حادثے میں صحیح سلامت بچ نکلنے کے بعد‘ آخر کار عمران خان کوسٹیٹ سکیورٹی دے دی گئی۔ میں نے یہ سوال پہلے ہی دن‘ اپنے خصوصی تجزیئے میں اُٹھایا تھا اور اگلے روز کالم میں اس پر تفصیل سے بحث کی۔ ہو سکتا ہے فیصلہ کرنے والوں نے ان دونوں تحریروں کا مطالعہ بھی کیا ہو۔یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ عمران خان کو بلٹ پروف جیکٹ نے بچا لیا۔ یہ جیکٹ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے‘ گولیوں سے بچائو کے لئے پہنی جاتی ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ 14 فٹ کی اونچائی سے گرنے پر یہ ہڈیوں کوکسی چوٹ سے بھی بچا سکتی ہے۔ مجیب الرحمن شامی نے عمران خان اور ان کے معالجوں سے ملاقات کے بعد بتایا کہ’’ اگر عمران نے یہ جیکٹ نہ پہنی ہوتی‘ تو ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔‘‘ خدانخواستہ اس ہڈی پر چوٹ لگ جائے تو انسان زندگی بھر کے لئے مشکل میں پڑ جاتا ہے۔ دوسرے سیاسی لیڈروں کو بھی اس واقعے کی روشنی میںحفاظتی جیکٹ کا استعمال اپنا معمول بنا لینا چاہیے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ تیز رفتار ڈرائیونگ کرنے والے بھی اس کا استعمال شروع کر دیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو حادثوں سے محفوظ رکھے۔ لیکن حادثے کی صورت میں یہ جیکٹ کم از کم سینے اور کمر کی ہڈیوں کا بڑی حد تک بچائو کر سکتی ہے۔ انتخابی مہم ختم ہو چکی۔آج کسی بھی وقت پولنگ سٹیشنوںکو مکمل کرنے کا کام شروع ہونے والا ہے۔ کل صبح کا سورج امن و امان کی فضا میں طلوع ہو گیا‘ تو پاکستانی عوام دہشت گردوں کے خلاف کامیابی کا پہلا مرحلہ طے کر لیں گے۔ دوسرا مرحلہ پولنگ کے ساتھ شروع ہو گا۔ اس کے دوران ‘ خطروں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دہشت گرد پورا زور لگا کر اپنا دعویٰ درست ثابت کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگائیں گے۔ انہوں نے دھمکی دے رکھی ہے کہ وہ لبرل جماعتوں کے ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں تک نہیں جانے دیں گے۔ ان جماعتوں کی قیادتوں نے جرأت مندی سے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ان کے امیدوار بہرطور ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں تک لانے کی کوشش کریں گے۔ دہشت گردوں نے انتخابات اور جمہوریت کے خلاف جو مہم چلا رکھی ہے‘ اسی طرح کی مہم قائد انقلاب شیخ الاسلام حضرت علامہ مولانا پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری بھی شروع کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے دھرنے کو پُرامن قرار دیا ہے۔ یہ اچھی امن پسندی ہے کہ لوگ تو ووٹ ڈالنے جائیں گے اور یہ دھرنا دے کر ان کے راستے میں حائل ہونے کی کوشش کریں گے۔ مگر ان کے نزدیک یہ پُرامن اقدام ہو گا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے‘ جیسے آپ ہاتھ اور ہتھیار اٹھائے بغیر کسی کے راستے میں آ جائیں۔ اسے چلنے سے زبردستی روکیں اور ساتھ ہی دعویٰ کریں کہ آپ غلط حرکت نہیں کر رہے۔ دھرنے درحقیقت کسی کو زبردستی روکنے کے لئے ہوتے ہیں۔ جسمانی طور پر نہیں‘ تو اخلاقی طور پر اہداف کو‘ مرضی سے اپنے قانونی حقوق کے استعمال سے روکنے کی خاطر اخلاقی دبائو ڈالتے ہیں۔ دہشت گردوں نے تو اپنا مقصد واضح کر رکھا ہے۔ وہ جمہوریت کو نہیں مانتے۔ وہ آئین کو نہیں مانتے اور ریاست کے اداروںکو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ ہماری فوج سے مسلسل برسرپیکار ہیں۔ اب تک جن افسروں اور جوانوں کو دہشت گردوں کے مقابلے میں جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں‘ ان کی تعداد ہزاروں تک جاتی ہے۔ قائد انقلاب شیخ الاسلام حضرت علامہ مولانا پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری انتخابی عمل میں خلل ڈالنے کے اقدام کو ریاست سے بغاوت کا نام تو نہیں دیتے لیکن ساتھ ہی موجودہ طرزجمہوریت کو تسلیم بھی نہیں کرتے۔ وہ انقلاب کا نام لیتے ہیں لیکن ان اداروںکو ختم کرنا چاہتے ہیں‘ جن کے ذریعے جمہوریت وجود پذیر ہوتی ہے۔ یعنی آزادانہ انتخابی عمل ‘ اسمبلیوں کا قیام اور ان کے ذریعے سے عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل حکومت کی تشکیل۔ جمہوری نظام کے ذریعے حکومتیں بنانا اور چلاناہی واحد طریقہ کار ہے‘ جس کے ذریعے جمہوری نظام کو نافذ کیا جاتا ہے۔ بہت سے ملکوں میں یہ نظام خرابیوں کا شکار ہوجاتا ہے اور کئی ملکوں میں اسے بحسن و خوبی چلایا جاتا ہے۔ یہ نظام معاشروں کے تاریخی پس منظر اور تعلیم و ترقی کے مختلف درجات کے مطابق اپنی خوبیاں اور خامیاں ظاہر کرتا ہے۔ جو معاشرے ابھی قبائلی اور زرعی حالتوں سے نہیں نکل پائے‘ جیسے مصر‘انڈونیشیا اور پاکستان وغیرہ‘ ان میں جمہوری نظام کو اس کی روح کے مطابق چلانا ممکن نہیں ہوتا۔ قبائلی روایات کے حامل معاشروں میں نہ قوت برداشت ہوتی ہے۔ نہ دوسرے کی آزادی کا احترام کرنے کی روایت اور نہ ہی قانون پسندی۔ ایسے معاشروں میں زیرعمل جمہوریت کو دیکھ کر آپ نظام کے بارے میں رائے قائم نہیں کر سکتے۔ جیسے کہ ہمارے ہاں ہوتا آیا ہے اور ہو رہا ہے۔ حقیقی جمہوریت نہ منتخب اداروں کے تحت قائم کی جا سکی اور نہ ہی فوجی حکمرانوں کے ادوار میں۔ ہر ایک نے اپنے حصول اقتدار کو جمہوریت کا نام دیا۔ لیکن یہ صرف جمہوریت کی پیروڈیاں تھیں۔ جمہوریت نہیں تھی۔ ایوب خان نے اپنے نظام کو جمہوریت قرار دیا۔ یحییٰ خان نے دستور ساز اسمبلی کے انتخاب کرانے کے بعد‘ دستور اپنی مرضی کا مسلط کرنا چاہا۔ ضیاالحق نے پہلے مجلس شوریٰ اور پھر غیرجماعتی اسمبلیاں بنا کر اسے جمہوریت کہا۔ ان کے بعد جنرل حضرات نے باربار منتخب حکومتیں بنائیں لیکن انہیںاپنے کنٹرول میں رکھا۔پرویزمشرف نے ریفرنڈم اور فوجی طریقے سے انتخابات کرا کے‘ ان کا نام جمہوریت رکھ دیا اور ان کے بعد منتخب نمائندوں کی حکومت بنوا کر‘ اسے اپنے احکامات کے تحت چلایا۔ اگر صدر زرداری کی حکومت کو کوئی آزاد اور خودمختار جمہوری حکومت کہتا ہے‘ تو یہ معصومیت کی انتہا ہے۔ اس حکومت کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے طاقت کے ایک سے زیادہ مراکز کی اطاعت کرنا پڑی۔ ایک طرف عدلیہ ہر شعبے میںاحکامات جاری کرنے لگی۔ حد یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے چینی کے ریٹ تک خود مقرر کر دیئے۔ مگر اس حکم پر آج تک عمل نہ کیا جا سکا اور آج پشاور ہائی کورٹ نے ایک قدم مزید آگے بڑھتے ہوئے خارجہ پالیسی کے لئے بھی رہنما اصول بیان کر دیئے اور حکم دیا کہ ’’حکومت پاکستان اس بات کو یقینی بنائے کہ آئندہ پاکستانی علاقوں پر ڈرون حملے نہ ہوں۔‘‘ امریکہ کو حکم دیا کہ’’ وہ ڈرون حملوں میں متاثر ہونے والے خاندانوں کو معاوضہ ادا کرے اور یہ معاوضہ ڈالروں میں ہو۔‘‘ پاکستان کی وزارت خارجہ کو حکم دیا کہ ’’اقوام متحدہ میں ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد جمع کرائی جائے اور اگر قرارداد ویٹو کر دی گئی‘ تو امریکہ سے تعلقات ختم کر لئے جائیں۔‘‘ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ’’سیکورٹی فورسز کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ڈرونز کو مار گرائے۔‘‘ یہ ہو گاوہ نظام حکومت‘ جسے چلانے کے لئے ہمارے ملک میں انتخابات منعقد کرائے جا رہے ہیں اور اس کی راہ میں بھی ایک طرف دہشت گرد حائل ہیں اور دوسری طرف قائدانقلاب شیخ الاسلام حضرت علامہ مولانا پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری۔11 مئی کو انتخابی نتائج آنا شروع ہو جائیں گے۔خدا کرے کہ امن و امان کی فضا میں انتخابات مکمل ہو جائیں اور ہم اپنی ’’جمہوریت‘‘ کو مزید آگے چلا سکیں۔ رہ گئی حقیقی جمہوریت‘ تو اس کی منزل بہت دور ہے۔ ایک چھلانگ میں وہ حاصل بھی نہیں ہو سکتی۔ گرتے لڑکھڑاتے ہوئے ہی حقیقی جمہوریت تک پہنچا جا سکتا ہے۔