جیسے جیسے الیکشن کا دن نزدیک آ رہا تھا‘ ہماری کیفیت ’’پتہ جو کھڑکے‘ دل میرا دھڑکے‘‘ کے مصداق ہو رہی تھی۔ 7 مئی کو جب انتخابی مہم کے صرف2 دن رہ گئے تھے‘ اچانک عمران خان ایک حادثے کا شکار ہو ئے اور پورے ملک میں سب کے دل دھک سے رہ گئے کہ ’’خدا نہ کرے‘ عمران خان کو کچھ ہو جائے۔‘‘ یہ ہم پاکستانیوں پر قدرت کی طرف سے رحم کا ایک اور مظاہرہ تھا ‘ ورنہ ہم تو اپنی بربادیوں کا سامان فراہم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں عمران خان کے لیے جو مقام محفوظ کر دیا گیا ہے‘ اسے وہ بہرطور حاصل کر کے رہیں گے۔ چونکہ اگلے روز الیکشن ہیںاور میں نے بطور خاص یہ احتیاط رکھی ہے کہ پیشگوئیوں کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر سیاست پر مغز ماری کرتا رہوں۔ کسی کی ہار جیت پر بے لاگ رائے زنی کر دی جائے تو الزامات کی بوچھاڑ ہو جاتی ہے۔جس بات کو آپ سچ سمجھتے ہیں اس میں بھی اگر کسی کی حمایت کا پہلو ہو تو لکھنے والا ماراگیا۔ میڈیا میں پہلے تو ایک آدھ کالی بھڑ دکھائی دیتی تھی۔ اب چھتوں کے چھتے ہیں جو سب کو اپنی طرح کا دیکھنا چاہتے ہیں اور جو نہ ہو اس پر بھنبھنابھنبھنا کے اسے اپنے جیسا کر لیتے ہیں۔ اتفاق تھا کہ میں نے 7 مئی کی صبح ہی عمران خان کے بارے میں کالم لکھا تھا۔ جس میں عمران خان کے طرز سیاست اور ان کے ذہنی رحجانات کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا تھا۔ عمران خان کی مقبولیت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ بعض ایسی باتیں بھی لکھی گئی تھیں جن پر بھڑوں کا حملہ یقینی تھا۔ شام کو حادثہ ہوا تو میں نے خود بھی محسوس کیا کہ ہسپتال میں زیرعلاج پڑے ہوئے ایک شخص کے بارے میں ایسی تحریر شائع ہونا جو موڈ خراب کر سکتی ہو‘ ہماری تہذیبی روایات کے منافی ہے۔ ایک زمانے میں ہم ایسا کر گزرتے تھے۔ مگر وقت سکھا دیتا ہے سب کچھ‘ ہم کو بھی جینا آ ہی گیا۔ میں نے اسی وقت تیار شدہ کاپی میں سے اپنا کالم نکلوا دیا۔ سوچا ہے کہ اب اسے الیکشن کے بعد ہی شائع کروں گا۔ عمران خان کی دل آزاری سے بچنا بھی ضروری تھا اور بھڑوں سے بچائو کرنا بھی۔ یسوع مسیح کی بھیڑوں کی طرح‘ عمران خان کی بھڑیں بھی بہت مشہور ہیں۔ مسیح کی بھیڑیں چراگاہوں میں ریوڑ بنا کے خوراک ڈھونڈتی تھیں اور عمران کی بھڑیں سوشل میڈیا پر ریوڑوں کی شکل میں شکار ڈھونڈتی ہیں۔ چند اضافی جملوں یا جملہ ہائے معترضہ کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ عمران خان کے حادثے کی خبر سن کر ان کے مخالفین سے لے کر حامیوں اور تمام جمہوریت پسند پاکستانیوں کے دل‘ دھک سے رہ گئے تھے اور ہر کسی کی ایک ہی دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ اس حادثے کو کسی سانحے میں نہ بدل دے۔ ورنہ الیکشن کا التوا ناگزیر ہو جاتا اور یہ التوا ہمارے لیے مسائل کے طوفانوں کے راستے کھول دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے بدترین مخالفین نے بھی عمران خان کی صحت مندی کی خبر سن کر سکھ کا سانس لیا۔ جس طرح نوازشریف نے بھرے جلسے میں ان کے حق میں دعائے صحت کرائی اور جن الفاظ میں انہیں یاد کیا اور جس طرح شہبازشریف انتخابی جوش و جنوں کی گرد جھاڑ کے سیدھے ہسپتال پہنچے‘ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حادثے کی خبر سن کر ان پر کیا گزری ہو گی؟ دیگر لیڈروں اور عوام کی حالت بھی مختلف نہیں تھی۔ سب کو ایک ہی ڈر تھا کہ انتخابات کا دن ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ ابھی درمیان میں ایک دن حائل ہے۔ کچھ پتہ نہیں کیا سے کیا ہو جائے؟ پاکستان کے جمہوریت پسندوں اور دہشت گردوں کے درمیان کشمکش اپنے عروج پر ہے۔ دہشت گردوں نے ابھی تک 60 سے زیادہ سرکردہ سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنایا ہے اور بشیر بلور جیسے لیڈر کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیڈروں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ لیکن وہ عوام کے اندر خوف کی وہ فضا پیدا کرنے میں ناکام رہے‘ جس کے وہ خواہش مند تھے۔ جن جماعتوں کو انہوں نے زبردست جانی نقصان پہنچائے اور جن کی انتخابی مہم کو بری طرح سے متاثر کیا‘ ان کی قیادتوں نے بھی یوں لگتا ہے کہ سر پہ کفن باندھ لیا ہے۔ دہشت گردوں نے جن لیڈروں کو براہ راست ہدف بنایا ہوا تھا‘ وہ بھی ہر زخم کھانے کے بعد گرجدار لہجے میں اعلان کرتے رہے کہ ہم الیکشن میں ہرقیمت پر حصہ لیں گے۔ ایسا ہر بیان‘ دہشت گردوں کے حوصلے پست لیکن انہیں مزید مشتعل کر دیتا۔ میں نہیں جانتا ڈیپریشن میں وہ کیا کچھ کر گزرنے کی سوچ رہے ہوں گے؟ آج 8 مئی کو ‘ صبح کے ساڑھے گیارہ بجے ہیں اور مختلف مقامات پہ دھماکوں کی خبریں شروع ہو چکی ہیں۔ آنے والی ایک رات اور کل کے پورے دن میں ‘ دہشت گرد کوئی بڑا دائو لگانے کی کوشش ضرور کریں گے۔ مناسب یہ ہو گا کہ آج کے دن تمام بڑے سیاسی لیڈر اپنے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کریں اور سکیورٹی فورسز کو تو اہم شخصیات کے گرد دوہرا دائرہ بنانے کی ضرورت ہے۔ چھوٹا دائرہ‘ ان کی حفاظت اور مزاحمت کے لیے ہو اور بڑا دائرہ امکانی دہشت گردوں پر گہری نظر رکھنے اور انہیں گھیر کے پکڑنے یا نشانہ لگا کر ختم کرنے کے مشن پر ہو۔ آج کے دن دہشت گردوں کا گرفت میں آنا بہت آسان ہو گا۔ کیونکہ وہ اپنا آخری دائو کھیلتے ہوئے ہدف ڈھونڈنے کی بیتابی میں بہت سی غلطیاں کر سکتے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کو انہی غلطیوں پر نظر رکھ کے‘ ہدف تلاش کرنا چاہیے۔ اس میں کامیابی کے امکانات معمول کے حالات سے زیادہ ہو ں گے۔ پولنگ کے دن میں بطور خاص ٹارگٹ کرنے کے منصوبے بنائے گئے ہوں گے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ سکیورٹی کی کون سی سائنس تھی؟ جس کے تحت اعلان کر دیا گیا کہ حساس پولنگ سٹیشنوں پر فوج کے 8سے 10 جوان حفاظتی پہرے پر ہوں گے۔ یا یہ کہ فوج کے جوانوں کو پولنگ سٹیشن کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ یہ ہدایات اندرونی انتظامات کا حصہ تو ہوتی ہیں لیکن جس دشمن سے بچائو کے لیے انتظامات کرنا ہوں‘ اسے اپنے حفاظتی انتظامات کی اطلاع دینا کسی بھی طرح ضروری نہیں ہوتا۔ یہ تو ایسے ہی ہے‘ جیسے حملے کے لیے بڑھتے ہوئے دشمن کو لائوڈ سپیکر پر اعلان کر کے بتا دیا جائے کہ شہر کے فلاں فلاں دروازے پر پہرہ ہے اور فلاں فلاں دروازہ خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔ یا قلعے کی دیوار کس جگہ سے کمزور ہے اور کس جگہ سے اسے ناقابل تسخیر بنایا گیا ہے۔ دہشت گردوں کو انتظامی اعلانات کی خبریں پڑھنے کے بعد سہولت مل گئی ہو گی کہ انہیں جس حساس پولنگ سٹیشن پر بھی حملہ کرنا ہے‘ وہاں کم از کم 10 فوجی جوانوں کی طرف سے مزاحمت کا امکان ہے۔ چنانچہ وہ پہلے ہی 10 کے ساتھ لڑنے یا ان پر غلبہ پانے کی تیاری کر کے آئیں گے۔ اس کے برعکس اگر یہ تاثر دیا جاتا کہ ہر پولنگ سٹیشن کی حفاظت پر مطلوبہ یا بڑی نفری متعین کی جائے گی‘ جو دہشت گردوں کے ہر حملے کا جواب دینے کے لیے پوری طرح تیار ہو گی‘ تو بہتر ہوتا۔ سرپرائز ہی جنگی حکمت عملی کا خطرناک ہتھیار ہوتا ہے۔ اگر سکیورٹی کے ماہرین نے آٹھ دس فوجیوں کی تعداد بتا کر دہشت گردوں کو خوف زدہ کرنے اور سرپرائز دینے کی کوشش کی ہے‘ تو انہیں یاد دلانا پڑے گا کہ ہماری جمہوریت اور انتخابی عمل پر حملوں کا اعلان کرنے والے جی ایچ کیو راولپنڈی‘ مہران نیول بیس کراچی اور کامرہ کے فضائی دفاع کے مراکز پر کامیاب کارروائیاں کر چکے ہیں۔ اگر آٹھ دس فوجیوں کو متعین کر کے توقع کی گئی ہے کہ دہشت گردوں کو سرپرائز ملے گا‘ تو ایسے سرپرائز کے کیا کہنے؟ جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی۔سیاسی جماعتوں نے رائے عامہ کو اپنی حمایت میں تیار کرنے کے لئے جو کچھ ممکن تھا‘ وہ کر چکیں۔ اس آخری دن وہ صورتحال میں کوئی فرق نہیں لا سکیں گے۔ فرق لانے کا اعزاز قدرت نے عمران خان کے سر تھوپ دیا ہے۔ ان کے زخمی ہونے کی خبر سن کر دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کے خیالات میں جوسوئنگ آنا تھی‘ وہ آ چکی۔ اس پر اثر انداز ہونے کا وقت باقی نہیں رہ گیا۔جو حادثے خوش نصیبی کی نشانی بنتے ہیں‘ وہ اسی قسم کے ہوتے ہیں اور آخری بات کہ عمران خان کے محافظوں کو سکیورٹی کی تھوڑی سی تربیت دینے میں کیا حرج ہے؟ ---------------