"NNC" (space) message & send to 7575

ٹارگٹ کون تھا؟چینی شہری یا پاکستان؟

نانگا پربت کے پہاڑی سلسلے میں ہونے والا سیاحوں کا قتل‘ محض دہشت گردی نہیں۔ سوچ بچار کے بعدکیا گیا آپریشن ہے۔ ایسا کرنا دہشت گرد تنظیم کے بس کی بات نہیں۔تحریک طالبان پاکستان اور اس کے اتحادی گروہ کا ہیڈکوارٹر شمالی وزیرستان میں واقع ہے۔ اس کے لیڈروں کی نقل و حرکت انتہائی محدود ہے۔ افغانستان کی طرف یہ جا نہیں سکتے۔ ان کے ایجنٹ عموماً پاکستان کے قبائلی علاقوں کی طرف سے شمالی وزیرستان میں داخل ہوتے ہیں یا مختلف ذرائع سے احکامات لے کر دہشت گردی کے واقعات کرتے ہیں۔ اس گروپ کے اتحادیوں میں لشکر جھنگوی زیادہ متحرک‘ منظم اور مسلّح ہے۔ مگر اس کا ہدف عموماً پاکستان کے ریاستی ادارے ہوتے ہیں۔ جند اللہ کے نام سے جس گروپ کو ملوث کیا جا رہا ہے‘ اس کے مقاصد محدود ہیں اور وہ ایرانی حکومت اور شہریوں کے خلاف کارروائیاں کرتا ہے۔ اس کے سیاسی مقاصد کا تعلق بلوچستان سے ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں سرگرم‘ تمام فرقہ ورانہ اور مذہبی بنیادوں پر دہشت گردی کرنے والے گروپوں کا ہدف ‘ پاکستان کی ریاست ہے۔ ان میں چند عناصر ‘جن میں تحریک طالبان پاکستان بھی شامل ہے‘ القاعدہ سے منسلک ہیں اور وہ القاعدہ کے عالمی عزائم کے حوالے سے پاکستان میں سرگرم ہیں۔ دیامرکا علاقہ انتہائی پرامن اور کم آباد ہے۔ یہ ان علاقوںمیں سے ہے‘ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پہاڑ اپنے پانیوں اور جوانیوں سے ہماری بستیوں کو پررونق رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک کے سب سے بڑے گلیشیئرز اسی علاقے میں ہیں‘ جہاں سے پگھلی ہوئی برف کے پانی‘ جھرنوں اور ندیوں سے بہتے ہوئے ہمارے دریائوں کا حصہ بنتے ہیں اور یہ دریا ہمارے پیاسے کھیتوں کو سیراب کر کے‘ ہمیں فصلوں سے نوازتے ہیں۔ بہاروں کے رنگ دکھاتے ہیں۔ پھلوں میں رس بھرتے ہیں اور انسانی‘ حیوانی اور نباتاتی زندگی کو تراوٹیں دیتے ہیں۔ گلگت کے پہاڑوں میں کاروبار یا صنعت کاری کے لئے ماحول سازگار نہیں۔ کاشتکاری کی گنجائشیں بھی بہت کم ہیں۔ ضلع دیامر میں تعلیم کا اوسط مردوں میں صرف 10فیصد ہے اور عورتوں میں ایک فیصد سے بھی کم۔ جب یہاں کے نوجوان روزگار کی تلاش میںمیدانی بستیوں کا رخ کرتے ہیں‘ تو یہاں آ کر وہ مزدوری‘ گھریلو ملازمتوں یا ڈش واشنگ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ سب سے نچلے درجے کی محنت ہے‘ جو وہ فراہم کرتے ہیں۔ پہاڑوں کی یہ جوانیاں‘ ہمارے شہروں کی خدمت کرتے کرتے‘ بڑھاپوں میں بدل جاتی ہیں۔ یہاں کے باشندے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے بھڑنے کی عادتیں پال ہی نہیں سکتے۔ ان کا مقابلہ ہمیشہ فطرت کی ناسازگاریوں سے رہتا ہے۔ یہ برفانی طوفانوں‘ سیلابوں اور موسموں کی شدتوں سے لڑنے کے لئے‘ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ فطرت کا یہ جبر‘ انہیں مل جل کر جینے پر مجبور کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے کی مہلت ملتی ‘ نہ عادت پڑتی ہے۔ یہ بہت پرامن لوگ ہیں۔ بیرونی اثرات کے تحت یہاں فرقہ ورانہ جھگڑے ضرور ہوتے ہیں۔ لیکن مقامی لوگ ان میں ملوث ہونے سے گریزاں رہتے ہیں۔ اس خطے میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ چلاس میں ہوا۔ اس کے ذمہ دار بھی بیرونی دہشت گرد تھے‘ جنہوں نے چلاس روڈ پر شیعہ مسلک کے لوگوں کی بسیں روکیں‘ انہیں اتار کے شناختی کارڈ دیکھے اور جس کے نام سے انہیں شبہ ہوا کہ یہ شیعہ ہے‘ اسے گولیوں کا نشانہ بنا دیا۔ گلگت کی تاریخ میں فرقہ ورانہ خونریزی کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔ یہ بات 99فیصد یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ دیامر کے باشندوں میں دہشت گردی اور تشدد کی کوئی روایت نہیں پائی جاتی۔ اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ سیاحوں کے خلاف دہشت گردی کی اس واردات میں مقامی لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہو سکتا۔ حملہ آوروں کے ساتھ جو مقامی گائیڈ بندوقوں کی نوک پر‘ فیری میڈوز کے کیمپ میں گئے‘ انہیں اغوا کر کے کھدیڑا گیا تھا۔ حملہ آور وںکے سارے اہداف غیرمقامی افراد تھے۔جہاں تک دہشت گردوں کا تعلق ہے‘ ان کے بارے میں ماہرین کی مشترکہ رائے یہ ہے کہ وہ انتہائی تربیت یافتہ اور ناسازگار موسمی حالات میں نقل و حرکت کرنے کی مہارت رکھتے تھے۔ جہاں واردات کی گئی‘ وہ علاقہ ہائی سکیورٹی زون میں شمار کیا جاتا ہے۔ بغیرسکیورٹی حکام کی اجازت کے وہاں تک جانا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ گویا دوحفاظتی حصار اس جگہ کی حفاظت کرتے ہیں۔ ناسازگار موسمی حالات اور سکیورٹی کا نظام۔ دہشت گردوں نے یہ دونوں رکاوٹیں کیسے عبور کیں؟آپریشن سے پہلے یقینی طور پر انہوں نے اپنے آپ کو مقامی حالات کا عادی بنانے کے لئے کچھ وقت دیامر کے کسی گائوں میں گزارا ہو گا۔ وہاں وہ کیسے رہ پائے؟ سکیورٹی کے نظام اور مقامی باشندوں کی نگاہوں سے وہ کس طرح بچے رہے؟ یہ معما حل ہونا چاہیے۔ جن ملکوں کے باشندے دہشت گردوں کا نشانہ بنے‘ ان میں سے تین ملک ایسے ہیں‘ جو سلامتی کونسل میں کسی بھی فیصلے یا قرارداد کو ویٹو کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ چین‘ روس اور امریکہ۔ امریکی باشندہ‘ چینی نژاد تھا۔ لیکن اس کی شہریت امریکی ہے۔ یہ ٹورآپریٹرز بتا سکتے ہیں کہ کیا مختلف قومیتوں پر مشتمل گروپوں میں عموماً اسی طرح کا تناسب ہوتا ہے؟ میرے علم کے مطابق عام طور سے ایک ہی ملک کے کوہ پیما اپنی ٹیم بنا کر مہم جوئی کرتے ہیں اور اگر مختلف قوموں کے افراد گروپ بنائیں‘ توان کے نسلی اور جغرافیائی رابطوں کا قابل فہم پس منظر ہوتا ہے۔ ان سیاحوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہئیں کہ چینی نژاد امریکی کا اصل پیشہ اور دلچسپیاں کیا تھیں؟ چینی شہری کا پس منظر کیا ہے؟روسی کون تھا؟ اور یوکرائن کے تین باشندے کس پیشے سے تعلق رکھتے تھے؟ ان سب کا پس منظر جاننے کے بعد ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس گروپ کو ٹارگٹ کیوں بنایا گیا؟ اور یہی معلومات‘ دہشت گردوں کا سراغ لگانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دہشت گرد بھاگتے ہوئے‘ چینی باشندے کا پاسپورٹ اور کاغذات بھی لے گئے۔ ہو سکتا ہے کہ دیگر سیاحوں کے پاسپورٹ بھی لے گئے ہوں۔ اس کی خبر ایک دو روز میں آ جائے گی۔ ’’لاس اینجلس ٹائمز‘‘ کے مطابق دہشت گردوں کی تعداد 15 اور 20 کے درمیان تھی۔ یہ بہت بڑا گروپ ہے۔ اس نے نقل و حرکت کیسے کی؟ اکٹھا کیسے ہوا؟ اتنا بڑا گروپ سکیورٹی کے نظام سے بچ کر کیمپ تک کیسے پہنچ گیا؟ زیربحث علاقے کا جغرافیائی محل وقوع بھی قابل توجہ ہے۔ یہ ہمالیہ کے انتہائی مغرب میں واقع ایک پہاڑی سلسلہ ہے‘ جس میں سب سے اونچا پہاڑ نانگا پربت ہے۔ یہ قراقرم ہائی وے سے جا ملتا ہے۔ یہ انتہائی دشوار گزار پہاڑی سلسلے ہیں۔ یہاں جانے کے لئے زیادہ تر دیامر کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ نانگاپربت کے پہاڑی سلسلے کے قریب تر جس سڑک پر ٹریفک چل سکتی ہے‘ وہ صرف قراقرم ہائی وے ہے‘ جو چین کی سرحد سے لے کر‘ اسلام آباد تک جاتی ہے۔ باخبر حلقوں میں کافی عرصہ پہلے سے اس موضوع پر باتیں ہو رہی ہیں کہ بھارت سیاچن کی طرف سے واخان کی پٹی تک ایک سڑک بنانا چاہتا ہے جو قراقرم کو پار کرتے ہوئے جائے گی۔ ظاہر ہے اس طرح کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے‘ قراقرم پر پاکستان کے کنٹرول کو کمزور کرنا پڑے گا۔ اگر آپ چینی سفیر اور ہمارے وزیرداخلہ چوہدری نثار کا پہلا مکالمہ غور سے پڑھیں‘ تو اس میں ایک معنی خیز اشارہ ملتا ہے۔ چینی سفیر نے کہا کہ ’’کیا دہشت گردوں کا ٹارگٹ چینی شہری تھا؟‘‘ چوہدری نثار نے جواب دیا ’’نہیں! پاکستان تھا۔‘‘ اگر چین اور پاکستان دونوں مل کراپنی انٹیلی جنس کی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے‘ اس خطے میں بھارت اور امریکہ کے عزائم کا پتہ لگا سکیں‘ تو یہ بہت بڑا کارنامہ ہو گا۔ میرا ماتھا تو ٹھنک گیا ہے۔ واخان کی پٹی پر افغانستان‘ روس اور بھارت کی مشاہداتی کیمپوں میں کیا ہو رہا ہے؟ اس کا بھی پتہ کرنا چاہیے۔ میں نے 6 ستمبر کو امریکہ کے چند جنگی جہازوں کی نقل و حرکت کی سنگل کالم خبر پڑھ کے ’’بڑے واقعات کی آہٹیں‘‘ کے زیرعنوان ایک کالم لکھا تھا۔ جس میں بتایاگیا تھا کہ جنوب مغربی ایشیا میں بڑے واقعات کا سلسلہ شروع ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ چند ہی روز بعد 9/11 کے واقعات ہوئے اور افغانستان پر حملہ ہو گیا۔ اگلے واقعات گلگت میں شاہراہ قراقرم کے گردونواح میں ہونے کے آثار ہویدا ہو تے ہوئے لگتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں