ہر میدان میںاعلیٰ پوزیشن‘ دوسروں کے حوالے کرتے کرتے‘ طبیعت اکتانے لگی تھی۔ کرکٹ کے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں ہماری جو درگت بن رہی ہے‘ وہ کسی کو بتانے کے لائق نہیں ۔ جہاں جاتے ہیں‘ بے عزتی سے ہار کے آتے ہیں۔ کبھی فائنل یا سیمی فائنل میں پہنچتے ہیں‘ تو ایسے ملک سے ہارتے ہیں‘ جو ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ بھارت سے ہار کے‘ ہمارے دلوں پر جو گزرتی ہے‘ بس ہمی جانتے ہیں۔ جیت کی حکمت عملی بنانے میں تو مشکل پڑتی ہے۔ ہار کا منصوبہ بنانا کونسا مشکل ہے؟ یہ ہمارے اختیار میں ہوتا ہے کہ ہم کسی بھی ایک ٹیم کو ہدف بنا کر ‘ اسے جیتنے پر مجبور کر دیں اور ایسی ترکیب لڑائیں کہ اپنا آخری میچ کسی کمزورترین ٹیم سے ہار کے‘ اطمینان کے ساتھ گھر واپس آ جائیں۔ ابھی چیمپئنز ٹرافی میں کیا ہوا؟ ہم دھواں دھار ہارتے ہوئے‘ بے عزتی کا یقینی نتیجہ حاصل کرنے کے لئے‘ ایک بے توقیر میچ میں پہنچ گئے۔ یہ نہ فائنل تھا‘ نہ سیمی فائنل تھا اور نہ کوارٹرفائنل۔ یہ ٹورنامنٹ سے بے عزت ہو کر نکلنے کا سب سے نچلا دروازہ تھا۔ ہم چاہتے‘ تو کسی بھی بری سے بری ٹیم کے ساتھ‘ آخری میچ کھیلنے کی ترکیب لڑا سکتے تھے۔ لیکن ہم نے ٹورنامنٹ سے باہر نکلنے کے لئے بھی بھارت سے شکست کھانے کو ترجیح دی اور پھرڈھٹائی دیکھئے ‘ ایک ایسے میچ کی یوں تشہیر کی‘ جس میں نہ جیتنا اعزاز تھا اور نہ ہارنا۔ دونوں صورتوں میں ٹورنامنٹ سے بے عزتی کے ساتھ نکلنا یقینی تھا۔ مگر میڈیا کا بھی کمال ہے کہ اس آخری میچ میں ‘ جسے کھیل کر ہرحال میں ہمیں بے آبرو ہو کر ٹورنامنٹ سے باہر ہونا تھا‘ اسے بھی یوں بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ۔ جیسے اگر ہم یہ میچ جیت جاتے‘ تو کوئی بہت بڑا کارنامہ کرتے۔ ایسا بالکل نہیں تھا۔ ہم ٹورنامنٹ سے نکالے جا چکے تھے۔ آخری میچ کھیلنا محض رسمی کارروائی تھی۔ اس میں جیت کر بھی بے عزتی کے ساتھ ٹورنامنٹ سے باہر آتے اور ہار کے بھی۔ اسی طرح ہاکی میں جو درگت ہم بنوا رہے ہیں‘ اس سے اچھی درگت تو گھر بیٹھ کے بن سکتی تھی۔ اپنا پیسہ خرچ کر کے‘ باہر کے ملکوں میں جانا اور پھر حریفوں سے ہار کے ‘ ان کے سروں پر فتوحات کے تاج سجانا اور خود شکست کا طوق پہن کے‘ بے عزتی کے ساتھ گھروں کو لوٹ کے آنا‘ کہاں کی دانشمندی یا چالاکی ہے؟ اس سے بہتر تو گھربیٹھے رہنا ہے۔ اگر جیت نہ بھی ہو‘ تو ہارنے کا صدمہ تو نہیں اٹھانا پڑتا۔ مگر ہم جاتے بھی ہیں‘ ہارتے بھی ہیں اور بے عزت ہو کر واپس بھی آتے ہیں۔ خدالگتی کہیے ‘ ہم ایسا نہ کریںتو فرق کیا پڑے گا؟ البتہ فائدہ ضرور ہے۔ بیرون ملک جانے کے لئے سارے اخراجات زرمبادلہ میں کرنا پڑتے ہیں۔ ہمارے پاس پہلے ہی زرمبادلہ کی کمی ہے۔ گھر میں رہ کر ہم قوم کا قیمتی سرمایہ بھی بچا سکتے ہیں اور اسے شکست کی بے عزتی سے بھی۔ کیا یہ اچھی چوائس نہیں؟ بجائے اس کے کہ ہم قیمتی زرمبادلہ خرچ کر کے‘ بیرونی میدانوں میں بڑے بڑے اجتماعات کے سامنے‘ شکست کھانے کا تماشا دکھائیں۔ تماشائیوں کی ہوٹنگ سنیں۔ مخالف کھلاڑیوں کے فاتحانہ نعروں اور بھنگڑوں کا سامنا کریں۔ سرجھکا کر‘ پسینے اور شرمندگی میں ڈوبے ہوئے گرائونڈوں سے باہر آئیں اور جب وطن میں آ کر ہوائی اڈوں سے باہر نکلیں‘ تو چھپنے کی یوں کوششیں کریں‘ جیسے بیرون ملک چوری میں پکڑے گئے ہوں اور واپس آ کر اہل وطن سے چہرے چھپا رہے ہوں۔ اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ کسی بھی کھیل میں فتح کے لئے ہمیں کوئی پاکستانی کھلاڑی ہی نہیں مل رہا۔ مجبوراً خوش ہونے کے لئے غیرملکی کھلاڑیوں کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے شہری‘ اپنے ملکوں کے بیرونی دوروں پر نظر رکھتے ہیں اور جب ان کی ٹیمیں فتح حاصل کرتی ہیں تو وہ خوشیاں مناتے ہیں اور ہم ہاتھوں میں ہار لئے‘ دنیا میں ہر جگہ ہونے والا میچ تلاش کرتے پھرتے ہیں‘ جہاں کوئی پاکستانی نژاد کھلاڑی‘ اچھی پوزیشن لینے کے لائق ہو۔ کئی کئی سال تک ایسا کھلاڑی نہیں ملتا۔ کئی بار یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی کھلاڑی پوزیشن لے کر اپنے وطن واپس چلا گیا اور ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ یہ پاکستانی نژاد تھا۔ مگر تب وقت گزر چکا ہوتا ہے ۔ پوزیشن لینے والے کھلاڑی کا پرائم ٹائم استعمال میں آ چکا ہوتا ہے۔ میڈیا پر اس کے کھیل کی جھلکیاں باربار چل چکی ہوتی ہیں۔ اس کے انٹرویو کئے جا چکے ہوتے ہیں۔ اس کے ہار پہننے اور فتح کا ہاتھ بلند کرنے کے مواقع نکل چکے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد پتہ چل بھی جائے کہ پوزیشن لینے والا کھلاڑی پاکستانی نژاد ہے‘ تو ہمارے خوش ہونے کے لئے کچھ نہیں رہتا۔ نہ ہم ٹی وی پر چلنے والی جھلکیاں دیکھ کے نعرے لگا سکتے ہیں ۔ نہ ہم کھلاڑی کو ہار پہنا کے وکٹری کا نشان بنا سکتے ہیں۔ نہ ہم اس کی تصویریں چھاپ سکتے ہیں۔ کون بھولے بھلائے میچ میں جیت کر‘ گھروں میں بیٹھے کھلاڑیوں کی فتح کے جشن منائے؟ جو منائے گا‘ وہ بھی پاگل ہی لگے گا۔ جب ہمیں خاموشی سے جیت کر‘ گھر جا بیٹھنے والے کھلاڑیوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ وہ پاکستانی نژاد ہیں‘ تو دل بہت اداس ہوتا ہے۔ موجودہ ہم وطن تو کچھ کر کے نہیں دے رہے اور پرانے ہم وطن‘ ہمیں چٹھی تک نہیں لکھتے کہ ’’ہم میچ کھیلنے جا رہے ہیں۔ ہماری جیت کا کافی امکان ہے۔ آپ کیمرے اور ہار اٹھائے‘ تالیاں بجانے کی تیاری کر کے‘ فلاں ملک میں پہنچ جایئے۔ ‘‘وہ کمبخت تو ہمیں یاد ہی نہیں کرتے۔ چند ماہ پہلے بڑی مشکل سے ایک باکسر ہاتھ آیا تھا۔ہم نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اپنے ملک کے اندر‘ اسے یوں پیش کیا جیسے وہ پاکستانی کھلاڑی ہو۔ حالانکہ وہ محض ایک پاکستانی نژاد نوجوان تھا۔ ایک غیرملکی شہری تھا اور نیویارک میں باکسنگ کھیلنے چلا گیا تھا۔ہم پوری تیاری کے ساتھ اس کی حمایت پر کمربستہ ہو گئے۔ ہمارے میڈیا نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ اس کے اپنے ملک کے میڈیا نے اسے لفٹ نہیں کرائی۔ جبکہ ہم نے اس کی یوں پذیرائی کی‘ جیسے وہ یہاں پل بڑھ کر جوان ہوا ہو۔ ہمارے ہی ملک میں باکسنگ سیکھی ہواور پاکستانی باکسنگ کے ماحول میں وہ پروان چڑھا ہو اور اس کی جیت کے نتیجے میں پاکستان کا ہی بول بالا ہونے والا ہو۔ مگر ایسا بھی نہ ہو سکا۔ میچ ختم ہو گیا۔ فتح کا نشان نہیں بنایا جا سکا۔ فتح حریف کے نام لکھ دی گئی۔ ہمارے ہیرو نے نتیجے کو چیلنج کر دیا۔ اس کے بعد میں نے تو اپنے ہیرو میں کوئی دلچسپی نہ لی۔ سنا ہے کہ مقابلے کا دوبارہ انعقاد ہوا۔ میں دل ہی چھوڑ چکا تھا۔ جیت ہار سے کوئی غرض ہی نہ رہی۔ اب خدا خدا کر کے ایک پاکستانی نژاد کھلاڑی‘ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے والا ہے۔ امید ہے وہ کامیابی کے جھنڈے گاڑے گا۔ جہاں وہ میچ کھیلنے جائے گا‘ ہمارا چاچا کرکٹ بھی وہاں پہنچا کرے گا۔ میدان میں قومی پرچم لہرائے گا۔ کرکٹ کے شوقین پاکستانی‘ جہازوں کے ٹکٹ خرید کر ہر اس ملک میں میچ دیکھنے جائیں گے‘ جہاں آسٹریلیا کھیل رہا ہو اور جیسے ہی آسٹریلیا کی یونیفارم میں‘ ہمارا پاکستانی ہیرو کھیل کے جوہر دکھائے گا‘ ہم وہاں خوشیاں منایا کریں گے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ کرکٹ میں پوری ٹیم کھیلتی ہے جبکہ باکسر صرف ایک ہوتا ہے۔ ہم نے باکسر کو ہیرو بنا کر خوامخواہ وقت ضائع کیا۔ ایک آدمی کا کیا پتہ؟ جیت گیا‘ تو بات بن گئی۔ نہ جیت پایا‘ تو امیدوں کے سارے محل مسمار ہو گئے۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ پاکستانی کھلاڑی آسٹریلیا کی ٹیم میں شامل ہونے جا رہا ہے۔ یہ دنیا کی بہترین ٹیم ہے۔ اس کی جیت کے امکانات ہمیشہ زیادہ رہتے ہیں۔ ہمارے ہیرو نے ایک وکٹ بھی لے لی‘ تو ہمارے سب جشن جائز ہو جائیں گے۔ ہمارے لڈو میٹھے ہو جائیں گے اور پھولوں کے جو ہار ہم ایک دوسرے کو پہنائیں گے‘ ان کی خوبصورتی میں نکھار آجائے گا۔ ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ آسٹریلیا کی ٹیم‘ ہمارے ساتھ وہ سلوک نہیں کرے گی‘ جو ہماری اپنی ٹیم برسوں سے کرتی آ رہی ہے۔ دنیا کے ہر میدان میں پسپائی اور شکست کی خفت اٹھاتے اٹھاتے‘ اب تو میرا یہ حال ہو گیا ہے کہ کہیں سے بھی پاکستان کی برتری کی خبر آئے‘ میں خوشیوں سے جھوم اٹھتا ہوں۔ میری آج کی خوشی‘ اس خبر میں ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے اندر‘ دنیا بھر کے ملکوں سے کرپشن کا جو کالا سرمایہ‘ بنکوں میں جمع کیا گیا ہے‘ اس میں پاکستانیوں کی جیت ہو گئی ہے۔ ہمیں یہ قابل فخر اعزاز بھی حاصل ہو گیا ہے کہ ہمارے کرپٹ لوگوں نے‘ بھارت کے کرپٹ لوگوں کو شکست دے دی ہے۔ وہ ہم سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ کسی بھی میدان میں سہی‘ ہمیں سر اٹھا کر یہ کہنے کا موقع تو مل گیا کہ ہم نے بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا۔ مبارک ہو۔ آیئے! جشن منائیں ہم بھی۔