔ اس کی بھی ساری عمر فوج میں گزری تھی۔ وہ پھر سے تجربہ کرنے بیٹھ گیا اور ایسی ایسی جدتیں کیں کہ پاکستان ہی توڑ گیا۔ آدھا پاکستان مجیب الرحمن کو ملا‘ جہاں اس نے اپنے تجربے شروع کر دیئے اور باقی ماندہ کا اقتدار بھٹو صاحب کے حصے میں آیا۔ انہوں نے اپنے تجربے شروع کر دیئے اور جب بھٹو صاحب نے سربراہ مملکت کی حیثیت سے کچھ تجربہ حاصل کر لیا تو جنرل ضیاء الحق آ دھمکے۔ انہیں بھی امورمملکت کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ پھر انہوں نے پاکستان کو اپنی تجربہ گاہ بنایا اور یہاں سمگلنگ‘ ڈرگز‘ ناجائز اسلحہ اور افغان مہاجرین کے تحفے دے کر پاکستانی کلچر کا حلیہ بگاڑ دیا اور ساتھ ہی مذہبی تجربات بھی شروع کر دیئے۔ وہ رخصت ہوئے تو طاقت کے سرچشمے سیاستدانوں کی حکومت بنا کر خود اپنے دفتروں سے امور مملکت چلانے لگے۔ اب ایک نیا تجربہ شروع ہوا۔ پاکستان کو چلانے کے لئے جو سیاستدان رہ گئے تھے‘ انہیں جمہوری نظام چلانے کا کوئی تجربہ ہی نہیں تھا۔ یہ سارے سیاستدان یا ایوب خان کے زیرسایہ پروان چڑھے اور پھر یحییٰ خان کے تجربات کا نشانہ بنے۔ چند سال بھٹو صاحب کی چھترچھایا میں اپوزیشن بن کر ہاتھ پائوں مارے اور پھر ضیاء الحق کے تجربات کی نذر ہو گئے۔ حکومت چلانے کے لئے وہ بھی نئے تھے اور پس پردہ بیٹھ کر انہیں کنٹرول کرنے والے جرنیلوں کی عمریں بھی بیرکوں میں گزری تھیں۔ چنانچہ حکومت چلانے اور چلوانے والے دونوں ہی نئے تھے۔ انہوں نے خوب مل کر حکومتیں بنوائیں اور توڑیں۔ نہ انہیں خود امور مملکت چلانے کا تجربہ ہوا اور نہ ہی کسی سیاستدان کو۔ ایک عجیب و غریب قسم کی مخلوق تیار ہو گئی۔ نہ امورمملکت چلانے والوں کو اپنے کام کا کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی ان کی لگامیں کنٹرول کرنے والوں کوکوئی تجربہ حاصل تھا۔ 90ء کے عشرے میں جو تماشا لگا‘ وہ اناڑیوں کی باریاں تھیں اور ہر قسم کے اناڑی اپنی باری کو طول دینے کے چکر میں لگے رہے۔ ایک ہٹانے کی کوشش کیا کرتا، دوسرا اس سے بچنے کی کوشش میں لگا رہتا۔ کام کرنے‘ پالیسی بنانے یا مستقبل کے لئے کچھ کرنے کا موقع ہی کسی کو نہیں ملا۔ ایک موٹروے شروع کرتا‘ دوسرا اسے بند کر دیتا۔ ایک بجلی کے پلانٹ لگواتا‘ دوسرا آ کر انہیں بند کر دیتا۔ ایک بنانے پہ لگا رہتا‘ ایک گرانے پہ لگا رہتا۔ ان دونوں کو باہر کر کے‘ جنرل پرویزمشرف تشریف لے آئے اور پھر سے ناتجربہ کار حکمرانوں کا ایک ٹولہ مسلط ہو گیا۔ اس نے حسب روایت تجربہ کاروں کو اپنا ملازم رکھا اور دونوں مل کر پھر سے تجربے کرنے لگ گئے۔ پرویزمشرف تجربے کرتے کرتے اپنے ہی بنائے ہوئے بموں کو لات مار بیٹھے۔چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر بھی انہوں نے خود کیا تھا اور جلاوطن لیڈروں کو بھی خود انہی نے بلایا تھا۔ جنرل صاحب نے ایک ہی وقت میں تینوں کو لات مارنے کی کوشش کی اور ابھی تک ان بموں کو بھگت رہے ہیں۔ دوسری طرف 90ء کے عشرے میں حکمرانی کرنے والوں نے بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ اس بار انہوں نے ایک دوسرے کو گرانے کی بجائے‘ ایک دوسرے کو سنبھالنے کا تجربہ کیا۔ ایک نے پنجاب کو اپنی تجربہ گاہ بنا لیا اور دوسرے نے باقی ماندہ پاکستان کو۔ یہ کہانی کبھی تفصیل سے بیان ہوئیف تو اپنے وقت کی انتہائی سنسنی خیز کہانی ہو گی۔ جو کام صوبہ کرنا چاہتا‘ اسے وفاق روک دیتا اور جو کام وفاق کرنے کی تیاری کرتا‘ اس پہ صوبہ لات مار دیتا۔پاکستان ایک بار پھر تجربے کرنے والے اناڑیوں کا کھلونا بن گیا۔ انتخابات پھر ہو رہے ہیں۔ ہمارے سامنے پرانے اناڑی بھی ہیں جنہیں سیکھنے کے مواقع ملے مگر وہ ناکام تجربوں میں گنوا بیٹھے اور اب نئے اناڑی بھی آ گئے ہیں۔ ووٹروں کو خود پتہ نہیں کہ ان کا ووٹ کیا چیز ہوتا ہے؟ وہ صرف امیدوار کو جانتا ہے اور پوچھنے پربتاتا ہے کہ وہ اپنی برادری کے امیدوار کو ووٹ دے گا۔ اس امیدوار کو ووٹ دے گا جس نے اس کے ایک دو عزیزوں کو نوکریاں دیں۔ ایسے امیدوار کو ووٹ دے گا جس نے نالی بنائی۔ اس امیدوار کو ووٹ دے گا جس نے پیسے دیئے۔ امیدوار آگے جا کر کیا کرے گا؟ ووٹر کو بالکل معلوم نہیں۔ کچھ ووٹر مذہبی حوالوں سے ووٹ دیتے ہیں۔ بعض تو مذہبی وجوہ کی بنا پر ہی ووٹ نہیں دے سکتے اور جو دیتے ہیں‘ وہ مذہب سے زیادہ اپنے فرقے کا امیدوار دیکھتے ہیں۔ پاکستان کو ووٹ دینے والے ووٹ کیسے دیں اور کس کو دیں؟ پاکستان تو کہیں نظر ہی نہیں آتا۔ اسلام کو ووٹ دینے والے اپنا ووٹ کیسے دیں اورکس کو دیں؟اس کے سامنے بھی فرقوں کے نمائندے کھڑے ہیں۔ اسلام نظر نہیں آتا۔تیر ہے۔ شیر ہے۔ بلا ہے۔ سائیکل ہے۔ لالٹین ہے۔ پتنگ ہے۔ کتاب ہے۔ ترازو ہے۔ بلے کو ووٹ دیں تو وہ کہتا ہے شیر کو پھینٹی لگائوںگا۔ شیر کو ووٹ دیں وہ کہتا ہے میں بلا کھا جائوں گا۔ تیر کو ووٹ دیں تو وہ کہتا ہے میں شیر کو چھلنی کر دوں گا۔ پاکستان کا ووٹ کس کو دیا جائے؟