آج نئی قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں معرض وجود میں آگئیں۔ایسے مناظر جمہوری ملکوں میں ہر الیکشن کے بعد دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے لے کر آج کی قومی اسمبلی تک، پاکستان کی سیاسی تاریخ کا شاہد رہا ہوں۔یہ کوئی مجھ سے پوچھ کر دیکھے کہ میرے لئے گزشتہ اسمبلیوں کا اپنی مدت پوری کر کے، آئین کے تحت خوش اسلوبی سے رخصت ہونا اور نئے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی اسمبلیوں کا پر سکون اور خوشگوار ماحول میں قائم ہو جانا کتنا بڑا،حیران کن،بلکہ خوابیہ واقعہ ہے۔یہاں کیا کیا نہیں ہوتا رہا؟راتوں رات اچانک اسمبلیاں ٹوٹیں، راتوں رات نئی بنا دی گئیں۔کھڑے کھڑے ایک پارٹی کی حکومت ٹوٹی، اسی پارٹی کے اراکین نے ایک نئی پارٹی بنائی اور اگلے روز’’ نئی‘‘ حکومت بنا لی۔ جتنے ڈکٹیٹر آئے، انہو ں نے اپنی اسمبلیاں بنائیں لیکن انہیں بھی وہ پوری مدت نہ دے سکے۔ ایک ڈکٹیٹر ،الیکشن کے بعد اسمبلیاں نہ توڑ سکا تو اس نے ملک توڑ دیا اور دوسرے ڈکٹیٹر نے ڈنڈے کے زور پر ایک پٹھو اسمبلی کی مدت پوری کرائی تو پارٹی بھی خفا ہو گئی اور ڈکٹیٹر صاحب بھی چلتے بنے۔کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک منتخب حکومت اپنا عرصہ اقتدار پورا کر پائی ہو اور ایک غیر جانبدار عارضی حکومت نے انتخابات کرائے ہوں اور جمہوری اقدار کے مطابق پر امن اور آئینی انتقال اقتدار ہو گیا ہو۔قوموں کی زندگی میں اچھے اور برے دن آتے رہتے ہیں۔ مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، تکالیف اٹھانا پڑتی ہیں مگر جب اقدار سے محروم ہونا پڑے تو ایسی اذیت ہوتی ہے، جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ جمہوری عمل میں آپ کا بنتا کچھ نہیں۔ آمدنی وہی رہتی ہے، جس کی آپ کی معاشی حالت اجازت دے۔آرام و آرائش اتنا ہی ملتا ہے جو قومی وسائل کے اندر مل سکتا ہے۔ زندگی جوں کی توں رہتی ہے جیسے عید کا دن باقی دنوں کی طرح ہوتا ہے، وہ آپ کو خوشیاں بہت دیتا ہے ، تسکین دیتا ہے، محبتیں بانٹنے کے اتنے مواقع دیتا ہے جو ہر دن، نہیں ملتے۔یہی کیفیت جمہوریت کی ہے۔وہ آپ کو امیدیں دیتی ہے۔ جمہوریت میں آپ خواب دیکھ سکتے ہیں اور اگر قیادت صحیح مل جائے تو خواب پورے بھی ہو جاتے ہیں۔یہ خواب دیکھنے کی صلاحیت کا برقرار رہنا اور خوابوں کو پورا کرنے کے حوصلے ملنا اور امیدوں کا زندہ رہنا، جمہوریت کی برکات ہوتی ہیں۔گزشتہ حکومت کی کارکردگی بے حد مایوس کن تھی لیکن اس نے بھی قومی یکجہتی اور بین الصوبائی تعلقات میں بہتری کیلئے جتنا کچھ کر دیا، وہ کسی آمرانہ حکومت کے بس کی بات نہیں تھی۔وہ نا اہل حکومت بھی ہمارا آئین ہمیں واپس دے گئی۔ہماری جمہوریت کو قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہی اور خوش نصیبی سے اپوزیشن کی قیادت نواز شریف کے ہاتھ میں تھی۔انہیں قبل از وقت حکومت کو ہٹانے کیلئے کیا کیا ترغیبات نہ دی گئیں؟اقتدار کا کیا کیا لالچ نہیں دیا گیا۔ سیاسی مخالفین کو حکومت سے نکال باہر کرنے کیلئے کیسی کیسی ،حوصلہ افزائی نہیں کی گئی لیکن نواز شریف ایک بات پر اڑے رہے کہ میں قبل از وقت اسمبلیاں توڑنے میں کسی کا مدد گار نہیں بنوں گا اور جہاں تک ممکن ہوا میں جمہوریت اور اسمبلیوں کا تحفظ کروں گا۔پاکستان میں اقتدار کا کھیل بہت گندے طریقے سے کھیلا گیا ہے۔ اس میں نہ تہذیب و اخلاق کا پاس رکھا گیا نہ اصولوں کا خیال اور نہ ہی جمہوری روایات کا احترام۔ اقتدار جیسے بھی، جس طریقے سے بھی اور جس بے حیائی کیساتھ لینا پڑا، لینے والوں نے ذرا تامل نہ کیا۔یہ بھی پہلا موقع ہے کہ حکمران جماعت نے ایک سے بڑھ کر ایک غلطی کی ۔ یوں کہئے کہ مخالفین کو دعوتیں دیں کہ وہ چاہیں تو حکومت کو ایوان اقتدار سے نکال دیں لیکن نوازشریف نے نہ تو نا م نہاد ہمدردوں کی دعوتیں قبو ل کیں اور نہ ہی مخالف سیاسی جماعت کی طرف سے پیش کی گئیں ترغیبات کو خاطر میں لائے۔صدر آصف زرداری اور نواز شریف دونوں، اس بات پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے قومی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسمبلیوں کی مدت پوری کیں۔ انتخابات میں حصہ لیا اورنئی اسمبلیاں بخیر و عافیت قائم کرانے میں کامیاب رہے۔صد شکر کہ مجھے اپنی زندگی میں اتنے خوبصورت دن دیکھنے کا موقع ملا۔میں اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کروں ، کم ہے۔اب میں مستقبل کے پاکستان کا خواب دیکھ سکتا ہوں۔ میرے لئے یہی بڑا انعام ہے ورنہ میں تو ڈر گیا تھا کہ اچھے دنوں کے خواب دیکھنے کا موقع بھی آئے گا یا نہیں؟ انتخابات میں کامیاب ہونے والے نمائندوں سے مجھے ایک شکایت بھی ہے کہ انہوں نے عوام کے اس جذبے، محبت، امیدوں اور تمنائوں کا خیال نہیں کیا، جن کے تحت انہوں نے تمام خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے بہادری کے ساتھ گھروں سے باہر آکر ووٹ ڈالے۔دہشت گردوں کی طرف سے دھمکیاں دی گئیں تھیں کہ جو کوئی ووٹ ڈالنے کیلئے گھر سے باہر آئے گا، وہ اپنی زندگی اور موت کا خود ذمہ دار ہوگا۔بم دھماکوں کے پیغامات پھیلائے گئے۔لوگوں کے دروازوں پر پوسٹر لگائے گئے کہ اگر وہ جان کی خیر چاہتے ہیں توپولنگ کے دن گھروں سے باہر مت نکلیں۔عام آدمی کیلئے دہشت گردوں کی ایسی دھمکیاں خطرناک ہوتی ہیں اور پھر دہشت گرد بھی ایسے، جو تباہ کاری کے سلسلے میں اپنی کارکردگی کا تواترسے ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ کامیاب امیدواروں کو یہ اندازہ ہے؟ کہ انہیں اسمبلیوں میں پہنچانے کیلئے لوگ اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر پولنگ اسٹیشنوں پر گئے۔انہوں نے مسلح دہشت گردوں کو نہتے رہ کر شکست دی۔یہ عوام امن و امان کو ترسے ہوئے ہیں۔کرپشن سے بیزار ہیں۔بیماریوں سے تنگ ہیں۔بے روزگاری سے اکتائے ہوئے ہیں۔لوڈشیڈنگ سے بے خوابی کے شکنجے میںجکڑے ہیں۔ انکی زندگی کے معمولات بگڑ چکے ہیں۔ہسپتالوں میں بیماروں کو چین نہیں ملتا۔ سکولوں میں بچے پسینے سے شرابور پڑھائی کرتے ہوئے تڑپتے ہیں۔اپنے سارے مسائل کو حل کرانے کیلئے عوام نے ووٹ ڈالے۔ منتخب نمائندوں کیلئے یہ جشن کا نہیں، فکر مندی کا دن تھا۔اس بوجھ کو محسوس کرنے کا دن تھا جو عوام نے ان کے کندھوں پر رکھ دیا ہے۔ان امیدوں کو مضبوطی دینے کا دن تھا جو زندگی کی مشکلات سے تنگ آئے ہوئے عوام نے اپنے نمائندوں سے لگا رکھی ہیں۔عوام کی امیدیں یہ ہیں کہ منتخب نمائندے اپنی ذمہ داریوں کی نزاکت کو محسو س کرتے ہوئے، ثابت کریں گے کہ وہ اپنے عوام کی تکالیف پر فکر مند ہیں۔ وہ روزاول ہی سے احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثابت کریں گے کہ انہیں عوام کی فکر ہے۔وہ خود اپنی مثالیں قائم کریں گے۔ بیورو کریسی کو پیغام دیں گے کہ اس مرتبہ وہ کچھ کر کے دکھانے آئے ہیں۔معز ز منتخب اراکین کی طرف سے بہترین پیغام یہ ہوتا جو وہ اسمبلیوں میں بر وقت حاضر ہو کر اپنے عوام کو پہنچاتے لیکن مجھے یہ دیکھ کر ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی کہ اب تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے جتنے بھی افتتاحی سیشن ہوئے ،وقت پر شروع نہیں ہو سکے۔بلوچستان اسمبلی آج شام کو بیٹھ رہی ہے ۔یہ ملک کی سب سے چھوٹی اسمبلی ہے ،شائد اس کا افتتاحی اجلاس بر وقت ہو جائے لیکن اگر وہ بھی دوسرے بھائیوں کی طرح تاخیر سے بیٹھی تو منتخب اراکین کی طرف سے پہلا پیغام تو غیر ذمہ داری کا ہے۔کہتے ہیں کہ جسے عوام کی طرف سے بڑی ذمہ داری دی جاتی ہے اسے مثالوں کے ذریعے دوسروں کو بتانا پڑتا ہے کہ عمدہ کارکردگی کس طرح دکھائی جاتی ہے؟اورعمدہ کارکردگی کی پہلی نشانی کام کو وقت پر شروع کرناہے۔ اس کے بعد ان کی تشکیل دی گئی حکومت، جب سرکاری ملازمین کوصحیح وقت پر د فتروں میں حاضر ہونے کا حکم دے گی تو اسے مانا بھی جائے گا لیکن جو نمائندے خود وقت پر اتنی بڑی قومی ذمہ داری کے لئے اسمبلیوں میں حاضر نہ ہو سکیں وہ دوسروں کو اچھی کارکردگی کی ہدایت کیسے دے سکتے ہیں؟سچی بات ہے ہمارے منتخب نمائندے پہلے امتحان میں تو پاس نہیں ہو سکے۔ہمارا کچھ نہیں بگڑے گا ، ہم تو اسی طرح کے نمائندوں کو بھگتتے آئے ہیں، انہیں بھی بھگت لیں گے لیکن خدا نے احساس ذمہ داری کے مظاہرے کا جو موقع انہیں دیا تھا، اس کا فائدہ اٹھا کر یہ عوام کو کوئی نیا پیغام دینے میں کامیاب نہیں رہے۔اگر آگے چل کر بھی یہی ہونا ہے تو آئیے بے بسی کے ساتھ دعا کیلئے ہاتھ اٹھائیں۔