پاکستان دنیا کا پہلا ملک ہے‘ جس نے قرض دینے والے مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کو صاف بتا دیا تھا کہ اس مرتبہ ہم اس کے سامنے کشکول نہیں رکھیں گے۔ کشکول ہم نے توڑ دیا ہے۔ اس کے ٹھیکرے بھی پھینک دیئے ہیں۔آئی ایم ایف والوں کو وہ زمانہ بھول جانا چاہیے‘ جب وہ قرض دینے سے پہلے اپنی شرائط منوایا کرتا تھا۔ یہ نیا پاکستان ہے۔ یہاں نئی حکومت آ گئی ہے۔ اس کے نئے عزائم ہیں۔ نیا اسلوب ہے۔ نئے طور طریقے ہیں۔ اب ہم قرض دینے والے کی طرف سے کوئی شرط قبول نہیں کریں گے۔ شرطیں ہماری طرف سے ہوں گی۔ آئی ایم ایف کو قبول ہوں‘ تو ٹھیک۔ ورنہ وفد کو یہاں سے مایوس ہو کر جانا پڑے گا۔ ہماری طرف سے شرطیں پیش کر دی گئیں۔ ہم نے بتا دیا کہ ہم سبسڈی کو بتدریج کم کریں گے۔ یہاں تک کہ وہ برائے نام رہ جائے گی۔ سبسڈی کم کرنے کا فیصلہ ہم اپنے بجٹ میں پہلے ہی سے شروع کر چکے ہیں۔ وفد کو چاہیے کہ اس موضوع پر ہم سے بات کرنے کی جرأت نہ کرے۔ سبسڈی ختم کرنا ہمارا کام ہے۔ ہم آپ کے کہنے پر یہ نہیں کریں گے۔ آئی ایم ایف کے وفد نے فوری طور پر اپنے شرائط نامے کی فہرست نکالی اور اس میں سے سبسڈی کا لفظ کاٹ دیا اور میزبان وزیرخزانہ سے کہا کہ ’’ہم جو شرائط لکھ کر لائے تھے‘ ان میں سے چونکہ سبسڈی والی شرط پر آپ پہلے ہی عمل کر چکے ہیں‘ اس لئے ہم مذاکرات میں یہ شرط آپ کے سامنے نہیں رکھیں گے۔ہم آپ کی فرمائش کا احترام کرتے ہوئے‘ اس موضوع کو زیربحث بھی نہیں لائیں گے۔ جو کام آپ پہلے ہی کر چکے ہیں‘ ہم اس کی بات کر کے‘ وقت کیوں ضائع کریں؟ ‘‘ اس کے بعد ہماری طرف سے کہا گیا کہ ’’آپ ہمیشہ ٹیکسوں کی آمدنی میں اضافے کا مطالبہ کیا کرتے ہیں۔ ہم سے یہ مطالبہ کرنے کی حماقت مت کیجئے۔ ہم نے ٹیکسوں میں پہلے ہی اضافہ کر دیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کا کچومر ہم نکال چکے ہیں۔ موبائل ٹیلیفون استعمال کرنے والوںکو ادا کردہ بل کا صرف 50فیصد وقت دیا جا رہا ہے۔ وہ 100 روپے کی کالیں ‘ 200 روپے میں کر رہے ہیں۔ آپ اس طرح کے ٹیکسوں میں ردوبدل کرنے کا کہیں گے‘ تو ہم یہ بات نہیں مان سکتے۔ ہو سکتا ہے آپ ہمیں 100 روپے کے بل میں 25 روپے ٹیکس دینے کا مشورہ دیں۔ ہم ٹیکس کی وصولی شروع کر چکے ہیں۔ ہم آپ کا مشورہ مان کر اپنی اس آمدنی سے ہرگز محروم نہیں ہوں گے‘ جو ہمیں اس وقت ہو رہی ہے۔ ہم آپ کا یہ مطالبہ بھی نہیں مانیں گے۔ پٹرول‘ ڈیزل اور گیس پر ٹیکسوں میں ہم نے جو اضافہ کیا ہے‘ وہ آپ کی توقعات سے بھی زیادہ ہے۔ آپ اس معاملے میں‘ مزید کوئی بات نہ کریں۔ آپ کا ریکارڈ ہے کہ آپ ہمیشہ کھاتے پیتے لوگوں پر مزید ٹیکس لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ ہماری سماجی روایات کے خلاف ہے۔ لبرٹی مارکیٹ‘ برانڈرتھ روڈ لاہور‘ جناح سپر مارکیٹ‘بلیوایریا اسلام ‘ ایلفنسٹن سٹریٹ اور صدر کراچی کے تاجران ہمارے حامی اور مددگار ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ان پر ٹیکسوں کے بوجھ ڈال کے ‘ ہم اپنے ووٹروں کی تعداد میں کمی کریں۔ جب یہ لوگ بھی پورا ٹیکس دینے لگیں گے‘ تو ان کی مالی حالت کمزور ہو جائے گی اور یہ عمران خان اور پیپلزپارٹی کے ووٹر بن جائیں گے۔ ہم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ اس معاملے میں اگر آپ نے کوئی مطالبہ کیا‘ تو پھر مذاکرات ہی بیکار ہیں۔ کیونکہ یہ مطالبہ ہم ہرگز نہیں مانیں گے۔ بجلی کے نرخ بڑھانے کا سلسلہ ہم شروع کر رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ ہم بجلی اتنی مہنگی کر دیں گے کہ اس پر نفع ہونے لگے گا۔ آپ ہمیں نفع کمانے سے منع نہیں کر سکتے۔ ملک ہمارا اپنا ہے۔ عوام ہمارے اپنے ہیں۔ وہ جانیں اور ہم جانیں۔ آپ اس سلسلے میں بھی کوئی شرط پیش کرنے کی جرات نہ کریں۔‘‘ کل جب دونوں وفود مذاکرات مکمل ہونے پر میڈیا بریفنگ کے لئے آئے‘ تو آئی ایم ایف کے وفد کے اراکین کے چہرے اترے ہوئے تھے۔ وہ پریشان تھے کہ ہم اپنے ہیڈکوارٹر میں جا کر اعلیٰ حکام کو کیا جواب دیں گے؟ پاکستانی وفد نے ہماری تمام تیاریوں کو بیکار کر کے رکھ دیا۔ وزیرخزانہ بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہے تھے۔ ہمیں چیلنج کر رہے تھے کہ مہنگائی میں اضافے کی کوئی ایسی ترکیب بتائو‘ جس پر ہم نے ازخود عمل نہیں کیا؟ آئی ایم ایف کا وفد جتنی تیاریاں کر کے آیا تھا‘ سب بیکار گئیں۔ آئی ایم ایف کو ہمیشہ بہانے لگانے اور حجتیں کرنے والوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ جو بھی قرض مانگتا ہے‘ وہ مشکلات کی ایک فہرست نکال کر سامنے رکھ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہمارے ہاں غریبی بہت ہے۔ لوگوں کی آمدنی کم ہے۔ ان کے اخراجات زیادہ ہیں۔ مہنگائی سے لوگ پہلے ہی پریشان ہیں۔ حکومت اگر مزید ٹیکس لگائے گی‘ تو ہو سکتا ہے کوئی احتجاجی تحریک شروع ہو جائے۔ کئی ملکوں میں آئی ایم ایف کی شرطیں ماننے والی حکومتوں کے خلاف بڑی بڑی تحریکیں چلیں اور حکومتوں کو گھر جانا پڑا۔ اکثر حکومتیں ہم سے شرائط میں نرمی کا مطالبہ کرتی ہیں اور ہم ان کے نمائندوں کو اپنی مجبوریاں بتا کر قائل کرتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ کو زیادہ رعایات دے دیں‘ تو ہمارے ڈونر ملک اعتراض کریں گے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ قرض لینے والے سے زیادہ شرائط منوائیں اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ کم از کم شرائط پر قرضہ حاصل کر لیں۔ ہم جتنی شرائط منواتے ہیں‘ ہماری کارکردگی کو اچھا سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستانیوں کے سامنے ‘ آئی ایم ایف کے وفد کو منہ کی کھانا پڑی۔ وفد کے اراکین جب بھی کوئی شرط پیش کرنے کی تیاری کر تے‘ پاکستان کی طرف سے پہلے ہی بتا دیا جاتا کہ وہ تو پہلے ہی ‘ اس سے زیادہ کر چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کو آج تک اس طرح کے قرض لینے والے سے واسطہ نہیں پڑا۔ ہمیں اپنے وزیرخزانہ پر فخر کرنا چاہیے۔ ان کی شاندار پرفارمنس کے نتیجے میں ‘ آئی ایم ایف جب قرضے دے گی‘ تو ہماری ساکھ میں اتنا اضافہ ہو گا کہ دنیا کے کئی ملک اور مالیاتی ادارے‘ ہمیں آسانی سے قرض دینے لگیں گے۔ جب آئی ایم ایف کا قرضہ ملتا ہے‘ تو دوسرے قرض دینے والوں کی نظر میں بھی اعتماد پیدا ہو جاتا ہے۔ قرضوں کی منڈی میں ہمارا وقار بڑھ گیا ہے۔ اب ہمیں کشکول کی ضرورت نہیں رہ گئی۔ کشکول وہ پھیلاتا ہے‘ جسے قرض یا گرانٹ دینے والے حیل و حجت سے کام لیتے ہیں۔ اس سے گریز کرتے ہوں۔ اس پر اعتماد نہ کرتے ہوں۔ اسے دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہوں۔ اسے ’’بابا معاف کرو‘‘ کہہ کے ٹال دیتے ہوں۔ ہمارے متعلق اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے۔ دنیا والے ہماری شکل دیکھتے ہی‘ کہیں گے کہ یہ آئی ایم ایف کے تصدیق یافتہ مقروض ہیں۔ دوسروں کو قرض دینے سے پہلے پتہ نہیں کیا کیا منوانا پڑتا ہے؟ لیکن یہ نئے پاکستانی ہیں۔ کشکول پھیلائے بغیر ہی قرض دینے والے کی ساری شرطیں مان چکے ہوتے ہیں۔ دوسرے ‘کشکول لئے پھرتے ہیں تاکہ جوتھوڑا بہت ان کے کشکول میں ڈالا جائے‘ اسے جھولی میں بھر لیں۔پاکستانیوں نے کشکول توڑ کر پھینک دیا ہے۔ وہ قرض دینے والے کو لاجواب کرنے کا پہلے ہی انتظام کر لیتے ہیں۔ کشکول ان کے لئے بیکار ہو گیا ہے۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ قرض دینے والوں کے سامنے ایسی شرائط رکھیں گے‘ جنہیں وہ رد نہیں کر پائے گااور قرض دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ عام طور پہ مقروض‘ مجبور ہوتا ہے۔ پاکستانیوں نے قرض دینے والوں کو مجبور کرنے کا طریقہ سیکھ لیاہے۔ کسی بھی ملک یا مالیاتی ادارے کا نمائندہ یہ ہمت نہیں کر سکتا کہ اسے اپنی شرائط سے بھی زیادہ سہولتوں اور نفع پر قرض لینے والے دستیاب ہوں اور وہ انکار کر دے۔ اس طرح کے نمائندے کی نوکری خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کا جو وفد پاکستان میں آیا تھا اگر وہ ہماری شرائط قبول کرنے سے انکار کر دیتا‘ تو واپس جاتے ہی سارے وفد کی نوکریاں ختم ہو جاتیں۔ وفد کو نوکری بچانے کے لئے پاکستان کی شرائط تسلیم کر کے قرض دینا پڑا۔ پاکستانیوں نے کشکول توڑ دیا ہے۔ اب ہم کشکول نہیں ‘ ڈائریکٹ جھولی پھیلاتے ہیں۔ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ قرض دینے والاجائے گا کہاں؟