"NNC" (space) message & send to 7575

ایک تجزیہ

2008ء سے پاکستان میں جمہوریت نے جو نیا موڑ کاٹا ہے‘ امید کی جاتی ہے کہ اب سفر کی سمت کا نہیں بدلے گا۔ قوم اسی پر گامزن رہے گی۔ راستہ بدلا‘ تو سب کچھ بدل جائے گا۔ میں اس راستے کی طرف اشارہ بھی نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے صرف روشن راستہ دیکھنے کی مہلت ہے۔ دوسرا راستہ دیکھنے کے لئے‘ نہ میرے پاس عمر ہے اور نہ حوصلہ۔ مجھے وہی راستہ دیکھنے دیجئے‘ جو سامنے دکھائی دے رہا ہے اور اس راستے پرمجھے دو قافلہ سالار دکھائی دے رہے ہیں۔ سب سے نمایاں نوازشریف اور اگر کوئی برا نہ منائے‘ تودوسرے عمران خان۔ دونوں کے بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ عظیم قائدین کی صف میں نہیں آتے۔ ہو سکتا ہے انہیں برا لگے۔ مگر میرے سامنے عظیم قائدین کا انجام ہے اور میں نہیں چاہتا کہ ان دونوں کا انجام ایسا ہو۔ کس کس کا ذکر کروں؟ مہاتما گاندھی! گولی کھائی۔ چرچل!جنگ جیتی اور الیکشن ہار گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو! شکست خوردہ ملک کو سنبھالا اور پھانسی چڑھ گئے۔ سوئیکارنو! ان گنت جزیروں کو جوڑ کے‘ ایک عظیم ملک بنایا اور ذلت کی معزولی سے دوچار ہوئے۔ جمال ناصر! شکست کے اندوہ میں ڈوب گئے۔ بن بیلا! جنگ آزادی میں کامیاب ہو کے‘ شورش آزادی کی نذر ہو گئے۔ شاہ فیصل! سعودی عرب کی غیرت کی آواز بنے اور گھر کی گولی ان کی جان لے گئی۔ گنتی کرنے لگوں‘ تو کالم کی جگہ جواب دے جائے گی۔ صرف اشارے کئے ہیں‘ میرا خیال ہے نوازشریف اور عمران خان سیاسی ہیرو بننے سے گریز کریں گے۔ سیاسی ہیرواپنا نام تو بنا لیتے ہیں مگر قوموں کو دشت بے کنارمیں ‘ بے سہارا اور بے قیادت چھوڑ جاتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ تجربات‘ مصائب اور آزمائشوں کی بھٹی میں کندن بنے ہوئے لیڈر‘ ہیرو بنیں۔ ہیرو‘ جیٹ کی طرح ہوتے ہیں۔ اڑتے ہیں اور اتنا اوپر کہ زمین سے واسطہ نہیں رہتا اور گرتے ہیں تو یوں کہ زمین تک پہنچ نہیں پاتے۔ صرف راکھ گرتی ہے۔ لیڈروں کو ہمیشہ زمین کے اوپر یا زمین کے قریب رہنا چاہیے اور میری یہی خواہش ہے کہ ہمارے لیڈر‘ ہمارے ساتھ رہیں۔ ہمارے درمیان رہیں۔ ہمارے قریب رہیں۔ نہ ہم سے آگے پیچھے اور نہ اوپر نیچے۔ نہ اتنا اوپر کہ انہیں دیکھتے ہوئے ہماری ٹوپیاں گر جائیں اور نہ اتنا نیچے کہ وہ ہمیں حقیر لگیں۔ وہ سر اٹھائے بغیر‘ نگاہوں کی اونچائی تک رہیں اور انہیں دیکھنے کے لئے سر جھکانے کی ضرورت نہ پڑے۔ مجھے غم ہے کہ میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی طاقت‘ پیپلزپارٹی کو مستقبل قریب میں کسی قیادت کے بغیر دیکھ رہا ہوں۔ بچے چھوٹے ہیں اور قیادت پر فائز شخصیت زمانے کے تقاضوں اور معیاروں پر پوری نہیں اترتی۔ میرا اشارہ اپنے دوست آصف زرداری کی طرف ہے۔ قدرت نے ان کے ذمے ایک عبوری کام لگایا تھا۔ اگر وہ لیڈر ہوتے‘ تو اپنا کام اتنے سلیقے اور ہنرمندی سے انجام دیتے کہ آنے والے دو انتخابات میں‘ کسی کو ان کے برابر کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہ ملتی۔ میں یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہوں کہ آصف زرداری نے قومی زندگی میں تاریخ ساز کارنامے انجام دیئے۔ لیکن اپنے کارناموں کو بے توقیر کر دیا۔ انہوں نے جو بھی وزرائے اعظم اور وزیرچنے‘ پاکستانی تاریخ کے بدترین لوگ ثابت ہوئے۔ ہمارے سیاستدانوں میں بہت کم ایسے ہیں‘ جو کرپشن سے محفوظ رہے ہوں۔ میں سب کے بھید جانتا ہوں۔ نام نہاد بوریا نشینوں کا بھی مجھے پتہ ہے اور اہل زہد کا بھی۔ جس کا دامن صاف ہے‘ وہ نمایاں نہ ہو سکا اور جو نمایاں ہو گیا‘ اس کا دامن صاف نہیں رہا۔ لیکن جتنے پھوہڑ پن سے آصف زرداری کے ساتھیوں نے کرپشن کی‘ اسے چھپانا کسی کے بھی اختیار میں نہیں۔ یوں لگتا تھا کہ یہ لوگ وزارتوں پر فائز نہیں ہوئے‘ بسوں کے اڈوں پر بھتے وصول کرنے بیٹھے ہیں۔ اگر وزارتی دفاتر میں بیٹھ کربھتے وصول کئے جائیں‘ تو ایسی حکومت کے کارناموں پر نظر کس کی جاتی ہے؟ میں آصف زرداری کو پاکستان کے بدنصیب لیڈروں میں شمار کرتا ہوں‘ جنہوں نے تاریخ ساز کارنامے انجام دیئے اور اس کے صلے میں عزت کے بجائے‘ رسوائی کمائی۔ صرف چند اشارے کروں گا۔ پاکستان کا پہلا آئین ٹوٹنے کے بعد‘ دوسری بار مکمل اوراتفاق رائے کے ساتھ آئین بحال کرنے کا کارنامہ آصف زرداری نے انجام دیا۔ صوبائی خودمختاری کا دیرینہ سوال ‘ جو پاکستان کی بنیادوں میں بارود کی طرح رکھا ہوا تھا‘ اسے ختم کر کے‘ وفاق کی بنیادیں ناقابل شکست کر دیں۔نیشنل فنانس کمیشن میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مالیاتی تقسیم کا نظام اتفاق رائے سے منظور کرا کے‘ مستقبل میں آنے والے تمام جھگڑے ختم کر دیئے۔ عدلیہ کو مکمل آئینی خودمختاری دے دی۔ یہ وہ کام ہیں‘ جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک کوئی لیڈر نہیں کر سکا۔ مگر جب میں دیکھتا ہوں کہ اتنے بڑے کارنامے انجام دینے کے بعد بھی آصف زرداری اتنی عزت بھی نہیں کما سکے جو سکوائش کے لیڈر ہاشم خان نے کمائی‘ تو مجھے دکھ ہوتا ہے۔اس لئے جب مستقبل کے لیڈروںکا تصور کیا‘ تو مجھے ان میں آصف زرداری کی جگہ تلاش کرنے میں‘ مشکل پیش آئی۔ہو سکتا ہے کوئی معجزہ ہو جائے اور وہ عمران خان کو پیچھے دھکیل کر آگے آ جائیں۔ لیکن فی الوقت اس کا امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ رہ گئے بچے! تو ان کے پاس شہیدوں کی گنتی اور ماتم کے سوا کچھ نہیں۔ ماتم کے لئے مجلسیں تو برپا ہو سکتی ہیں‘ حکومتیں نہیں بنائی جا سکتیں۔ ہمارے پڑوس میں قربانیوں اور شہادتوں کی ریکارڈ ہولڈر فیملی کا ایک سپوت ‘ آخرکار خاندانی ریکارڈ سے بیزار ہو گیا ہے۔ راہول گاندھی‘ اس لئے شادی نہیں کر رہا کہ خاندانی حکمرانی کے عذاب سے نجات مل جائے اور خود بھی باربار پیش کی جانے والی وزارت عظمیٰ کے تپتے لوہے کو ہاتھ لگانے سے ڈرتا ہے کہ اسے اپنے باپ اور دادی کی خون میں ڈوبی ہوئی لاشیں نظر آتی ہیں۔ اقتدار کا کھیل‘ آصف زرداری کے لئے تو دلفریب ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے باپ‘ دادا‘ بہن بھائی یا قریبی عزیزوں میں سے‘ کسی کو بھی اپنے خون میں ڈوب کر دنیا سے نہیں جانا پڑا۔ لیکن بے نظیر کے بچوں کو یہ آسودگی حاصل نہیں۔ ان کی عظیم والدہ کو خون میں نہانا پڑا۔ ان کے نانا کو پھانسی چڑھنا پڑا۔ ان کے دو ماموں فطری موت سے محروم رہے۔ وہ جب گڑھی خدا بخش کی قبروں پر جاتے ہیں‘ تو ان کے آنسو اور ہوتے ہیں اور آصف زرداری جب گڑھی خدابخش کی قبروں پر جاتے ہیں‘ تو ان کے آنسو اور ہوتے ہیں۔ مجھے ان مختلف اور متضاد آنسوئوں میں وہ رشتہ دکھائی نہیں دیتا‘ جس کے اندر سے قیادت کی طاقت جنم لیتی ہے۔ اس لئے مجھے پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی طاقت یعنی پیپلزپارٹی ‘ آنے والے چند برسوں میں قیادت کے انعام سے محروم نظر آتی ہے۔ اصل سیاسی مقابلہ نوازشریف اور عمران خان کے مابین ہو گا۔ نوازشریف کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں حقیقی چیلنج کرنے والے حریف نہیں ملے۔ اس میں ان کا کوئی کمال نہیں۔ بھٹو صاحب کو ضیاالحق نے پھانسی لگا دیا۔ بے نظیرشہید کو قاتلوں نے گولیوں کا نشانہ بنا کرراستے سے ہٹا دیا۔ آصف زرداری تاریخ ساز کارنامے انجام دے کر بھی‘ کرپشن کی رسوائیوںسے زخمی ہو گئے اور قدرت کا نظام دیکھئے کہ عمران خان اپنی فتح کے قریب پہنچ کر‘ بستر سے آ لگے۔ لیکن ایک سیاسی حریف کے طور پر قدرت نے انہیں بہت بڑا مقام عطا کر دیا۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ کرکٹ کی جس ٹیم کے ساتھ‘ انہوں نے فتوحات حاصل کیں‘ وہ احکامات کی پابند ہوا کرتی تھی۔ مگر سیاسی ٹیم‘ صلاح مشورے کی بنیاد پر مضبوط ہوتی ہے۔ ڈسپلن میں اختلاف رائے ناقابل برداشت ہوتا ہے اور سیاست میں اختلافِ رائے لازمی ضرورت ہے۔ عمران خان سیاسی ٹیم کے ساتھ قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے میںابھی تک اچھی مثال قائم نہیں کر سکے۔ جبکہ نوازشریف ‘ سیاسی ٹیم کی قیادت کرنے میں شاندار صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان دونوں کا مقابلہ کیسا رہے گا؟ اس کے بارے میں اپنی رائے آپ خود قائم کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں