"NNC" (space) message & send to 7575

مسلم ممالک اور جمہوریت

عرب دنیا کا سب سے بڑا ملک مصر‘ ایک بار پھر حکمران طبقوں کی کھینچاتانی کا شکار ہے۔ حسنی مبارک کی برطرفی کے بعد جو انتخابات ہوئے تھے‘ انہیں جلد ہی عدالتی حکم کے ذریعے غیرموثر کر دیا گیا۔ ایک سال پہلے جو صدارتی انتخابات ہوئے‘ ان میں اخوان المسلمون 52فیصد ووٹ لے کر کامیاب رہی اور محمدمورسی پہلے جمہوری صدر بنے۔ ان کے لئے حالات سازگار نہیں تھے۔ اخوان ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ مخالف تحریک رہی ہے۔ ایک عرصے تک وہ خفیہ سرگرمیوں میں مصروف رہی۔ طویل جدوجہد کے بعد اس نے کھلی سیاست کا فیصلہ کیا اور انتخابی عمل میں شریک ہونے لگی۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ نے کبھی اسے اپنا ساتھی نہیں سمجھا۔ ہمیشہ اس سے فاصلہ ہی رکھا۔ یہی سبب تھا کہ جب عام انتخابات میں اس نے پارلیمانی اکثریت حاصل کی‘ تو ایک عدالتی حکم کے ذریعے پارلیمنٹ کو گھر بھیج دیا۔ بے شک حسنی مبارک کی آمریت ختم ہو چکی ہے لیکن جو ادارے اس آمریت کو قائم رکھتے آ رہے تھے‘ وہ اسی طرح موثر اور غالب رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریر چوک کے عوامی مظاہروں اور مصر کے دیگر بڑے شہروں میں پھیلنے والی تحریک کے نتیجے میں‘ فوج نے حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا اور پھر فوج ہی نے عبوری حکومتی ڈھانچہ تشکیل دے کر‘ پارلیمانی انتخابات کرائے۔ لیکن ججوں اور جنرلوں کا وہی گٹھ جوڑ اپنی جگہ قائم رہا‘ جس کے ذریعے آمرانہ حکومتیں چلائی جاتی تھیں۔ عام انتخابات کے نتیجے میں بھی انتقال اقتدارممکن نہ ہو سکا۔ ایک عبوری آئین کے تحت عام انتخابات ہوئے لیکن پارلیمنٹ اپنا کام شروع نہ کر سکی۔ ایک سال پہلے براہ راست صدارتی انتخابات کرائے گئے‘ جن میں اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ امیدوار نے اخوان المسلمون کے امیدوار محمدمورسی کا مقابلہ کیا اور حیرت انگیز طور پر بڑی اچھی کارکردگی دکھائی۔ اخوان المسلمون نے ایک قدیم اور منظم جماعت ہونے کے باوجود‘ بڑی مشکل سے کامیابی حاصل کی۔اسٹیبلشمنٹ کا حمایت یافتہ امیدوار 48فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اخوان جو بھاری اکثریت سے کامیابی کی توقع کر رہی تھی‘ صرف 52فیصد ووٹ حاصل کر پائی۔ اس انتخابی نتیجے نے اسٹیبلشمنٹ کے حوصلے بڑھا دیئے اور وہ ایک بار پھر اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گئی۔ جیسے کہ عرض کر چکا ہوں کہ اس وقت ریاستی طاقت پر ججوں اور جنرلوں کا کنٹرول ہے۔ صدر مورسی‘ عوامی طاقت کے زور پر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ لیکن مذکورہ گٹھ جوڑ نے‘ انہیںاقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا موقع نہیں دیا۔ صدر مورسی کی جماعت چونکہ روایتی طور پر آزادانہ پالیسیاں اختیار کرنے کے حق میں ہے اور اس کا رحجان مذہبی بنیادوں پر کم از کم عرب دنیا میں باہمی تعاون اور اتحاد کو فروغ دینے کی جانب ہے۔ اس لئے مغربی سامراج کا سب سے بڑا پٹھو اسرائیل نہیں چاہتا کہ مصر میں اقتدار اخوان کے ہاتھوں میں چلا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر مورسی ملک کی منظم ترین جماعت کا نمائندہ ہونے کے باوجود‘ انتخابی کامیابی حاصل کر کے بھی‘ اقتدار پر گرفت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ انہوں نے جرات مندی سے کام لیتے ہوئے‘ اپنی جماعت کا بنایا ہوا آئین بھی نافذ کر کے کافی اختیارات حاصل کئے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ کرنے میں ناکام رہے۔ مصر کی معاشی حالت انتہائی خراب تھی۔ بیروزگاری ‘ بد انتظامی اور اشیائے ضرورت کی قلت کے مسائل حل نہ ہوئے۔ امریکہ اور اس کے زیراثر عالمی مالیاتی اداروں نے‘ نئی مصری حکومت کے ساتھ اس کی ضرورت کے مطابق تعاون نہیں کیا اور جو قرضے منظور کئے گئے‘ و ہ بہت کم تھے اور ان کا بھی پورا حصہ مصری حکومت کو نہ مل سکا۔ نتیجے میں مہنگائی تیزی کے ساتھ بڑھی۔ حکومت نے قریباً 9ارب ڈالر کی مراعات عوام کو مہیا کرنے کے لئے مختص بھی کئے لیکن اس پوری رقم کا فائدہ عوام تک نہ پہنچ سکا۔ کرپشن پر قابو پانے کے لئے حکومت نے راشن سسٹم بھی رائج کیا اور اخوان کے رضاکاروں کی مدد سے‘ ضرورت مندوں تک سستی رو ٹی پہنچانے کی سکیم بھی شروع کی۔ لیکن خوراک کی قلت کے مارے لوگوں کو‘ ان کی ضرورت کے مطابق روٹی نہ پہنچائی جا سکی۔ اسی طرح پٹرول کی بھی راشن بندی ہوئی۔ جس کے نتیجے میں عوام کو سہولت ملنے کے بجائے‘ ان کی تکالیف میں اضافہ ہو گیا۔ پہلے تو لوگ پیسہ خرچ کرکے حسب ضرورت پٹرول حاصل کر لیتے تھے۔ راشن بندی کے نتیجے میں چور بازاری شروع ہو گئی۔ کم حیثیت کے لوگوں کو راشن سکیم کے تحت مقررہ کوٹہ ملنا دشوار ہو گیا اور بلیک میں خریدنے والوں کو طلب سے کم ملنے لگا۔ گویا حکومت نے عوام کو سہولتیں پہنچانے کے لئے جتنے بھی طریقے آزمائے‘ ان سے عوام کی تکلیفوں میں کمی نہ ہوئی۔ ظاہر ہے اس کا حکومت کے سیاسی مخالفین نے فائدہ اٹھایا اور صدر مورسی جس معمولی اکثریت سے کامیابی حاصل کر کے آئے تھے‘ اس میں کمی آنے لگی۔ یہ تھے وہ حالات‘ جن میں اسٹیبلشمنٹ نے تمرد کے نام سے ‘ حکومت مخالف عناصر کو ایک تحریک کے لئے اکٹھا کر لیا۔ 2004ء میں جن لبرل اور آزاد خیال مذہبی گروپوں نے مل کر‘ کیفیہ کے نام سے تحریک شروع کی تھی‘ انہیں ایک بار پھر سے جمع کیا اور اس تحریک کا نام تمرد یعنی بغاوت رکھا گیا۔ اس تحریک کے لئے ہر مکتبہ خیال کے گروپوں سے رضاکار جمع کئے گئے۔ شروع میں اس تحریک کا مرکز قاہرہ میں تھا مگر پھر اس کی برانچیں ملک کے دوسرے حصوں میں بھی قائم ہونے لگیں۔جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ بیروزگاری‘ مہنگائی اور اشیائے ضرورت کی قلت کے باعث‘ عوامی بے چینی میں پہلے ہی اضافہ ہو رہا تھا۔ اس وجہ سے عوام میں تبدیلی کی امید پیدا ہوئی اور تمرّد کو بڑی تعداد میں حامی میسر آنے لگے۔ مختلف آمروں نے اپنے اپنے دور میں جو سیاسی حامی تیار کئے تھے اور آمریت ختم ہونے کے بعد وہ منتشر ہو گئے تھے‘ وہ بھی نئی تحریک کو زورپکڑتے دیکھ کر متحرک ہو گئے اور آمریت کے پرانے حامیوں کو تحریک میں شامل ہوتے دیکھ کر یہ خیال کیا جانے لگا کہ تمرد کو اسٹیبلشمنٹ کی ہمدردیاں حاصل ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ سلفیوں کی ایک طاقتور جماعت جو تحریر چوک کی جدوجہد میں اخوان کے ساتھ تھی‘ وہ موجودہ تحریک سے ابھی تک لاتعلق ہے اور اس نے تمردکی قیادت میں ہونے والے مظاہروں سے علیحدگی اختیار کر رکھی ہے۔ لیکن جامع الاظہر جو کہ ایک فکری مذہبی طاقت کا درجہ رکھتی ہے‘ اس کے ایک ممتاز سکالر شیخ احمد الطیب نے‘ ہفتہ پہلے ایک فتویٰ جاری کیا تھا ‘ جس میں بتایا گیا کہ اسلامی قوانین کے تحت‘ ایک قانونی اور آئینی حکومت کے خلاف ‘ پرامن جدوجہد کرنا جائز ہے۔ ہرچند مصر کی کمزورسیاسی قوتیں ‘ جمہوری نظام کا قیام چاہتی ہیں۔ لیکن عوام کی اکثریت مذہبی رحجانات کی حامل ہے اور مصر کے لبرل سیاسی لیڈر بھی مذہبی تصورات کی بنا پر ‘ جمہوریت مخالف رحجانات رکھتے ہیں۔ یہ کم و بیش تمام مسلمان ملکوں کا مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی اور ملائشیا سمیت‘ جہاں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے‘ جمہوریت اپنی حقیقی روح کے مطابق کبھی نفاذ پذیر نہیں ہو سکی۔ یہ نظام شہریوں کو جو بنیادی آزادیاں فراہم کرتا ہے‘ وہ اسلام کے نام پر اجارہ داریاں قائم کرنے والے طاقتور عناصر نے کبھی گوارا نہیں کیا۔ یہی سبب ہے کہ فتوئوںاور علمائے کرام کے احکامات کے ذریعے رائے عامہ کو بنیادی آزادیوں سے دستبردار ہونے کی ترغیب دی جاتی ہے‘ جو عموماً موثر ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان بھی اس سے محفوظ نہیں۔ مصرکی موجودہ سیاسی کشمکش درحقیقت عوامی حقوق کی جدوجہد اور روایتی حکمران طبقوں کے تسلط کو برقرار رکھنے پر اصرار کے نتیجے میں‘ زورپکڑ رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشروں کے اسی بنیادی تضاد کو دیکھتے ہوئے‘ مغربی ممالک‘ ان میں جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن ان کا مقصود وہ جمہوریت نہیں ہوتی‘ جو ان کے ہاں رائج ہے۔ بلکہ وہ جمہوریت کے نام پر مذکورہ تضادات کو تیز کرتے ہیں تاکہ ان ملکوں میں سیاسی استحکام پیدا نہ ہو سکے اور یہ سبک اور فنکشنل گورننس سے محروم رہیں۔مصر میں سماجی اور سیاسی طاقتوں کی لڑائی جلد ختم ہونے والی نہیں۔وہ ایک طویل عدم استحکام کی راہ پر گامزن ہے اور یہی عدم استحکام اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے مفاد میں ہے۔یاد رکھنے کی بات ہے کہ مغربی بلاک ایک طرف مسلم ملکوں میں جمہوریت کی حمایت کرتا ہے اور دوسری طرف انتہاپسند مذہبی گروہوں کو وسائل اور حوصلے دیتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں