"NNC" (space) message & send to 7575

یہ کیا ماجرا ہو گیا؟

عام طورسے یہ ہوتا ہے کہ الیکشن جیتنے والے اپنی جیت کا جشن مناتے ہیں اور ہارنے والے‘ دھاندلی کا شور مچاتے ہیں۔ یہ عجیب و غریب الیکشن ہے کہ ہارنے والے بھی رو رہے ہیں اور جیتنے والے بھی۔ قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والی مسلم لیگ (ن) کے لیڈر دھاندلی کے خلاف لگے ہوئے احتجاجی کیمپوں میں نعرے لگا رہے ہیں’’جعلی ووٹ مردہ باد۔ جعلی ووٹر مردہ باد۔ جعلی جیت مردہ باد۔‘‘ عجیب انتخابی نتائج ہیں کہ جس کی حکومت بن رہی ہے‘ وہ بھی رو رہا ہے اور جو حکومت سے نکل گیا‘ اس کے پاس تو رونے کے لئے 5سال پڑے ہیں۔تحریک انصاف نے زندگی میں جو پہلا اصلی الیکشن لڑا ہے‘ اس میں وہ ایک صوبے کی حکومت بٹور بیٹھی۔ وہ بھی رو رہی ہے کہ اس کے ساتھ دھاندلی ہو گئی۔ ایم کیو ایم حسب معمول سندھ اور وفاق میں کولیشن پارٹنر بننے کی پوزیشن حاصل کر چکی ہے۔ وہ کامیاب ہو کر بھی یہی کچھ کر سکتی ہے اور ناکامی کا شور مچا کر احتجاج کر رہی ہے‘ کولیشن میں جانے کا موقع اسے اب بھی مل چکا ہے۔ آپ دو نشستیں کم لے کر کولیشن پارٹنربنیں یا زیادہ لے کر‘ بننا تو کولیشن پارٹنر ہی ہے اور حصے داری پر جھگڑا ہو جائے‘ تو وہ دو چار زیادہ سیٹوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور کم کے ساتھ بھی۔ ایسی صورت میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہتا۔ مگر وہ بھی احتجاج کر رہے ہیں اور تو اور فنکشنل لیگ بھی احتجاج پر ہے۔ بدھو میاں بھی حضرت گاندھی کے ساتھ ہیں گو مشت خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں یہ پارٹی مرحوم پیرصاحب پگاڑا شریف نے شورش کاشمیری کے الفاظ میں ’’جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی‘‘ کی طرح شغل میلے کے لئے ’’گھڑی ‘‘تھی۔ جب فرصت ہوتی‘ اس سے دل بہلاتے اور جن‘ زعما سے وہ سیاسی مذاکرات کرتے‘ وہ تھے شیخ رشید احمد یا اسی طرح کے دیگر بین الاقوامی لیڈر۔ بڑے پیر صاحب جلوسوں‘ دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کے قائل نہیں تھے۔ ایسے لوگوں کا ہمیشہ مزاق اڑاتے۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ اپنی دو اڑھائی سیٹوں کے ساتھ قومی سطح کی اپوزیشن نہیں کر سکتے۔ البتہ قومی سطح کی حکومتوں میں حصے دار ہو سکتے ہیں۔ پیر صاحب نے یہی کیا۔ حکومتوں میں شامل ہونے کا موقع ملا‘ تو ہاتھ سے کبھی جانے نہ دیا اور اپوزیشن میں کارنامے دکھانے کا وقت آیا‘ تو اس کا کبھی فائدہ نہ اٹھایا۔ نظربندی ناگزیر ہو گئی‘ تو حکم دیا کہ انہیں پرل کانٹی نینٹل میں قید کر دیا جائے۔ موجودہ پیر صاحب لگتا ہے کہ کافی سخت جان ہیں۔ فی الحال ان کی سخت جانی کا امتحان تو نہیں ہوا لیکن کیا پتہ؟ وہ سچ مچ سخت جان نکل آئیں۔ مجھے ان کے ہم سفرہونے کا معمولی سا تجربہ ہے۔ میں سانگھڑ میں بڑے پیر صاحب کا مہمان تھا۔ کراچی سے پیرصاحب کا کوئی نیازمند مجھے اپنی کار میں سانگھڑ لے گیا اور وہاں سے پیر صاحب نے مجھے کراچی پہنچانے کے لئے راجہ سائیں کی ڈیوٹی لگائی‘ جو موجودہ پیر صاحب پگاڑا ہیں۔ راجہ سائیں بڑے ہی ملنسار اور مہمان نواز انسان ہیں۔ واپسی کے سفر میں معلوم ہوا کہ سانگھڑ سے کراچی تک جگہ جگہ پیر صاحب کے محلات ہیں‘ جہاں وہ راستے میں تھکن محسوس ہونے پر‘ آرام فرمانے کے لئے رک جاتے ہیں۔ واپسی کے سفر میں جب راجہ سائیں کو محسوس ہوا کہ ریفریشمنٹ کی ضرورت ہے تو کار سفری آرام گاہ کی طرف موڑ دی۔ یہ سفری آرام گاہ بھی ہم جیسوں کے لئے محل سے کم نہ تھی۔ وہاں پر خاطر مدارات کے بہترین انتظامات تھے۔ راجہ سائیں نے بڑی محبت سے تازہ تازہ کباب اور پکوڑوں سے تواضع کی اور ہم کراچی روانہ ہو گئے۔ اس سفر کے علاوہ مجھے راجہ سائیں کے بارے میں پیر صاحب کی ایک بات یاد آ گئی۔ لاہور میں پیر سائیں نے‘ اپنے قیام کے لئے قذافی سٹیڈیم کے قریب گھر لے لیا تھا۔ ایک روز رات گئے وہاں بیٹھے بیٹھے پیر صاحب کی ذاتی زندگی کا ذکر چھڑ گیا۔ اپنے بیٹوں کے بارے میں باتیں کرنے لگے‘ تو مجھ سے رہا نہ گیا اور پوچھ بیٹھا کہ ’’سائیں! آپ اپنی گدی کس کے سپرد کریں گے؟‘‘ سوال کافی گستاخانہ تھا۔ لیکن پیر سائیں بہت ہی زندہ دل اور فراخ دل انسان تھے۔ ان کے چہرے پر سنجیدگی کا ہلکا سا رنگ ابھرا اوراسے مسکراہٹ میں ڈبوتے ہوئے بولے ’’میں نے راجہ سائیں کا سوچ رکھا ہے۔‘‘ پیرصاحب کے نیازمندوں اور مداحوں کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ جب پیر صاحب نے لندن میں رحلت فرمائی‘ تو خبر کے ساتھ ہی تبصرے شروع ہو گئے۔رات کے 2بجے کا وقت تھا۔ جس ٹی وی چینل پر لائیورپورٹ چل رہی تھی‘ اس پر مجھے بھی اظہار خیال کے لئے کہا گیا اور اچانک مجھ سے سوال ہو گیا کہ ’’پیرصاحب کا جانشین کون ہو گا؟‘‘ مجھے پیرصاحب کی بات یاد تھی۔ میں نے بڑے اعتماد سے جواب دیا ’’راجہ سائیں۔‘‘میرے اس انکشاف کے بعد بھی مختلف مبصرین کئی گھنٹے تک قیاس آرائیاں کرتے رہے۔ لیکن سچ وہی نکلا‘ جو میں نے بیان کر دیا تھا۔ بات برسبیل تذکرہ شروع ہوئی تھی لیکن بڑھ گئی۔ وہ بات ہی کیا‘ جو آگے نہ بڑھے؟ بات چل رہی تھی‘ ہارنے جیتنے والوں کے مشترکہ احتجاج اور آہ و بکا کی۔ پیپلزپارٹی سندھ کے سوا‘ سارے صوبوں میں شکست سے دوچار ہوئی ہے اور اگر اس میں کوئی دکھ محسوس کرنے والا ہوتا‘ تو یہ شکست تکلیف دہ بھی تھی۔ لیکن پنجاب میں تکلیف کا اظہار کرنے کے لئے‘ جس قیادت کو آگے آنا چاہیے تھا‘ وہ تو منظوروٹو کے پاس تھی اور وہ ایسے سیاستدان ہیں‘ جنہیں شکست پر دکھ نہیں ہوتا بلکہ شکست کھانے کے بعد‘ ان کے ذہن میں پہلا خیال یہ آتا ہے کہ ’’کس جیتے ہوئے کے ساتھ جائوں؟‘‘ 6دن وہ خاموشی سے ایسا جیتنے والا ڈھونڈتے رہے‘ جو وٹو صاحب کو گلے لگا لے۔ خبر تو میرے پاس نہیں ہے لیکن اندازہ ضرور ہے کہ وٹو صاحب نے نوازشریف سے لے کر عمران خان تک‘ حالات کا جائزہ یقینا لے لیا ہو گا۔ اگر کہیں دال گل جاتی‘ تو وہ رائیونڈ جا کر ن لیگ میں شامل ہونے والوں کی قطار میں لگ جاتے یا شوکت خانم ہسپتال کے باہر گلدستہ لئے انتظارگاہ میں بیٹھے ہوتے۔ لگتا ہے یہ دونوں کام نہیں ہوئے۔ ناچار پریس کانفرنس کرتے ہوئے پائے گئے۔ داد دینے کو دل چاہتا ہے کہ شکست کھانے پر پیپلزپارٹی جیسی جارحانہ مزاج رکھنے والی جماعت کا صوبائی سربراہ ‘لڑائی میں ہارے ہوئے مرغے کی طرح گردن نیوڑائے بیٹھا تھا۔ جن لوگوں نے شکست مسلط ہونے پر بینظیربھٹو شہید کو دھاڑتے ہوئے دیکھا ہے‘ وہ اسی پارٹی کے صوبائی صدر کو اتنی بڑی شکست پر منمناتے دیکھ کر‘ کیا سوچ رہے ہوں گے؟ پریس کانفرنس میں منظور وٹو کی شکل احتجاجی نہیں‘ درخواستی تھی۔ ہے کوئی اللہ کا بندہ؟ جو مجھے بھی ارباب ِاقتدار کی صف میں لے جائے؟ زرداری صاحب نے یوں تو زندگی میں بہت بلنڈر کئے ہوں گے لیکن اپنی پارٹی کے لئے پنجاب کا صدر چنتے ہوئے‘ ان کی نظر کس پر گئی؟ کیا اس سے اچھا مال منڈی میں دستیاب نہیں تھا؟ اس سے تو بہتر ہوتا کہ یہ اعزاز قاضی سلطان محمود کو ہی دے دیا جاتا۔ وہ شکست کھانے میں منظوروٹو سے بہتر پرفارمنس تو شاید نہ دے سکتے لیکن ان کے برابر تو بہرحال رہ جاتے۔ ہو سکتا ہے پیپلزپارٹی کے پرانے کارکن ‘ میری اس بات کا برا منائیں۔ خود میں بھی سوچ رہا ہوں کہ سلطان محمود قاضی ‘منظوروٹوکے معیار کی شکست کھانے میں ناکام ہو سکتے تھے۔ وہ پیپلزپارٹی کی چند یقینی سیٹیں ضرور بچا لیتے۔ثمینہ خالد گھرکی‘ قمرزمان کائرہ‘ نذرگوندل‘ ندیم افضل چن‘ راجہ پرویزاشرف‘ بڑی بڑی آزمائشوں اور حکومتی مخالفتوں کا مقابلہ کر کے‘ برے سے برے حالات میں بھی الیکشن جیتتے رہے ہیں۔ انہیں ہرانے کا کارنامہ صرف منظور وٹو کی زیرقیادت پارٹی ہی انجام دے سکتی تھی۔ ورنہ یہ دشمن کے ہاتھوں مرنے والے نہیں تھے۔ انہیں اپنوں نے مارا۔حالیہ انتخابات کے حیرت انگیز بلکہ عبرتناک نتائج کی کہانی بہت طویل ہے۔ کالم کی جگہ جواب دینے لگی ہے۔ اگلے کالم میں گنجائش ڈھونڈیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں