آج پاکستان کی نگران حکومت‘نئی منتخب قیادت اور 18کروڑ پاکستانی عوام‘ اپنے عظیم پڑوسی‘ آزمودہ دوست اور ہر اچھے برے موسم کے ساتھی ملک‘ چین کے وزیراعظم جناب لی کی شیانگ کا خیرمقدم کر رہے ہیں۔ چین اور پاکستان کی دوستی‘ عالمی برادری کے تعلقات میں ایک عدیم المثال رشتہ ہے‘ جس میں تعلقات کو نبھانے‘ برقرار کھنے اور ان میں اضافہ کرنے کے ذمہ دار دونوں ملکوں کے عظیم عوام ہیں۔ سابق سیکرٹری خارجہ ارشاد احمد خان کہتے ہیں کہ دوسرے بڑے اور امیر ملک‘ ہمارے ساتھ اپنے تعلقات کو حکمرانوں تک محدود رکھتے ہیں۔ ان کا پاکستانی عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جو قرضے وہ پاکستان پر چڑھاتے ہیں اور امداد کے نام پر جو رقوم وہ دیتے ہیں‘ عوام کے لئے نہیں‘ حکمرانوں کی لوٹ مار کے لئے ہوتی ہے۔ حکمرانوں کو لوٹ مار کی سہولتیں مہیا کر کے وہ پاکستان کے مفادات کی قیمت پر‘ اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ قرضے پاکستانی عوام کے سر چڑھتے رہتے ہیں اور بنگلے چک شہزاد‘ اسلام آباد کے پوش سیکٹروں‘ مختلف شہروں میں ڈی ایچ اے‘ بڑے بڑے فارم ہائوسز اور عشرت کدوں کی صورت میں تعمیر ہوتے ہیں۔خلیج کے ملکوں میں جائیدادیں بنائی جاتی ہیں۔ یورپ میں بڑے بڑے کاروبار شروع کر کے‘ عظیم الشان فلیٹ اور فارم ہائوسز خریدے جاتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں بینک اکائونٹ کھولے جاتے ہیں اور کرپٹ اشرافیہ کے طقبے کے ذریعے‘ عوام کے استحصال کا نظام مسلط رکھا جاتا ہے۔ چین ‘ عالمی لوٹ مار کے اس نظام سے لاتعلق ہے۔ خصوصاً پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات عوامی سطح پر ہوتے ہیں اور چینیوں کا یہی طریقہ کار استحصالی ملکوں اور بین الاقوامی کمپنیوں کو پسند نہیں ہے۔ چینی ہمارے ملک میں سڑکیں بناتے ہیں۔ پل بناتے ہیں۔ قدرتی وسائل کی دریافت اور ان کے استعمال میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ دنیا کی بلند ترین سڑک باہمی تجارت اور آمدورفت کے لئے‘ چینیوں نے پاک فوج کے ساتھ مل کر تیار کی‘ جسے عجائبات عالم میں شمار کیا جاتا ہے۔ پاکستانی عوام کے ساتھ اس دوستی کے جرم میں عالمی کمپنیاں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں عوام کی مدد کرنے والے‘ چینی مہمانوں کو وقتاً فوقتاً نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ ان کے انجینئرز کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اغوا کیا جاتا ہے۔ ہراساں کیا جاتا ہے۔ لیکن چینی ہیں کہ پاکستانی عوام کے لئے تعمیروترقی کے کاموں میں‘ دن رات مصروف رہتے ہیں۔ ان کے عزم و ہمت میں ذرا بھی کمی نہیں آتی اور نہ ہی انہوں نے اپنے خلاف ہونے والی دہشت گردی کے واقعات سے ڈر کے‘ پاکستانی عوام کی مدد سے ہاتھ کھینچا ہے۔ چینی اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ انہیں تعمیری و ترقیاتی کاموں سے روکنے والے کون ہیں؟ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کے دشمنوں کا کام ہے اور ہم اپنے دوستوں کی مدد کرنے آئے ہیں۔ ہمارے خلاف مجرمانہ کارروائیاں کرنے و الے‘ پاکستانی عوام کو ہماری دوستی کے ثمرات سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں دو ملکوں کے عوام کی دوستی کو اتنی آزمائشوں سے کہیں نہیں گزرنا پڑا ہو گا‘ جتنا کہ پاکستان اور چین کے عوام کو گزرنا پڑا ہے۔ مگر گزشتہ 60 سال سے دونوں ملکوں کے عوام ‘ ہر امتحان اور آزمائش پر پورا اترتے ہوئے‘ آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اس دوستی کے ثمرات میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے معزز مہمان عوامی جمہوریہ چین کی نئی قیادت میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ہمیں چین کے سیاسی نظام سے غرض نہیں ۔ یہ چینی عوام کا مسئلہ ہے۔ لیکن بطور دوست یہ بات ہمارے لئے تسلی بخش ہے کہ چین نے اپنے نظام کے اندر رہتے ہوئے‘ سیاسی ارتقا کے سفر میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔وہ ثقافتی انقلاب سمیت‘ بڑے بڑے سماجی طوفانوں سے گزرتے ہوئے‘ اپنے سیاسی نظام کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ چین نے باقاعدگی کے ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو انتقال اقتدار کا عمل‘ ہمواری سے جاری رکھا ہے۔ ان کے پالیسی ساز ادارے‘ مستقل اور مضبوط ہیں۔ جو پالیسیاں سابقہ سیاسی قیادت بنا کر جاتی ہے‘ نئی قیادت ان کے بنیادی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے‘ بدلتے وقت کی ضروریات کے مطابق تبدیلیاں کرتی رہتی ہے۔ لیکن بنیادی اصول برقرار رہتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات‘ چین کی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں میں شامل ہیں۔ پاکستان کے ساتھ باہمی تعاون کے جتنے بھی معاہدے ہوتے ہیں‘ ہر آنے والی نئی قیادت نہ صرف گرمجوشی سے ان پر عمل کرتی ہے بلکہ تعاون کے نئے نئے علاقے دریافت کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ پاکستان کی دفاعی استعداد میں اضافے کے لئے چین نے جتنا کچھ ہمارے لئے کیا‘ ہم اسے کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔ اگر آج پاکستان اپنے دشمنوں کی مسلسل جارحیتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے‘ مضبوط اور مستحکم کھڑا ہے‘ تو اس میں ہمارے چینی دوستوں کے تعاون کا بہت بڑا حصہ شامل ہے۔ ہرچند چین کے موجودہ وزیراعظم نے اپنے پہلے بیرونی دورے کے لئے پاکستان اور بھارت کا انتخاب کیا اور اسلام آباد سے پہلے دلی گئے۔ جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ چین نے بھی دوسروں کی طرح بھارت کو فوقیت دی ہے۔ بے شک دوسری بڑی طاقتوں کے لیڈر یہی کرتے رہے ہیں۔ جب انہیں پاکستان کو جھٹکا دینا ہو‘ تو وہ برصغیر کے دورے میں پہلے بھارت اور بعد میں پاکستان آتے ہیں اور جب جھنجھوڑنا ہو‘ تو صرف بھارت کا دورہ کر کے چلے جاتے ہیں‘ پاکستان آتے ہی نہیں۔ لیکن چین کے بارے میں اس طرح کی بدگمانی ہو ہی نہیں سکتی۔ چینی وزیراعظم نے اپنے دورے کی اگر یہ ترتیب رکھی ہے‘ تو اس میں بھی پاکستان کے ساتھ دوستی کا کوئی پہلو ہی مضمر ہے۔ ہمیں چین کو اسی طرح دیکھنا چاہیے۔ گمان یہ ہے کہ چینی وزیراعظم نے اپنے باہمی تعلقات اور خطے کی صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے‘ پاکستان کے بارے میں بھارتی ارادوں کو بھی پرکھا ہو گا اور ہمارے ملک میں آنے سے پہلے‘ وہ یہ اندازہ کر چکے ہوں گے کہ بھارتی حکمرانوں میں پاکستان کے لئے کیا سوچ پائی جاتی ہے ؟ اور اسلام آباد آ کر‘ وہ ہمیں یقینی طور پر اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازیں گے۔ ہمیں یاد ہے کہ بھارت کے ایٹمی تجربات کے بعد ہم نے جوابی دھماکے کئے‘ تو عالمی برادری جو بھارتی دھماکوں پر خاموشی رہی تھی‘ ہماری طرف سے دھماکے ہونے سے ایک دم سراپا احتجاج بن گئی اور ہمارے خلاف پابندیوں کے مطالبات ہونے لگے۔ معاملہ اقوام متحدہ تک گیا۔ پاکستان شدید دبائو میں آ چکا تھا۔ لیکن چین نے پوری طاقت کے ساتھ پاکستان کے خلاف مخالفانہ مہم کا سامنا کیا اور مجوزہ قرارداد کے مسودے میں چند الفاظ شامل کرائے‘ جن کا مفہوم یہ تھا کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکے بھارت کے جواب میں کرنا پڑے اور اس طرح ایٹمی دھماکے کرنے پر ہمیں تنہا کر کے ہدف بنانے کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔ اسی طرح سلامتی کونسل میں نشست حاصل کرنے کی بھارتی کوشش کے راستے میں چین دیوار بنا کھڑا ہے اور اس کا یہ موقف بنیادی طور پر پاکستان کے حق میں جاتا ہے۔ سلامتی کونسل کی رکنیت حاصل کرنے کی بھارتی خواہش صرف اسی وقت پوری ہو سکتی ہے‘ جب وہ تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل پر آمادہ ہو جائے۔ بصورت دیگر تنازعہ کشمیر کی موجودگی میں‘ بھارت کے لئے سلامتی کونسل کی رکنیت حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ ہمارے ہاں بہت کم لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ تنازعہ کشمیر کے معاملے میں‘ بھارت پر ہمارا اس قدر دبائو نہیں رہ گیا کہ اسے اپنی بات منوا سکیں۔ لیکن چین کی دوستی اس معاملے میں بھی ہمیں تقویت دیتی ہے کہ بھارت اس وقت تک سلامتی کونسل کی رکنیت حاصل کرنے میں ناکام رہے گا‘ جب تک وہ تنازعہ کشمیر حل نہیں کر لیتا۔65ء کی جنگ میں جس طرح بھارتی جارحیت سے بچانے کے لئے ‘ چین میدان جنگ میں اترنے کو تیار ہو گیا تھا‘ وہ تو ہماری تاریخ کا ایک ایسا باب ہے‘ جو صدیوں تک دہرایا جاتا رہے گا۔ چین کی بارہا آزمائی ہوئی‘ ناقابل شکست دوستی کی چند مثالیں لکھ پایا ہوں لیکن ہماری دوستی کا یہ سمندر بے شمارمثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ پاک چین دوستی واقعی لازوال ہے۔ یہ دو ملکوں کے عوام کی دوستی ہے۔ حکومتیں آتی رہتی ہیں۔ جاتی رہتی ہیں۔ عوام کی دوستی کے رشتے پھولتے پھلتے رہتے ہیں۔ پاک چین دوستی۔ زندہ باد۔