"NNC" (space) message & send to 7575

عظیم دن کی یادیں

دالبندین ایئرپورٹ پر اترے‘ توشہر کے درودیوار ہمیں مزید حیران کرنے کے لئے تیار تھے۔ جیسے ہی گاڑیوں میں بیٹھ کر ایئرپورٹ سے نکلے‘ تو درودیوار پر ہر طرف ڈاکٹر قدیرخان کی رنگین تصاویر کے پوسٹر لگے تھے۔ ساتھ نوازشریف کی تصویر بھی لگا دی گئی تھی اور ’’ایٹم بم کے خالق‘‘ ڈاکٹر قدیر خان کے اس احسان عظیم پر ان کی تحسین کی گئی تھی کہ انہوں نے تن تنہا پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیربنا دیا۔ باقی دنیا میں کریڈٹ دیئے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بیشتر معاملات میں کریڈٹ خریدے جاتے ہیں۔ اس کی مثال پاکستان کا ایٹم بم ہے۔ میں کل عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت میں بے شمار لوگوں کا حصہ ہے۔ اس کی ابتدا ذوالفقار علی بھٹو سے ہوتی ہے اور تکمیل نوازشریف کے ہاتھوں ہوئی۔ درمیانی عرصے میں پاکستان کے ہر سربراہ مملکت نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ ضیاالحق اپنے دور میں اس کام کو آگے بڑھاتے رہے۔ ان کے بعد غلام اسحق خان آئے‘ انہوں نے بھی یہی کیا اور نوازشریف آئے‘ تو انہوں نے اس عظیم کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ڈاکٹر قدیر کی اس خدمت کا سب اعتراف کرتے ہیں کہ وہ یورینیم کو افزودہ کرنے کی ٹیکنالوجی پاکستان میں لائے اور مقامی سائنسدانوں کو اس کی تربیت دی اور مطلوبہ مقدار میں یورینیم افزودہ کر کے‘ بم ساز ٹیم کے سپرد کر دیا۔ مگر بم ڈاکٹر صاحب کی لیبارٹری میں نہیں بنا تھا۔ بم علیحدہ فیکٹری میں تیار کیا گیا۔ یہ کام ایک دوسری ٹیم نے انجام دیا۔ ڈاکٹر صاحب کو آڈٹ کے بغیر جو وافر فنڈز مہیا کئے گئے تھے‘ ڈاکٹر صاحب نے ان کا ایک بڑا حصہ اپنی تشہیر پر صرف کیا۔ میڈیا کے کچھ لوگ شیشے میں اتارے گئے۔ انہوں نے یہ ڈیوٹی ایسے انداز میں انجام دی‘ جیسے وہ سب کچھ ڈاکٹر صاحب کی عقیدت میں کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو ہیروبنانے کی مہم پر جتنے بھی لوگ مامور تھے‘ انہیں پیشہ صحافت سے وابستہ تمام قابل ذکر لوگ جانتے ہیں کہ انہیںکسی سے بھی مفت کی عقیدت نہیں ہوتی۔ انہی لوگوں نے ڈاکٹر صاحب کو خطابات سے نوازا اور انہیں پاکستانی ایٹم بم کا خالق ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اسی شہرت کی بنا پر ڈاکٹر صاحب نے سماجی سرگرمیاں شروع کر دیں اور بم کے خالق کے منصب پر زبردستی براجمان ہو کر بیٹھ گئے۔ خودتراشیدہ‘ مصنوعی عزت و احترام کے لبادے میں‘ انہوں نے ایٹمی رازوں کا جو اتوار بازار لگایا‘ اس کی تفصیل دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں کے پاس موجود ہے۔ امریکہ اس کارستانی کی تحقیقات کے لئے ڈاکٹر صاحب کو اپنی تحویل میں لینا چاہتا تھا۔ لیکن جنرل پرویزمشرف نے ‘ امریکہ کو اپنی خدمات کا واسطہ دے کر کہا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو تحویل میں لینے کی ضد چھوڑ دے‘ وہ انہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے علیحدہ کر دیتے ہیں اور جو معلومات ڈاکٹر صاحب سے مطلوب ہیں‘ وہ پاکستانی ایجنسیوں کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس سلسلے میں کیا کچھ کیا گیا؟ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی جان بچا لی گئی۔ ڈاکٹر قدیر نے ایک قابل قدر کام کر کے‘ اس سے کہیں زیادہ فوائد حاصل کئے۔انہیں بے حساب دولت دی گئی‘ جو غریب پاکستان کے خون پسینے کی کمائی تھی۔ انہیں سربراہ مملکت جیسی پروٹوکول اور مراعات دی گئیں۔ انہیں دنیا بھر میں خرچ کرنے کے لئے بے حساب زرمبادلہ دیا گیا۔ مگر وہ اس پر بھی مطمئن نہ ہوئے اور ایٹمی رازوں کا اتوار بازار لگا دیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان پوری دنیا میں بدنام ہوا۔ حتیٰ کہ ہمارے ایٹمی اثاثے تک خطرے میں آ گئے۔ پاکستانی قوم نے کسی دوسرے ملک سے ایک ایٹمی راز لے کر آنے کے عوض جو کچھ ڈاکٹر صاحب کے قدموں میں نچھاور کیا‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایٹم بم اور یورینیم کی افزودگی کے حقیقی موجدوں کو بھی‘ وہ کچھ نہیں ملا ہو گا‘ جو کچھ ڈاکٹر صاحب کو دے دیا گیا۔ اس کے باوجود ان کی خواہشیں پوری نہ ہوئیں۔ ایک عرصے سے وہ سربراہ مملکت کا منصب مانگ رہے ہیں اور جو ان کی خواہش پوری نہیں کرتا‘ اس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ کل یوم تکبیر پر انہوں نے نوازشریف کو بھی معاف نہیں کیا اور جب پوری قوم انہیں خراج تحسین پیش کر رہی تھی‘ تو ڈاکٹر صاحب بیان جاری فرما رہے تھے کہ ’’ایٹمی دھماکہ کر کے نوازشریف نے کوئی احسان نہیں کیا۔ ‘‘ وہ اپنی ذاتی خواہشات پر کسی کی بھی عزت‘ شہرت اور وقار کو داغدار کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے نوازشریف اب کارگل کے ساتھ ساتھ‘ ڈاکٹر صاحب کی خفیہ سرگرمیوں کی تحقیقات کا حکم بھی جاری کر دیں۔ پہلے تو میڈیا کے ان حواریوں کو پکڑیں‘ جنہوں نے انہیں محسن پاکستان بنانے کی کوشش کی اور تحقیق کریں کہ انہیں معاوضے میں کتنے فنڈز دیئے گئے؟پاکستان کے ایٹمی رازوں سے ڈاکٹر صاحب نے عالمی بازار میں کتنا کچھ کمایا؟ اس کی رپورٹیں تمام بڑی خفیہ ایجنسیوں کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ پاکستان کے طلب کرنے پر یہ رپورٹیں دستیاب ہو سکتی ہیں۔ پرویزمشرف کے زمانے میں‘ پاکستانی ایجنسیوں نے ان سے جو اعترافات حاصل کئے‘ وہ بھی ریکارڈ پر ہوں گے۔ وقت گزرنے کے بعد ملک و قوم کے مفاد کے خلاف کی گئی حرکات کا ریکارڈ بہرحال سامنے آنا چاہیے۔ ہم صحافیوں کے کھانے اور ہوٹل میں قیام کرنے کے اخراجات شائع ہو سکتے ہیں‘ تو اربوں روپے کی قومی رقوم اور قومی رازوں سے کمائے گئے بے شمار ڈالروں کی تفصیل کیوں سامنے نہیں لائی جا سکتی؟ کارگل کے واقعات نے اگر پاکستان اور بھارت میں امن کی کوششوں کو پیچھے دھکیلا‘ تو ڈاکٹر صاحب کی سرگرمیوں کی وجہ سے‘ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی کئی بار خطرات کی زد میں آیا۔ یہ دونوں معاملات ہی تحقیق طلب ہیں۔ چاغی پہنچ کر‘ ایٹم بم کے خالق کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوئیں۔ جب ہم بم کی تجربہ گاہ یعنی سرنگ کے اندر گئے‘ تو وہاں پر رہنمائی کے فرائض ڈاکٹر اشفاق اداکر رہے تھے۔ ڈاکٹر قدیر کے لئے یہ سرنگ بھی اسی طرح ان دیکھی تھی‘ جیسی ہمارے لئے۔ وہ قدم قدم پر بچنے کی کوشش کرتے ہوئے چل رہے تھے۔ انہیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ کہاں پر کیا ہوا ہو گا؟ اور نہ ہی انہیں یہ پتہ چلا کہ بم کی تنصیب کہاں پر ہوئی تھی؟ تجربہ گاہ کہاں سے بند کی گئی تھی؟ یہ سب کچھ ڈاکٹر اشفاق بتا رہے تھے اور ڈاکٹر صاحب ہماری ہی طرح یوں سن رہے تھے‘ جیسے انہیں پہلی بار پتہ چلا ہو۔ سرنگ سے نکل کر ہم مانیٹرنگ ہال میں گئے۔ وہاں دنیا کے جدید ترین کمپیوٹرز نصب تھے‘ جو ایٹمی تجربے کے مختلف پہلوئوں کی ریکارڈنگ کر کے‘ الگ الگ رپورٹ بناتے ہیں۔ یہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ایسے کمپیوٹر نہ صرف یہ کہ عالمی منڈی میں دستیاب نہیں بلکہ ان کی خریدوفروخت پر بھی کڑی پابندیاں اور پہریداریاں ہیں۔ پاکستان نے یہ سب کچھ کیسے حاصل کیا؟ یہ وہی گمنام لوگ جانتے ہیں‘ جنہوں نے یہ کارنامے انجام دیئے اور کئی بیچارے تو ایٹمی آلات کے حصول کی کوشش میں پردیس کی جیلوں اور اذیت گاہوں میں بھی چلے گئے۔ یہ گمنام لوگ ہمیں ایٹمی طاقت بنانے کے جرم میں خدا جانے کیسی تکالیف سے گزرے ہوں گے؟ ہمارے ایٹمی پروگرام کے یہ گمنام محسن بھی شکریئے کے مستحق ہیں۔ اب مانیٹرنگ ہال کی سنیئے! وہاں نصب کمپیوٹروں اور دیگر پیچیدہ آلات کے بارے میں ڈاکٹرثمرمبارک مند وزیراعظم کو بریفنگ دے رہے تھے۔ اس بریفنگ کو ہم سب کی طرح ڈاکٹرقدیرخان بھی غور سے سن رہے تھے۔ جس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ سب کچھ بھی پہلی مرتبہ ان کے علم میں آ رہا ہے۔ میں نے چاغی میں جو کچھ دیکھا‘ اس کے بعد تو مجھے یقین ہو گیا کہ ڈاکٹر صاحب کا حصہ صرف یورینیم کی افزودگی تک ہے‘ بم بنانے کے کام میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ایک اور بات کی وضاحت کر دوں کہ جب پاکستان کا ایٹمی پروگرام تکمیل کے قریب پہنچا‘ تو ایسے بہت سے دعویدار پیدا ہو گئے‘ جو کہتے تھے کہ اس کام میں ہم نے بھی پاکستان کی مدد کی ہے۔ جب میں نے نوازشریف سے ان دعوئوں کے بارے میں دریافت کیا‘ تو ان کا جواب تھا ’’ہمارے ایٹمی پروگرام کا ایک ایک پیسہ پاکستان کے خزانے سے خرچ ہوا ہے۔ اس طرح کے تمام دعوے غلط اور بے بنیاد ہیں۔‘‘مناسب ہوتا کہ یوم تکبیر کی نسبت سے وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں پھیلائے گئے شکوک شبہات پر ایک تحقیقی کمیشن قائم کریں‘ جو تمام جھوٹے دعوئوں اور جھوٹی رپورٹوں کی حقیقت معلوم کر کے ‘پاکستانی عوام اور دنیا کے سامنے لائے۔ گزشتہ روز مجید نظامی صاحب کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا وہ درپیش صورتحال سے متعلق تھا۔ جب نظامی صاحب نے دھماکے کی بات کی اس وقت معاملات بہت آگے بڑھ چکے تھے۔ البتہ نوازشریف نے حکمت عملی کے تحت واضح پوزیشن نہیں لی تھی۔ نظامی صاحب کی تجویز پر بعد میں نوازشریف کا یہ کہنا کہ انہوں نے نظامی صاحب کے کہنے پر ایسا کیا تھا‘ غلط بھی نہیں لیکن جو واقعات میں نے لکھے ہیں وہ بھی حقائق کے مطابق ہیں۔ بہرحال میں نظامی صاحب سے بصد ادب معذرت خواہ ہوں کہ ان کی دل آزاری ہوئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں