گورنرہائوس کے وسیع لان میں‘ اپنی پارٹی کے سینکڑوں کارکنوں‘منتخب اراکین اسمبلی‘ افسروں کی فوج ظفرموج اور میڈیا کے سامنے‘ شہبازشریف تیسری مرتبہ وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھاتے ہوئے ایک ریکارڈ برابر کر رہے تھے۔وہ تھا میاں منظور وٹو کا تین مرتبہ پنجاب کا وزیراعلیٰ بننا۔ یوں تو پرانے ریکارڈ توڑتے یا برابر کرتے ہوئے خوشی ہوتی ہے۔ لیکن شہبازشریف یقینا اپنے ریکارڈ پر پشیمان ہوں گے کہ برابری بھی ملی تو کس کے ساتھ؟ میاں منظوروٹو نے تینوں مرتبہ جوڑتوڑ‘ گٹھ جوڑ‘ بے وفائی اور سازشوں کے ذریعے وزارت اعلیٰ پر ہاتھ مارے۔ ایک بار بھی انہیں مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں تھی۔ وہ اِدھر اُدھر کے پندرہ بیس دانے اکٹھے کر کے‘ پاسنگ کی حیثیت میں برابر کے گروپوں میں سے کسی ایک کا پلڑا جھکاتے اور وزیراعلیٰ بن بیٹھتے۔ شہبازشریف دومرتبہ تو اپنی پارٹی کی فیصلہ کن اکثریت بلکہ بھاری اکثریت کے ساتھ وزیراعلیٰ بنے۔ البتہ دوسری مرتبہ انہیں اکثریت حاصل کرنے کے لئے لوٹے جمع کرنا پڑے اور آخر تک انہی کے ساتھ اپنی وزارت اعلیٰ کا عرصہ پورا کیا۔ تیسری مرتبہ کی وزارت اعلیٰ جو ریکارڈ توڑ ثابت ہوئی‘ 300اراکین اسمبلی کا ووٹ لے کر بھرپورطاقت کے ساتھ آئے ہیں‘ یہ اخلاقی طور پر تو برتر ہو سکتی ہے‘ ورنہ شہبازشریف کو طاقتور وزیراعلیٰ بننے کے لئے‘ عددی اکثریت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اپنی کارکردگی کے سٹائل سے اتنی طاقت حاصل کر لیتے ہیں ‘ جس کے سامنے کوئی پر نہیں پھٹک سکتا۔انہیں کابینہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ جیسے بعض شعرا‘ شعر کا وزن پورا کرنے کے لئے بھرتی کے دو چار لفظ رکھ لیتے ہیں‘ اسی طرح شہبازشریف بھی کابینہ کی تعریف پوری کرنے کے لئے‘ دوچار ساتھیوں کو وزارتوں کا اعزاز دے دیتے ہیں۔ باقی وزارتیں انہیں خود ہی چلانا پڑتی ہیں اور ہر وزارت پر اتنی توجہ دیتے ہیں ‘ جتنی ایک پورا وزیر بھی اپنی واحد وزارت پر نہیں دے سکتا۔ اسی خوبی کی بنا پر انہیں جن کہا جاتا ہے اور شہبازشریف برا منانے کی بجائے‘ اس پر خوش ہوتے ہیں کہ ’’شکر ہے میں جن ہوں‘ بھوت نہیں۔‘‘ انہوں نے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے‘ اپنے ایجنڈے کی جو جھلکیاں پیش کیں‘ ان کی مختصر فہرست دیکھ کر بھی تاثر یہی ملتا ہے کہ یہ جن بھوت کا کام ہے۔مثلاًانہوں نے عہد کیا کہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ان کی پہلی ترجیح ہے۔ مگر اس بار وہ احتیاط ضرور کر گئے کہ سال‘ دو سال‘ اڑھائی سال اور غالباًایک مرتبہ لوڈشیڈنگ کو6ماہ کی مہلت بھی دے ڈالی۔ حریفوں نے ان ساری مہلتوں کو یکجا کر کے ٹی وی پر چلا دیا۔ مقصد تو اس کا یہ تھا کہ ان کے ووٹر مختلف مہلتیں سن کر پارٹی سے بدظن ہو جائیں گے۔ لیکن پاکستانی ووٹر کا مزاج ہی مختلف ہے۔ انہیں شہبازشریف کی مہلتیں اتنی پسند آئیں کہ صوبے میں انہیں دو تہائی سے زیادہ کی اکثریت دلوا دی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ مہلتوں کا سلسلہ وہیں سے شروع کرتے‘ جہاں سے ٹوٹا تھا۔ لیکن وہ بلاوجہ احتیاط کر گئے۔ خیر!ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ اپنی آئندہ کسی تقریر میںشہبازشریف مہلتوں کا سلسلہ پھر سے شروع کر دیں۔ جس چیز کی وجہ سے انہیں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی ملی‘ اسے فراموش کرنا مناسب نہیں۔انہوں نے ایک اور جناتی وعدہ یہ کیا کہ بجلی کی چوری کو روک دیں گے۔ تقسیم کاری کا موجودہ نظام برقرار رہا‘ توچوری کو روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ مجھے پنجاب کے ایک سابق وزیراعلیٰ حنیف رامے مرحوم کا ایک واقعہ یاد ہے۔ انہوں نے کینٹ کے علاقے میں ایک کوٹھی لی‘ تو چند ہی روز بعد واپڈا کا ایک ملازم بڑے احترام سے ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور بتایا کہ وہ رامے صاحب کا زبردست مداح ہے۔ اسے ان کی مصوری پسند ہے۔ ان کی مرصع تحریروں کا وہ مداح ہے۔ ان کی تقریریں بھی بڑے شوق سے سنتا ہے۔ اپنے پرستار کو مل کر رامے صاحب بہت خوش ہوئے۔ اس کے لئے ٹھنڈا مشروب منگوایا اور آمد کی وجہ دریافت کی‘ تو اس نے کہا ’’دیکھئے جی! اگر آپ کو بجلی کا پورا بل بھیجا جائے‘ تو شاید آپ کو اچھا نہ لگے۔آپ خوش نصیب ہیں کہ جو لوگ آپ سے پہلے اس کوٹھی میں رہتے تھے‘ انہوں نے بھی ہمارے ساتھ ’’انتظام‘‘ کر رکھا تھا۔ پچھلے ریکارڈ کے مطابق اس کوٹھی میں بجلی کا بل پانچ چھ ہزار کے درمیان آتا رہا ہے۔ آپ بھی چاہیں تو اس روایت کو قائم رکھ سکتے ہیں۔‘‘ رامے صاحب نے پوچھا ’’یہ روایت قائم رکھنے کے لئے انہیں کیا کرنا ہو گا؟‘‘ مہمان نے جواب دیا ’’آپ کو صرف تین ہزار روپے ماہانہ دینا ہوں گے۔‘‘ رامے صاحب غصے میں آ گئے اور اسے کہا ’’میں پورا بل دوں گا۔ آپ کی یہ بیہودہ پیش کش قبول نہیں کر سکتا۔‘‘ اگلے مہینے جب بل آیا‘ تو روایت سے ہٹ کر تھا۔ یہی کوئی 35ہزار روپے۔ اس زمانے میں یہ بہت بڑی رقم تھی۔رامے صاحب نے اپنے خاص ملازم جس کا نام غالباً ذاکر تھا‘ سے کہا کہ اتنے بل کی وجہ معلوم کرو۔ ملازم نے بڑی جستجو کی لیکن وجہ معلوم نہ کر سکا۔ تین ماہ تک بل بھرنے کے بعد رامے صاحب نے سوچا کہ اگر ریت رواج کے مطابق نہ چلے‘ تو یہ بھاری جرمانہ مستقل طور سے ادا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے اسی شخص کو ڈھونڈا۔ گھر بلایا اور اس کی پرانی پیش کش قبول کرنے کی نوید سنا دی۔ وہ بڑا خوش ہوا اور بولا ’’میں تو پہلے ہی آپ کا فین ہوں جی۔ اب میں پہلے سے بھی زیادہ آپ کی عزت کروں گا۔‘‘ رامے صاحب جب تک وہاں رہے‘ پہلے سے زیادہ عزت کراتے رہے۔ ایسے واقعات قریباً ہر شہری کے ساتھ ہوتے ہیں۔ میں بھی جب اپنے نئے گھر میں آیا‘ تو دوسرے ہی دن میرا بھی ایک مداح آ گیا۔ گفتگو کم و بیش وہی ہوئی‘ جو رامے صاحب کے ساتھ ہوئی تھی۔ مگر میں نے بھی ٹھان رکھی تھی کہ سمجھوتہ نہیں کروں گا۔ میں نے پیشکش لانے والے کو بے عزت کر کے نکالا اور پھر فوراً واپڈا کے ایک اعلیٰ افسر سے رابطہ کر کے اپنے میٹر کو نئی سیل لگوائی اور متعلقہ افسر سے کہا کہ’’ ایسا انتظام کر دیں کہ آپ کا کوئی کارندہ میٹرکے ساتھ چھیڑخانی نہ کر سکے‘‘ اور ساتھ ہی پیش کش لانے والے شخص کو کہہ دیا کہ ’’اگر تم نے میرا بل بڑھانے کے لئے میٹر کے ساتھ چھیڑخانی کی‘ تو تم پر پولیس کیس بھی بنوائوں گا۔‘‘ وارننگ کام آ گئی۔ میرے میٹر کی سیل کے ساتھ کسی نے چھیڑ خانی نہیں کی۔ لیکن اتنے طاقتور محکمے کے ساتھ ہر شہری ٹکر نہیں لے سکتا۔ اگر شہبازشریف بجلی کی چوری روکنا چاہتے ہیں‘ تو اس کی تقسیم اور وصولیوں کا پورا نظام بدلنا پڑے گا۔ صارفین خوشی سے چور نہیں بنتے۔ انہیں مجبور کر کے بنایا جاتاہے۔شہبازشریف نے یقینا سن رکھا ہو گا کہ بادامی باغ پاکستان میں بجلی کی چوری کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ وہاں کے ہر فونڈری والے نے واپڈا کے کسی ریٹائرڈ افسر کو ملازم رکھا ہوتا ہے۔ باقی سارے انتظامات وہ ریٹائرڈ افسر خود کر تا رہتا ہے۔ قارئین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ فونڈری میں بجلی ‘ را میٹریل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یعنی جو اصل مال تیار ہوتا ہے‘ اس سے زیادہ مالیت کی بجلی صرف ہوتی ہے اور چوری کی بجلی اس کاروبار کو حیرت انگیز نفع بخش بناتی ہے۔ پٹواری اور تھانہ کلچر ختم کرنے کے لئے کئی حکومتوں نے کوشش کی۔ کامیاب کوئی نہ ہوا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے لاہور میں زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹر پر منتقل کرنے کے لئے قریباً سولہ سترہ سال سے کام ہو رہا ہے اور اس کام کے اخراجات کا بڑا حصہ بعض عالمی ادارے ادا کریں گے۔ لیکن مسلسل کوششوں اور کھلا پیسہ ہونے کے باوجود یہ کام کبھی مکمل نہیں ہو سکا۔ آج بھی پٹواری کا راج ہی چلتا ہے۔ اگر شہبازشریف اپنی عادت کے مطابق تین چیزوں کو بطور خاص اپنا ٹارگٹ بنا لیں‘ تو پانچ سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے۔ وہ صرف دو سال کے اندر یہ معرکے انجام دے سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف بجلی چوری ختم ہو جائے گی بلکہ بجلی سے ہونے والی آمدنی بھی اتنی ہو جائے گی کہ گردشی قرضے باقی نہیں رہیں گے۔ بجلی پوری پیدا ہونے لگے گی اور لوڈشیڈنگ کی لعنت سے نجات مل جائے گی۔ پٹواری اور تھانے کا کلچر ختم ہو گیا‘ تو عام شہریوں کی زندگی کے 90فیصد مسائل ختم ہو جائیں گی۔امن قائم ہو جائے گا۔ انصاف ملنے لگے گا اور زندگی محفوظ اور پرسکون ہو جائے گی۔تھانہ کلچر‘ پٹواری کلچر اور لوڈ شیڈنگ کے تین مسائل کو شہبازشریف اپنے وقار کا سوال بنا کر‘ میدان عمل میں کود جائیں‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ انہیں ناکامی ہو۔ یہ ایسے کام ہیں‘ جنہیں اگر خلوص نیت سے شروع کر دیا جائے تو عوام کی فوج شہبازشریف کی حمایت میں کھڑی ہو جائے گی اور جب عوامی فوج کے ساتھ کسی خرابی کو دور کرنے کا فیصلہ کر لیا جائے‘ تو کوئی وجہ نہیںکہ اس کا خاتمہ نہ ہو سکے۔ ---------------