جن لوگوں کو نوازشریف کی علاقائی پالیسی سے تکلیف ہو رہی ہے ۔کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ پاکستانیوں کا زیادہ خون بھارتی سرحدوں پر بہا ہے یا افغان سرحدوں کے قریب پاکستانی علاقوں میں؟کیا حکومت پاکستان اپنے شہریوں کو صرف بھارت سے بچانے کی ذمہ دار ہے؟یا ہر اس دشمن سے ؟جو ان پر گولیاں، بم اور راکٹ چلاتا اور کلہاڑوں سے ہمارے فوجیوں کے گلے کاٹتا ہے؟ہم آزادی کے چند ہی برسوں بعد امریکی مفادات کی پہرے داری پر مامور ہو گئے تھے اور اس میں ہم اپناآدھا ملک بھی گنوا بیٹھے، اپنی ترقی کے راستے بھی بند کر لئے، عوام کو بھوک، بے روزگاری اور اندھیروں میں اذیت ناک زندگی گذارنے پر مجبور کیا اور حاصل یہ ہوا کہ ہمارے عوام آج بھی امن اور تحفظ سے محرو م ہیں۔ باقی ملکوں میں سرحدوں پر لڑائیاں ہوتی ہیں ، ہمارے شہروں کے اندر ہو رہی ہیں۔ہماری مسجدوں پر بم پھینکے جاتے ہیں، ہمارے مزاروں اور مقبروں کو تباہ کیا جاتا ہے، ہمارے بازاروں اور گھروں کو برباد کیا جاتا ہے اور یہ سارے کے سارے دشمن مسلمان کہلاتے ہیں اور ہمیں سبق یہ دیا جاتا ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔کیا یہی بھائی چارہ ہے۔ اگر ہم موجودہ ڈگر پر چلتے رہے تو وطن کے اندرفرقہ پرست مولوی ہمیں تقسیم در تقسیم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر فرقہ دوسرے کو کافر قرار دے کر واجب القتل قرار ہی نہیں دیتا بلکہ عملًا قتل کرتا رہتا ہے۔شیعہ بھائیوں کو مارنے والے مسلمان ہیں اور شیعہ دشمن فرقوں کو بھی مسلمان ہی مارتے ہیں۔اور ہمارے تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو دہشت گرد مارتے ہیں۔ وہ ہمارے جمہوری نظام کو بھی ختم کرنے کے ارادے رکھتے ہیں۔ہمارے آئین کو بھی نہیں مانتے اور ہمارے ملک پر قبضہ کر کے اسی طرز کی جابرانہ حکومت قائم کرناچاہتے ہیں، جیسی افغانستان میں طالبان نے چلائی تھی۔ان کی حکومت آئی تو عورتوں کا گھروں سے باہرنکلنا بند کر دیا جائیگا، علاج معالجے اور سودا سلف خریدنے کیلئے جانے والی خواتین کو محرم ساتھ رکھنا پڑے گا اور اگر محرم نہیں ہو گا تو اسے گرفتار کر کے سزا دی جائیگی۔معمولی معمولی غلطی پر خواتین کو سڑکوں پر درے مارے جائیں گے۔ پاکستان کے ہر چوراہے پر سوات کے چوک جیسے مناظر دیکھنے میں آیا کریں گے۔ ہزاروں غیر مردوں کے ہجوم کے درمیان بے بس عورتوں کو نا محرم مرد، ہاتھوں پیروں سے پکڑ کے زمین پر لٹایا کریں گے اور ایک نا محرم مرد ہی دروں سے اس کی کھال ادھیڑا کرے گا۔عورتوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دئیے جائیں گے۔ جب افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی تو ایسی بیوائیں اور یتیم خواتین جن کے گھر میں کوئی محرم نہیں ہوتا تھا ،گھروں میں پڑی پڑی بھوک اور پیاس سے مرا کرتی تھیں۔اقبال احمد نے کابل شہر کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بیوہ عورت دو بچوں کیساتھ گھر میں اکیلی تھی۔ قانون کے تحت وہ اکیلی گھر سے باہر نکل کر سودا نہیں خرید سکتی تھی، بچوں کو بھوک سے بلکتے دیکھ کر اس کا برا حال ہو گیا اور ایک دن انجام سے بے پروا ہو کر وہ بچوں کے کھانے کیلئے کچھ خریدنے گئی۔ اسے محرم کے بغیر پھرتے دیکھ کر اسلام کے سپاہیوں نے پکڑ لیا ، قید کی سزا سنائی اور قید میں ڈال دیا۔کئی مہینوں کے بعد جب وہ گھر پہنچی تو اس کے بچوں کی پھولی ہوئی لاشوں کو کیڑے کھا رہے تھے۔کیا ہم اپنے وطن میں اسی طرح کے مناظر دیکھنا چاہتے ہیں ؟جن کی آنکھیں بند ہیں ،انہیں کچھ کہنا بے کار ہے۔ لیکن جو گردو پیش کی خبر رکھتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ہمارے شہروں میں طالبا ن کے ایجنٹ اور ان کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہاہے۔کراچی شہر میں وہ اتنی طاقت پکڑ چکے ہیں کہ ایم کیو ایم جیسی منظم جماعت بھی ا ن سے ڈرتی ہے۔اے این پی، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے کئی امیدواروں کو الیکشن میں حصہ لینے کے جرم میں شہید کیا جا چکا ہے۔ پشاور انتہا پسندوں کے قبضے میں ہے اور صرف وہی لوگ طالبان کے ظلم و جبر سے محفوظ ہیں، جن کی طرف انہوں نے توجہ نہیں دی ورنہ پشاور کا ہر شہری ان کے نشانے پر ہے۔اپنی اس صلاحیت کا وہ اکثر مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ان کیلئے سہولتیں اور ساز گار ماحول ملک بھر میں پھیلے ہوئے مدرسے مہیا کرتے ہیں۔خود کش حملہ آوروں کو پاکستان کی درسگاہوں سے ہی بھرتی کیا جاتا ہے۔چھوٹے چھوٹے بچوں کو پہاڑوں میں لے جا کر خطرناک اسلحہ چلانے کی تربیت دی جاتی ہے اور انہیں اپنے جسم سے بم باندھ کر خود کو اڑا دینے کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ہماری سیکورٹی فورسز طویل مدت سے دہشت گردوں کے خلاف لڑتے لڑتے بیزار ہو رہی ہیں۔ہر وقت خطرے کی زد پر رہنے سے عوام نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔صنعت کار، تاجر حتیٰ کہ چھوٹے دکاندار بھی یا ملک سے بھاگ رہے ہیں یا بھاگنے کی تیاریا ں کر رہے ہیں۔ یہ اسی طرح کی حالت ہے جیسے دوران انقلاب ایران کی ہوئی تھی اور طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان کی ہو گئی تھی۔ ان دونوں ملکوں کے تجربہ کار تاجر اور صنعت کار بیرون ملک جانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ان دونوں ملکوں میں اب انٹرنیشنل مارکیٹوں میںلین دین کرنے والوں کا قحط پڑا ہوا ہے۔ان ملکوں کے تاجر اور صنعت کار عالمی مالیاتی نظام کے اندر کام کرنے کی صلاحیتوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔دو کروڑ سے زیادہ آبادی والے افغانستان میں صنعت و تجارت کی مہارت رکھنے والے اتنی تعداد میں بھی دستیاب نہیں جتنی تعداد میں دبئی جیسے چھوٹے جزیرے کے سرمایہ کاراپنے ملک کو دن رات ترقی دینے میں مصروف ہیں۔ ہمارے ملک کا ایک طبقہ، ایک دوسرے ملک کے اشارے پر، ایران سے دوستانہ تعلقات کے خلاف ہے اور افغانستان کے مسلح گروہ اور حکمرانوں کا ایک بڑا طبقہ پاکستان کا دشمن ہے۔چین کے ساتھ سرحد دشوار گذار علاقے میںہے اور نصف صدی سے زیادہ پرانے دوستانہ تعلقات کے باوجودعوامی سطح پر ہمارا میل ملاپ نہ ہونے کے برابر ہے۔ان کی یونیورسٹیوں میں ہمارے طلباء اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اور ان کی ٹیکنالوجی بھی مغرب کے مقابلے میں نچلے درجے کی ہے۔ہمارے لوگ وہاں کے بازاروں اور منڈیوں میں کاروبار نہیں کر سکتے۔بھارت اور پاکستان کے درمیان ہم نے دشمنی کی دیوار کھڑی کر رکھی ہے اور کسی ملک کی سرحدیں ہم سے ملتی نہیں۔کیا ہم اسی طرح تمام پڑوسیوں سے کٹ کر تنہائی کی زندگی گزارتے رہیں گے؟ کیا ہمیں صنعتی اور تجارتی رشتے استوار کرنے کیلئے سمندروں کے پار ہی جانا پڑے گا؟کیا ہماری قسمت میں لکھا ہے کہ اپنی ضروریات کا درآمدی مال ہزاروں میل دور جا کر خریدیں اور پھر اپنے ملک میں لانے کیلئے بھاری کرایہ ادا کریں، انشورنس کی بھاری فیسیں دیں اور ہمارے عوام ان سارے اخراجات کی وجہ سے بڑھی ہوئی قیمتوں پر مال خریدیں؟جو لوگ بھارت دشمنی کا عہد کئے بیٹھے ہیں، کیا وہ ہمیں اسی انجام کی طرف لے جانا چاہتے ہیں؟ایسے لوگ علامہ اقبال کا نام لیتے ہیں، قائداعظم کا نام لیتے ہیں لیکن کیا ان قائدین اور انکے ساتھیوں نے اسی پاکستان کا خواب دیکھا تھا جو اب بنتا چلا جا رہا ہے؟اگر انتہا پسندوں نے اپنے عزائم کے مطابق پاکستان میں اپنی حکومت قائم کر لی تو کیا ہمارے ایٹم بم دہشت گردی کیلئے استعمال ہوا کریں گے؟پاکستان کے ایٹمی سائنسدان اللہ کے فضل و کرم سے اتنی اعلیٰ درجے کی مہارتیں حاصل کر چکے ہیں کہ وہ اتنے وزن کی ایٹمی نیو کلئیر ڈیوائس بھی تیار کر سکتے ہیں، جسے ایک شخص بریف کیس میں اٹھا کر چل سکتا ہے۔ہماری تباہ کاری کی صلاحیتیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔تباہی پھیلانے کے جذبے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ہمارے شہریوں کی وحشیانہ خواہشات کو قابو کرنے والا نفسیاتی اور اخلاقی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ آس پاس کی مسلمان ریاستوں میں ہمارے شہریوں کی رسائی نہیں۔ بھارت میں ہمارے برابر بلکہ کچھ زیادہ مسلمان بستے ہیں، ان کے ساتھ میل جول کی سہولتیں ہمیں حاصل نہیں۔ہم اجتماعی طور پر تنہائی اور حصار بندی میں قید ہیں اور ہمیں سبق دیا جا رہا ہے کہ ہم اپنے تین پڑوسیوں کی سرحدوں پر دیواریں کھڑی کیے رکھیں۔ ایران سے ہمیں خطرہ ہے، افغانستان سے ہمیں خطرہ ہی نہیں ،ہم پر حملے ہو رہے ہیں، بھارت کے ساتھ ہماری سرحدیں مستقل طور سے بند ہیں اور چین کے ساتھ ہمارا سرحدی علاقہ انتہائی دشوار گذار ہے۔کیا ہم قید کی حالت میں نہیں؟کیا اپنے گرد خود ہی دیواریں کھڑی کر کے گھیرے میں آئی ہوئی قوم نارمل ہو سکتی ہے؟ترقی کر سکتی ہے؟چھوٹے سے چھوٹے دشمن کا مقابلہ کرنے کے قابل رہ سکتی ہے؟اپنے انجام کا تصور کر کے تو دیکھئے۔