9/11 کے بعد افغانستان میں ‘دہشت گردوں پر قابو پانے کے لئے اتحادیوں کی جو پہلی تکون معرض وجود میں آئی تھی‘ آج وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہ تکون حامد کرزئی کے کابل ‘ پرویزمشرف کے اسلام آباد اور بش کے واشنگٹن پر مشتمل تھی۔ آج بش اور مُش دونوں جا چکے ہیں۔ صرف حامد کرزئی بچے ہیں۔ لیکن وہ بھی کیا بچے ہیں؟ انہیں بھی آنے والے دنوں میں اپنے لئے کوئی ٹھکانا نظر نہیں آ رہا۔ کبھی پاکستان سے لڑتے ہیں۔ کبھی صدر اوباما کو آنکھیں دکھاتے ہیں اور کبھی دھمکی دیتے ہیں کہ میں طالبان سے جا ملوں گا۔ اس تکون کے تینوں مراکز میں‘اپنی اپنی جگہ زیرو آپشن زیرغور ہے اور تینوں کی زیرو آپشن کا مطلب الگ الگ ہے۔ امریکہ جب زیروآپشن کی بات کرتا ہے‘ تو درحقیقت وہ حامد کرزئی کو دھمکی دیتا ہے کہ وہ اسے بے یارومددگار چھوڑ کر چلا جائے گا اور اس نے 2014ء میں محفوظ انخلا کا جو منصوبہ بنایا تھا‘ اسے بدل کر زیروآپشن پر آ جائے گا۔ یاد رہے پہلے منصوبے کے تحت امریکہ‘ افغانستان میں اپنے مختصر دستے چھوڑنے کو تیار تھا‘ جو کرزئی حکومت کی فوج کے ساتھ مل کر‘ دہشت گردوں کے خلاف بڑے آپریشنز میں حصہ لے سکیں اور کرزئی کی مدد بھی جاری رہے۔ اب حامد کرزئی کے اکھڑے اکھڑے لہجے کو دیکھ کر‘ امریکہ نے دھمکی دینا شروع کر دی ہے کہ وہ افغانستان میں اپنا ایک فوجی بھی کرزئی کی مدد کے لئے نہیں چھوڑے گا۔ اسی کو وہ زیرو آپشن کہتا ہے۔ جواب میں کرزئی دھمکی دیتا ہے کہ میں امریکہ سے مدد لینے کی بجائے‘ روس‘ بھارت اور اگر ضرورت پڑی تو چین سے اسلحہ لے لوں گا۔ مگر امریکہ اور طالبان کے سامنے نہیں جھکوں گا۔ پاکستان کے لئے اپنی زیرو آپشن ہے۔ ہمارے ملک میں طرح طرح کے دہشت گردوں نے ایسی اندھیر نگری مچا رکھی ہے کہ ہماری معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ سرمایہ کاری تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پا رہے۔ کرپشن کے دانت تیزتر ہو گئے ہیں۔ سکیورٹی فورسز ‘ دہشت گردوں کے خلاف ایک ’’متذبذب‘‘ جنگ لڑتے لڑتے بیزار ہونے لگی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کا شکار ہونے والے دیگر ملکوں کی طرح‘ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ دہشت گردی کا عفریت ہمارے ملک میں اس طرح پائوں پسار لے گا۔ امریکہ پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا‘ تو اس نے بلاتاخیر ایک نئی بلا کا سامنا کرنے کے لئے‘ اپنا ایک نیا دفاعی نظام کھڑا کر لیا۔ ہوم لینڈ سکیورٹی کے نام پر ایک محکمہ قائم کر دیا گیا اور اس میں شہری دفاع اور سکیورٹی کے مختلف ماہرین جمع کر دیئے گئے۔ ایک طرف ایف بی آئی سے لوگ لئے گئے تو دوسری طرف پولیس کے ماہرین کو جمع کیا گیا۔ مختلف ریاستوں کی سپیشل برانچوںکے تجربہ کار فیلڈ آپریٹرز بھی لائے گئے۔ سی آئی اے کی مددلی گئی۔ طرح طرح کی سراغ رسانیوں کے ماہرین اکٹھے کئے گئے۔ نفسیاتی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس طرح سے ایک ایسا مکمل محکمہ قائم کر دیا گیا‘ جس کے پاس ہر طرح کی دہشت گردی کا سراغ لگانے اور اسے روکنے کی موثر صلاحیتیں موجود تھیں اور پھر اس محکمے نے ثابت کیا کہ وہ امریکہ کے معاشرے کو امن اور تحفظ دینے کا پوری طرح اہل ہے۔امریکہ میں دہشت گردی کے جو چند واقعات ہوئے‘ وہ نفسیاتی مریضوں کے انفرادی فعل تھے۔ لیکن دہشت گردی کا مقصد سامنے رکھ کر‘ جس جس نے‘ جہاں جہاں کوئی منصوبہ بنایا‘ اسے واردات سے پہلے وہ جہاں بھی تھا‘ دبوچ لیا گیا۔ روس کے خلاف دہشت گردی شروع ہوئی‘ تو اس نے بھی اپنی سکیورٹی فورسز میں دہشت گردی کا ایک خصوصی سیکشن قائم کر دیا اور اسے کسی بھی دوسرے محکمے کی محتاجی سے آزاد کر کے ‘فضائیہ سے مدد لینے کا اختیار دے دیا گیا۔ بھارت میں دہشت گردیوں کے چند واقعات کے بعد‘ جب ممبئی کا بڑا واقعہ ہوا‘ تو اس نے بھی اپنی داخلی سکیورٹی کے نظام کو نئی ضروریات کے تحت منظم کرنا شروع کیا۔ اب وہاں اندرونی دہشت گردوں کی محدود وارداتیں تو ہو جاتی ہیں لیکن کوئی بیرونی دہشت گرد تنظیم‘ بھارت میں بڑی واردات نہیں کر سکی۔ ہمیں دہشت گردی کا سامنا کرتے ہوئے 11سال ہو چکے ہیں لیکن ہم ابھی تک یہی فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہمیں دہشت گردوں کا مقابلہ کیسے کرنا ہے؟ یہ مقابلہ کرنے کے لئے ملک کا انتظامی سربراہ‘ کس کو ٹیلیفون کال کر کے تمام فورسز کوسارے محاذوں پر مستعد اور متحرک کر سکتا ہے؟ ہم نے دہشت گردی کے کسی واقعے کی تحقیقات نہیں کیں۔ کیونکہ ہمارے پاس ایسا کوئی محکمہ ہی نہیں ہے‘ جس کے ذمے یہ کام لگایا جا سکے۔ بنو ں جیل کا اتنا بڑا واقعہ ہوا‘ کسی طرح کی تحقیقات نہیں کی گئیں۔ کامرہ ایئر بیس‘ مہران نیول بیس‘ جی ایچ کیو‘ پشاور ایئرپورٹ‘ کوئٹہ میں سینکڑوں افراد کا قتل عام‘ طالبات کی بس جلانے کا سانحہ‘ یہ سب اتنے بڑے بڑے واقعات ہیں کہ اگر ہمارے پاس دہشت گردی سے لڑنے کے لئے کوئی منصوبہ اور ادارہ موجود ہوتا‘ تو ہم ان سارے واقعات کی تحقیقات کی روشنی میں مستقبل کی حکمت عملی مرتب کر کے‘ دہشت گردی کے آئندہ واقعات سے بچنے کی تیاریاں کر سکتے تھے۔ لیکن ہم تو مست ہاتھی کی طرح یوں پڑے ہیں‘ جیسے ہمارے ملک میں کچھ ہوا ہی نہیں اور مرنے والے انسان نہیں‘ چیونٹیاں تھے۔ دہشت گردی کے ہولناک واقعات ہم پر اچانک مسلط ہو رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے لئے اتنی آسانیاں جو پاکستان میں مہیا ہیں‘ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں شاید ہی دستیاب ہوں۔ اب نئی حکومت آئی ہے‘ تو ہمارے ہاں بھی یہ آواز اٹھنے لگی ہے کہ دہشت گردی کے لئے ہمیں زیروٹالرنس یا زیرو آپشن کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ دہشت گردی کے خلاف پرانے اتحادی‘ اپنے اپنے زیروآپشن کو پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ ایک سپرطاقت ہے۔ وہ چاہے تو اپنی زیروآپشن پر عمل کر سکتا ہے اور اس کے پاس ایک نئی آپشن بھی موجود ہے۔ اسے اچھی طرح علم ہے کہ سوویت یونین کی طرح اگر وہ اپنی افواج کو یک لخت افغانستان سے باہر لے جائے گا‘ تو وہاں خانہ جنگی کا بھڑک اٹھنا یقینی ہو گا۔ کرزئی کی فوج تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی۔ کرزئی نے جو سیاسی ڈھانچہ کھڑا کر رکھا ہے‘ وہ اس کے اختیار میں نہیں رہے گا۔ کابل کی حکومت پر روس اور بھارت کی مدد سے شمالی اتحادکے قابض ہونے کا امکان ہے۔ ہو سکتا ہے کابل پر قبضے کی جنگ ایک مرتبہ پھر لڑی جائے۔ لیکن اس مرتبہ طالبان کو‘ پاکستان کی طرف سے وہ مدد نہیں مل سکے گی‘ جو ابتدا میں حاصل ہو گئی تھی۔ دہشت گردی کی جنگ ‘پاکستان کے اندر پہنچا دی گئی ہے۔ اب اس کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں کہ و ہ دوسرے ملک میں کوئی محاذ کھول کر کامیاب ہونے کا سوچ سکے۔ طالبان کو اب خلیجی ملکوں کی درپردہ مدد بھی حاصل نہیں رہے گی۔ کیونکہ قطر میں مذاکرات کا اہتمام کر کے‘ سعودیوں اور امارات کے حکمرانوں نے امریکیوں کے ساتھ طالبان کی انڈرسٹینڈنگ پیدا کرنے کی جو کوشش کی تھی‘ وہ ناکام ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ طالبان نے قطر کا دفتر بند کر کے‘ ہر قسم کے مذاکرات سے قطع تعلقی کر لی ہے۔ مذاکرات بحال کرنے کی کوششیں ضرور ہوں گی لیکن اب یہ اتحادی افواج کے محفوظ انخلا تک محدود رہیں گی۔ طالبان کی اپنی جنگ میں ‘ ان کی مدد کرنے کا کوئی سمجھوتہ مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اس کے برعکس ایک اور امکان ضرور نمودار ہو سکتا ہے۔ اس کے بارے میں ابھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ محض خیال آرائی کی خاطر عرض کئے دیتا ہوں کہ شمالی اتحاد کے ساتھ روس اور بھارت کی پرانی انڈرسٹینڈنگ ہے اور وہ میدان جنگ میں عملی تعاون بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن طالبان اور شمالی اتحاد کے درمیان جنگ کا جو طویل وقفہ آیا ہے‘ اس میں بہت کچھ ہو چکا ہے۔ روس اور بھارت کی مدد سے شمالی اتحاد والے‘ پختونوں میں ایک مضبوط لابی پیدا کر چکے ہیں۔ امریکہ کی بنائی ہوئی فوج کا بڑا حصہ ‘ شمالی اتحاد کا حامی بن سکتا ہے۔ جب طالبان ہر طرح کی بیرونی امداد سے محروم ہو ں گے یا اس میں کمی آئے جائے گی اور دوسری طرف ایک مضبوط اتحاد‘ جس کو دو بڑی طاقتوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہو گی‘ افغانستان کے میدان جنگ کا نقشہ بدل جائے گا۔ چین اپنے تجارتی مفادات ‘ افغانستان میں کافی پھیلا چکا ہے۔ اسے اپنی تجارتی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے افغانستان میں امن کی ضرورت ہو گی اور جب وہ دیکھے گا کہ وہاں پر غالب آنے والی طاقتیں امن قائم کرنے کی پوزیشن میں آ رہی ہیں‘ تو وہ ان کے ساتھ بھی تعاون شروع کر دے گا۔ کیونکہ چین کی سٹریٹجک اور سیاسی طاقت ‘ تجارت میں ہے اور کچھ بعید نہیں کہ امریکہ بھی بھارت کے ذریعے اس نئے گٹھ جوڑ میں حصے دار بن جائے۔ آج یہ سب کچھ بعید ازقیاس لگتا ہے۔لیکن کون جانتا ہے؟ واقعات کیا رخ اختیار کرنے والے ہیں؟ مگر اس سٹریٹجک کھیل میں‘ ہمارے پاس زیرو آپشن کے سوا کچھ نہیں۔