پاکستان کے تمام بالغ اور نا بالغ مرد و زن کو انتباہ کیا جاتا ہے کہ بجٹ‘ ابھی نیشنل اسمبلی میں پیش ہوا ہے۔ اس کی حتمی شکل بحث کے دوران سامنے آئے گی۔جب تک بجٹ ایوان سے پاس نہیں ہو جاتا اس میں ردو بدل ہو سکتا ہے۔اس لئے تمام بالغ اور نا بالغ پاکستانیوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ اپنے آپ کو اسحاق ڈار صاحب کی نگاہوں سے چھپا کر رکھیں۔بچے اپنے بستے اور بیگ پر وزیر خزانہ کی نگاہ ہر گز نہ پڑھنے دیں۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ سکول بیگز پر نظر پڑتے ہی‘ وزیر خزانہ ان پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کر لیں۔ بچے آئس کریم بھی چھپ کر کھائیں‘ میں ابھی پورا بجٹ نہیں سن پایا اگر آئس کریم ٹیکس سے بچ سکی ہے تو ازراہ کرم اسے بازار میں یا کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر ہرگز نہ کھائیں ورنہ سڑک سے گزرتے ہوئے اگر ڈار صاحب کی نظر پڑ گئی تو آئس کریم پر بھی ٹیکس لگ جائے گا۔ مووو ایبل پراپرٹی رکھنے والوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ایسی ہر پراپرٹی کو چھپا لیں۔ عورتیں بجٹ پاس ہونے تک زیورات پہننے سے گریز کریں۔ ’’سائیکل سوار‘‘ سائیکلیں چھپا کر پیدل آنے جانے کی کوشش کریں۔لاہور کے شہری میٹرو بس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔موٹرسائیکلیں چھپا دیں۔ کاروں کا بچنا مشکل ہے۔ انہیں گیٹ کے اوپر سے جھانک کر گیراج میں کھڑے دیکھا جا سکتا ہے۔بچے اپنی ٹرائی سائیکل بھی چھپا لیں تو بہتر ہے ڈار صاحب کی نظر پڑ گئی تو نہ صرف ٹیکس لگ جا ئے گا بلکہ ان پر پارکنگ چارجز بھی عائد کر دئیے جائیں گے۔پھلوں پر سیلز ٹیکس سے تو اب نہیں بچا جا سکتا لیکن پھل کھاتے وقت احتیاط کریں۔ اگر کسی کو کاٹ کر خربوزہ کھاتے ہوئے دیکھ لیا گیا تو خربوزہ کاٹنے پر ٹیکس نافذ ہوجائے گا۔ اسی طرح آم‘ تربوز‘سیب اور دیگر پھل‘ جنہیں کھانے کیلئے کاٹنا پڑتا ہے‘ انہیں گھروں کے اندر چھپ کر کاٹیں۔ سڑک پرکسی کو پھل کاٹتے ہوئے دیکھ لیا گیا تو پھر ٹیکس سے بچنا مشکل ہے۔میں نے بجٹ دستاویز کا مطالعہ نہیں کیا‘ اس لئے ابھی تک علم نہیں کہ جھگیاں اور خیمے‘ تعمیر شدہ رقبے میں شمار کر دئیے گئے ہیں کہ نہیں؟ لیکن کچے پکے مکان اور دو چار دس مرلے کے گھر تو یقیناً تعمیر شدہ رقبہ کہلاتے ہیں۔ایسے ہر تعمیر شدہ رقبے پر50 روپے فی مربع فٹ ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔چھوٹے سے چھوٹا گھر بھی300مربع فٹ سے کم نہیں ہوتا۔ ایسے گھر پر‘ صحن سمیت پندرہ ہزار روپے ٹیکس لگ جائے گا۔اگر تو وزیر خزانہ نے خیموں اور جھگیوں کو تعمیر شدہ رقبہ قرار نہیں دیا تو چھوٹے گھروں والے بلاتاخیر اپنی عمارتیں گرا کر پانچ سات ہزار میں لنڈے بازار سے استعمال شدہ ٹینٹ خرید لیں یا جھگیاں بنا لیںاور اگر جھگیوں اور خیمے بھی تعمیر شدہ رقبے قرار دے دئیے گئے ہیں تو پھر آپ کا اللہ حافظ ۔یا تو اپنی زمین کو ہر طرح کی ’’آلودگی‘‘ سے پاک کر کے‘ ریت یا مٹی پر سونے کی عادت ڈال لیں‘ ورنہ لباس یا کھانے میں سے ایک چیز ترک کر دیں۔لباس چھوڑاتو گھر کے مردوں کو ننگے سونا پڑے گااور کھانا چھوڑ کر کپڑے تو مل جائیں گے مگر پیٹ بھرنے کیلئے کچھ نہیں رہے گا۔میرے نسخے کے مطابق اگر آپ زمین کے تین سو گز ٹکڑے کو تعمیر کیے بغیر اپنی رہائش گاہ میں بدل لیں تو بجلی کے بل سے بہرحال جان چھوٹ جائے گی۔اگر آپ کا پلاٹ کسی نہ کسی سڑک کے کنارے ہے تو آتی جاتی گاڑیوں کی روشنی سے کام چل جائے گا۔کھانا پکانے کیلئے جھاڑ جنکار اکٹھا کر کے جلایا جا سکتا ہے۔اس طریقے سے کھانا تیار کرنے کی ترکیب آپ خانہ بدوشوں کودیکھ کر سیکھ سکتے ہیں۔ طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم سے پرہیز کرنا چاہئے۔اعلیٰ تعلیم کیلئے آپ کو اونچی کلاسوں میں جانا پڑتاہے اوراگر یہ معیاری ہوں تو فیس بھی زیادہ دینی پڑتی ہے۔اگر آپ کے والدین یا عزیزوں نے‘ دو لاکھ روپے کی سالانہ فیس کا انتظام کر بھی لیا ہے تو انہیں اس پر ٹیکس کا بندوبست الگ کرنا پڑے گا اور اگر آپ کی تعلیم کا خرچ اٹھانے والا خاندان مزید ٹیکس نہیں دے سکتا تو آپ کو تعلیم چھوڑنا پڑے گی۔اعلیٰ درجے کی کلاسو ں میں پہنچنے کے بعد اگر آپ کو تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑے تو کیا اس سے بہتر نہیں؟ کہ آپ اعلیٰ تعلیم کا خیال ہی چھوڑ دیں۔آرام سے سیدھا سا ایم اے کریں اور پچیس سال سے کم عمر کو پہنچ کر دس ہزار روپے مہینہ گھر بیٹھ کے کھائیں۔ مہمان نوازی اب صرف عیاشی رہ گئی ہے۔ سب سے سستی میزبانی مشروبات سے کی جا سکتی تھی۔ اب مشروبات پر بھی ٹیکس لگ گیا ہے ۔یہ ٹیکس آپ کو مشروب کی بوتل خریدتے ہوئے ادا کرنا ہوگا لیکن اگر آپ نے بوتل کو بازار میں کھولنا ہے تو پہلے ٹیکس کی تفصیل پڑھ لیجئے۔ اگر بوتل کھولنے کا ٹیکس علیحدہ ہے تو مناسب ہوگا کہ اسے گھر جا کر کھولیں اور اگر بوتل کسی مہمان کو پلانی ہے تو اسے بھی اپنے ساتھ گھر لے جائیں اور کھانے پینے کی جو چیز بچوں کیلئے چھپا کر رکھی ہے وہ مہمان کو پیش کر دیں۔وزیر خزانہ نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام بدل کرپاکستان انکم سپورٹ پروگرام رکھ دیا ہے اور رقم ایک ہزار سے بڑھا کر بارہ سو روپے کر دی ہے مگر احتیاط سے ٹیکسوں کی تفصیل پڑھ لیجئے۔ اگر وزیر خزانہ نے اس آمدنی پر د س فیصد ٹیکس بھی لگا دیا ہے تو ہزار روپے ماہانہ پانے والے ضرورت مند کو بیس روپے کم ملا کریں گے۔نام بدلنے کا لطیفہ بھی خوب ہے۔ ہر آنے والی حکومت جانے والی حکومت کی جاری کردہ سکیموں کو اپنا نام دے کر بر قرار رکھ لیتی ہے تاکہ متاثرین اپنے محسن کو دعائیں دینا جاری رکھیں۔نواز شریف نے اپنے دوسرے دور اقتدار میںوزیراعظم ادبی ایوارڈ شروع کیا تھا جو انکے اپنے نام سے بھی نہیں تھا لیکن جیسے ہی پرویز مشرف نے حکومت پر قبضہ کیا۔ وزیراعظم کے نام سے جاری شدہ انعام بند کر دیا گیا چونکہ وزیراعظم تو بہر حال نواز شریف تھے۔ اسی طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے بے نظیر کا نام نکال کر پاکستان کا نام شامل کر دیا گیا۔یہ نام بہر حال مستقل رہے گا۔ کم از کم آنے والی حکومت‘ یہ نام بدلنے سے ضرور پرہیز کرے گی۔ویسے بھی یاد گاروں‘ منصوبوں اور تعمیرات کو افراد سے منسوب نہیں کرنا چاہئے خصوصاً پاکستان میں۔ شہباز شریف نے لاہور میں انڈر پاسز کے نام کسی سیاست دان پر نہیں رکھے۔ ہو سکتا ہے وہ اپنے اپنے خصوصی امتیازات کی وجہ سے بچے رہیں لیکن اگر کوئی جج‘ صحافی یا پروفیسر اقتدار میں آگیا تو پھر ان ناموں کی بھی خیر نہیں۔مثلاً فیض احمد فیض اور جسٹس کارنیلیس کے نام کو مٹانے کی وجہ یہ بتائی جائے گی کہ ’’بے شک یہ بڑے لوگ تھے مگر پسند تو شہباز شریف کی ہے‘‘۔ عدالتی فیصلے کے تحت جس طرح لوڈشیڈنگ کو گھریلو صارفین اور صنعت کاروں کے درمیان برابر تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اسی سے متاثر ہو کر وزیر خزانہ نے جنرل سیلز ٹیکس میں اضافہ بھی مساوی طور پر تقسیم کر دیا ہے۔ اب ہر امیر غریب کوایک فیصد جی ایس ٹی زیادہ دینا پڑے گا۔سب سے قابل تعریف فیصلہ آبادی میں اضافے کو روکنے کیلئے کیا گیا ہے۔ اب ہوٹلوں‘ شادی گھروں اور دیگر پُرتعیش مقامات پر جن میں خیموں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ شادی کی تقریبات پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ لوگ حکومتی پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر تو شادیوں سے باز نہیں آتے‘ ہو سکتا ہے شادی مہنگی ہونے پر احتیاط شروع کر دیں اور اس طرح آبادی میں اضافے کا سلسلہ کچھ عرصے کیلئے رک جائے مثلاً اگر کوئی جوڑا شادی کا اضافی خرچ پورا کرنے کیلئے‘ دو چار مہینے لیٹ ہو جائے تو بچوں کی پیدائش تاخیر سے شروع ہو گی اور اتنے دنوں کیلئے پاکستان کی آبادی کم رہے گی۔صنعتی شعبے کو درآمدی خام مال میں ٹیکسوں پر چھوٹ دی جائے گی۔ یاد رہے یہ چھوٹ صنعت کار کو ملے گی لیکن درآمدی خام مال سے تیار شدہ مال صارفین کو پوری قیمت پر ملے گا۔ اس کیلئے ٹیکس میں کوئی چھوٹ نہیں ہو گی۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو جو ترقیاتی فنڈ ملا کرتے تھے‘ وہ اسی طرح جاری رہیں گے۔لکی مروت والوں کو مبارک ہو کیونکہ نمائندوں کے فنڈز استعمال کرنے کی ٹیکنالوجی‘ صرف لکی مروت والوں کے پاس ہے۔وزیر خزانہ کا معجزاتی عزم یہ ہے کہ وہ ساٹھ دن میں سرکلر ڈیٹ ختم کر دیں گے مگر یہ وعدہ نہیں کیا گیا کہ لوڈشیڈنگ بھی ختم کر دیں گے۔اس میں نکتے کی بات یہ ہے کہ سرکلر ڈیٹ کے خاتمے کا اعلان حکومت کو کرنا ہے۔ یہ اعلان جب چاہے وہ کر سکتی ہے مگر جب لوڈشیڈنگ کے بارے میں سوال کیا جائے گا تو جواب یہ ہوگا کہ ’’ہم نے سرکلر ڈیٹ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا لوڈشیڈنگ کا نہیں‘‘۔ اگر آپ کو گھر میں پکانے کے لیے نصیب سے اچھا کھانا مل گیا ہے اور پکانے کے لیے گیس بھی دستیاب ہوگئی ہے تو کھانا کھانے سے پہلے گلی کی طرف کھڑکیاں یہ سوچ کر بند کر لیں کہ ڈار صاحب دیکھ رہے ہیں۔