پاکستانی عوام کو جس قدر بھی سلام پیش کیا جائے‘ ان کی جتنی بھی تحسین کی جائے‘ ان کی عظمت کو جتنا بھی سراہا جائے‘ کم ہو گا۔ یہ عوام جو صدیوں سے استحصال کا شکار ہیں۔ ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ بیرونی اور ملکی آقائوں اور مقامی جاگیرداروں‘ مافیائوںاور رسہ گیروں کے مظالم کا شکار ہوتے آ رہے ہیں اور جنہیں ہر دور میں لٹیرے‘ ظالم اور بے حس حکمرانوں سے پالا پڑتا رہا ہے۔ جن کی زندگی نہ کوئی آمر بہتر کر سکا اور نہ کسی منتخب حکومت نے‘ ان کے مسائل حل کئے۔ لیکن جب بھی ان کے سامنے کوئی بڑا چیلنج آیا‘ ان کے نحیف جسموں میںناکامیوں اور نامرادیوں کے باوجود‘ کسی غیبی طاقت کی مدد سے ناقابل شکست توانائی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ ہر مرتبہ تاریخ کے صحیح راستے کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے نہیں یاد کہ پاکستانی عوام نے اجتماعی طور پر کبھی کوئی غلط فیصلہ کیا ہو اور پاکستانی حکمرانوں نے کبھی کوئی ایسا فیصلہ کیا ہو‘ جس میں عوام کے مفاد کو فوقیت دی گئی ہو۔ آج 11 مئی کی صبح سے ‘دن کے ایک بجے تک (جب میں کالم لکھ رہا ہوں) میری خوشیوں اور سرشاریوں کی انتہا نہیں۔ آدھا دن گزر چکا ہے اور عوام ہیں کہ ہر طرف فتح و کامرانی کے پرچم لہرا رہے ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج دہشت گردوں کی طرف سے تھا۔ لیکن دہشت گرد انتخابی مہم کے آخری دن تک کچھ نہیںکر پائے۔ الیکشن سے ایک دن پہلے یا الیکشن کی رات‘ اپنی دہشت گردی کا کوئی قابل ذکر مظاہرہ کر سکے اور نہ ہی آج پولنگ کاآدھا دن گزر جانے کے بعد ‘ وہ اپنے دعوئوں کے مطابق انتخابی عمل کو روک سکے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق دہشت گردی کے جو چند واقعات ہو پائے ہیں‘ ان میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ابھی تک 10 ہے۔ پاکستانی معمول کے مطابق اتنی بلکہ اس سے زیادہ جانیں تو صرف کراچی میں ضائع ہوتی ہیں۔ دہشت گرد دوتین سے زیادہ وارداتیں نہیں کر پائے۔ بیشتر جھگڑے روایتی انتخابی تنازعات کی بنا پر ہوئے۔ یہ تیسری دنیا میں انتخابی مقابلہ آرائی کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔اصل حقیقت یہ ہے کہ عوام نے دہشت گردوں کو بری طرح سے پسپا کر دیا ہے۔ موجودہ الیکشن کا سب سے بڑا چیلنج ہی دہشت گردی ہے۔ اس حوالے سے اگر پاکستانی عوام کی فتح کا اعلان کر دیا جائے‘ تو غلط نہ ہو گا۔ میں نے کل ’’دنیا‘‘ نیوز چینل پر تاریخی جائزہ لیتے ہوئے کہا تھاکہ پاکستانی عوام ‘ہر اجتماعی چیلنج کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ عام حالات میں یہ منتشر‘ بے حوصلہ اور مایوس دکھائی دیتے ہیں اور ان کے حالات ہوتے بھی اسی طرح کے ہیں۔ لیکن جب انہیں چیلنج کر دیا جائے‘ تو پھر ان کے حوصلوں کو شکست دینا ممکن نہیں رہتا۔ 1964ء کی انتخابی دھاندلیوں کی وجہ سے جس میں مادرملت کو شکست دی گئی تھی‘ عوام بے حوصلہ ہو چکے تھے اور ایوب حکومت کے خلاف‘ ان میں شدید نفرت بھر گئی تھی۔ لیکن چھمب جوڑیاں کی متنازعہ سرحد پر فوجی کارروائی کے جواب میں‘ جب بھارت نے طے شدہ سرحدوں کو عبور کر کے‘ لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کیا‘ تو یہی مایوس اور منتشر عوام‘ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے اور بھارت کی مسلح افواج اور اعلیٰ فضائی طاقت کا ایسا جواب دیا کہ بھارت اپنی تین گنا فوجی طاقت کے ساتھ بھی لاہور اور سیالکوٹ کو فتح کرنے کا خواب پورا نہ کر سکا۔ 1970ء میں جب مشرقی اور مغربی پاکستان اکٹھے تھے‘ مذہبی جماعتوں اور حکمران یحییٰ خان ٹولے نے گٹھ جوڑ کر کے عام انتخابات کرائے اور ان میں آمریت کی پٹھو جماعتوں کی بھرپور مدد سے‘ عوام کی مقبول جماعتوں کو شکست دینے کی کوشش کی۔ اس وقت کا سارا ریاستی اور پرائیویٹ میڈیا بھی عوام کی نمائندہ سیاسی جماعتوں پر ہر طرح کی تہمتیں لگا رہا تھا۔ انہیں غدار کہا جا رہا تھا۔ اسلام دشمن قرار دیا جا رہا تھا۔ کفر کے فتوے لگا دیئے گئے تھے۔ یہاں تک کہ مغربی پاکستان کے مقبول لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی ذات اور خاندانی پس منظر پر ایسے ایسے گھٹیا الزامات لگائے گئے‘ جو کسی اسلامی تو کیا نیم مہذب معاشرے میں بھی انتہائی شرمناک سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن عوام نے حکمران ٹولے کے تمام ایجنٹوں کو ایسی ذلت آمیز شکست دی کہ وہ ڈیڑھ دو سال تک تو‘ اپنے حواس ہی نہیں سنبھال پائے۔ مگر حکمران فوجی ٹولے اور ان کے ایجنٹوں نے عوام کا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ انتقال اقتدار کے وعدے سے مکر گئے اور مشرقی پاکستان ‘ جہاں پاکستانی عوام کی اکثریت نے ایک ہی جماعت کو فیصلہ کن اکثریت کے ساتھ کامیاب کرایا تھا‘ ان کے گھروں پر ٹینک چڑھا دیئے گئے اور آخر کار مشرقی پاکستانی عوام اپنے صوبے کا نام بنگلہ دیش رکھ کر علیحدہ ملک قائم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس مجبوری کی وجہ مشرقی پاکستانی عوام پر ‘ مغربی پاکستان اور بھارتی فوجوں کی باری باری کارروائی تھی۔ پہلے ان پر ملکی فوج نے حملہ کیا اور اس کے بعد بھارتی فوج نے۔ ان دونوں کی عوام دشمن کارروائیوں کے نتیجے میں بھارت کی طاقت سے ان پر علیحدگی مسلط کی گئی۔ لیکن جہاں تک عوام کا تعلق ہے‘ انہوں نے جمہوریت‘ اپنی آزادی اور اقتدار پر اپنے استحقاق کی حمایت میں فیصلہ دیا تھا۔ موجودہ انتخابات کسی بھی اعتبار سے 1970ء سے مختلف نہیں ہیں۔ اس بار بھی عوام دشمن طاقتوں کا ایک مسلح گروہ یہ چیلنج دے چکا ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوری نظام کو نہیں چلنے دے گا اور مذہب کے نام پر انہیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑا جائے گا۔ دوسری طرف وہ تمام طبقے‘ جو اقتدار کی طاقت استعمال کرتے ہوئے‘ اپنے مفادات کو آگے بڑھاتے ہیں اور گزشتہ چند سالوں سے تو انہوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے اور کسی قسم کی احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا جا رہا۔ عوام سے مینڈیٹ ہتھیانے کے لئے‘ بھرپور جوش و خروش کے ساتھ ووٹ بٹورنے نکل آئے ہیں۔ لیکن اس طرح عزم وہمت کے ساتھ ووٹ دینے کے لئے نکلے ہوئے عوام‘ اپنے مسترد کردہ کسی نظام کو سہارا دینے نہیں آیا کرتے۔ ہرچند ایک جماعت نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر‘ رائج الوقت نظام سے عوامی نفرت کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہی۔ انتخابی مہم کی منڈی میں تبدیلی کا یہ نعرہ ہر ایک سوداگر کو استعمال کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کی تمام سیاسی قیادتیں شعور و فکر سے عاری‘ نئی دنیائوں کی تخلیق کی صلاحیتوں سے محروم اور مستقبل بینی کی صلاحیتوں سے بیگانہ ہیں۔ انہوں نے 5سال پہلے امریکہ کے صدارتی امیدوار باراک اوباما کا انتخابی نعرہ ہتھیایا اور اسے لے کر چل کھڑے ہوئے۔ اوباما نے تبدیلی کا نعرہ امریکہ کوتباہ کن جنگوں سے نکالنے کے لئے لگایا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ بش کی جنگی پالیسیاں تبدیل کر کے‘ امریکی افواج کو میدان جنگ سے نکالیں گے اور ان جنگوں کی وجہ سے جو انسانی اور مالیاتی نقصانات امریکی قوم کو اٹھانا پڑ رہے ہیں‘ ان سے ملک کو بچایا جائے گا۔ مگر یہاں تبدیلی کا واضح مفہوم کسی کے پاس نہیں۔ البتہ عوام تبدیلی کا مطلب سمجھتے ہیں۔ ہرچند وہ اسے بیان نہیں کر پاتے لیکن اپنی خواہشوں کی صورت میں اس کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔ آج پولنگ سٹیشنوں پر پہنچے ہوئے ووٹروں نے جس خواہش کا زوروشور سے اظہار کیا‘ اس سے تبدیلی کے وعدے کرنے والی جماعتوں کو خوفزدہ ہوجانا چاہیے۔ جس نظام کی طاقت استعمال کر کے‘ پاکستان کے مستقل حکمرانوں نے ابھی تک عوامی طاقت کے طوفان کو روکا ہوا تھا‘ اب وہ نظام مضمحل اور ناتواں ہو چکا ہے۔ اس کے خزانے میں پیسہ نہیں رہ گیا۔ اس کی معیشت میں جان نہیں رہ گئی۔ اس نظام کے چلانے والوں میں نئے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رہ گئی۔ لٹیروں کے گھروں میں ‘ لوٹ مار پر جھگڑے پڑے ہوئے ہیں۔ ادارے ‘ اداروں سے برسرپیکار ہیں۔ فوج ‘حکمران طبقوں کے مفادات کی خاطر مزید قربانیاں دینے کو تیار نہیں۔ جن پارٹیوں کی حکومت بنتی ہوئی نظر آ رہی ہے‘ وہ دہشت گردوں سے مذاکرات کا ارادہ رکھتی ہیں۔ دہشت گرد کسی قیمت پر اپنے ایجنڈے سے ہٹنے والے نہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اگلے سال کے اختتام سے پہلے افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنا چاہتے ہیں۔ نئی حکومت نہ عوام کو مطمئن کر سکے گی‘ نہ فوج کو اور نہ ہی وہ امریکہ کے ساتھ معاملات طے کرنے میں‘ قومی مفادات کا تحفظ کر سکے گی۔ اس حکومت کے پیر زمین پر نہیں ہوں گے اور تبدیلی کا وہ نعرہ‘ جس کے نام پر نئے حکمران ووٹ لے کر آئیں گے‘ ان کے گلے کا پھندہ بن جائے گا۔آج سے پاکستانی عوام نے اپنی فتح کی جانب پیش قدمی شروع کر دی ہے۔ انشاء اللہ اب یہ آگے ہی بڑھتے جائیں گے۔ پاکستانی عوام کو سلام ۔