متحدہ قومی موومنٹ کے بارے میں سینہ گزٹ تو بہت سے چلتے رہے لیکن حکومتی اور نشریاتی اداروں کی طرف سے اس طرح کی افواہوں کا کبھی نوٹس نہیں لیا گیا۔ جب سکاٹ لینڈیارڈ اور لندن میٹروپولیٹن پولیس کی طرف سے کارروائی کی خبریںسامنے آئیں‘ ایم کیو ایم کے معاملات پر میڈیا میں بھی بحث شروع ہو گئی۔ گزشتہ روز بی بی سی کے پروگرام ’’نیوزنائٹ‘‘ کا بہت چرچا رہا اور مقامی ٹی وی چینلز نے اس کی کچھ فٹیج دکھا کر تبصرے بھی کئے ۔ اس سے پہلے اخباری کالموں میں ایم کیو ایم کے قائد‘ الطاف حسین کا مختلف حوالوں سے ذکر ہوا۔ ’’نیوز نائٹ‘‘ میں ان کی مختلف تقریروں کے حصے چلائے گئے‘ جن میں انہیں یہ کہتے دکھایا گیا کہ ’’ہم بوریاں تیار کریں گے‘‘۔ بعض ایسے حصے بھی نشر کئے گئے‘ جن کی بنیاد پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے مخالفین کو تشدد کی دھمکیاں دیں۔ بی بی سی کے نمائندے نے بتایا کہ تشدد پر اکسانے کے الزامات پر باضابطہ تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں‘ الطاف حسین کے گھر اور دفتر پر چھاپے مارے گئے۔ پہلا چھاپہ 6دسمبر2012ء کو پولیس اینڈ کریمنل ایویڈنس ایکٹ کے تحت مارا گیا۔برآمد شدہ رقم پروسیڈ آف کرائم ایکٹ کے تحت قبضے میں لے لی گئی۔ 18جون 2013ء کو شمالی لندن کے 2مکانات پر چھاپے مارے گئے۔ بی بی سی کے مطابق ان چھاپوں میں نقدی کی صورت میں ڈیڑھ لاکھ پونڈ دفتر اور اڑھائی لاکھ پونڈ گھروں سے برآمد ہوئے۔ برطانوی قوانین کے تحت اتنی بڑی رقم نجی طور پر دفتر یا گھر میں کسی ریکارڈ اور جواز کے بغیر رکھنا مشکوک سمجھا جاتا ہے۔ وہاں ہر طرح کی رقم کا تحریری حساب موجود ہونا چاہیے۔ یہ رقم کیسے حاصل کی گئی؟ کن ذرائع سے آئی؟ اس پر کتنا ٹیکس دیا گیا؟ وغیرہ وغیرہ۔ مگر برطانوی پولیس کو اس سلسلے میں کسی طرح کی دستاویزی شہادتیں دستیاب نہیں ہوئیں۔ اسی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ پولیس کو اگر ان رقوم کے جائز ہونے کے اطمینان بخش ثبوت نہ ملے‘ تو منی لانڈرنگ کا کیس بنایا جا سکتا ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما اور کارکن اسے ایک سازش کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ فاروق ستار نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ برطانوی ادارے‘ انتہاپسندوں کے زیراثر ان کے لیڈر کی کردار کشی کر رہے ہیں۔ کیونکہ ان کی پارٹی متوسط طبقے اور محنت کشوں کی نمائندہ پارٹی ہے‘ جو سیکولرطرزحکومت پر یقین رکھتی ہے اور وہ انتہا پسندی کا مقابلہ کرتی ہے۔ اس وجہ سے انتہاپسند ان کی پارٹی کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ انہوں نے بی بی سی کی فلم کو‘ ایم کیو ایم کے خلاف پراپیگنڈے کا حصہ قرار دیا‘ جو طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں کے زیراثر کیا جا رہا ہے۔ فاروق ستار نے ‘ الطاف حسین کی ٹی وی فٹیج کو سیاق و سباق سے علیحدہ قرار دیا اور کہا کہ الطاف حسین نے کسی بھی موقع پر پیٹ پھاڑنے یا لاشوں کے لئے بوری بنانے کی بات نہیں کی۔ فاروق ستار کا ان جملوں پر یہ تبصرہ بہت دلچسپ تھا کہ ’’الطاف حسین یہ باتیں مذاق میں کر رہے تھے‘ دھمکیوں کا کوئی مقصد نہیں تھا۔الطاف حسین کے خلاف ساری مہم شہادتوں اور ثبوتوں کے بغیر چلائی جا رہی ہے۔ ابھی تک الطاف حسین کو کسی بھی الزام میں عدالت سے سزا نہیں دی گئی۔‘‘ الطاف حسین کے خلاف تحقیقات کے حوالے سے کراچی میں قید دو افراد کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف اطلاعات ہیں۔کچھ کہتے ہیں کہ لندن پولیس ان دو قیدیوں سے خفیہ رابطوں میں معلومات حاصل کر چکی ہے۔ رحمن ملک نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں لندن پولیس کی طرف سے نہ کوئی درخواست موصول ہوئی اور نہ ہم نے کسی قیدی سے ان کا رابطہ کرایا۔ موجودہ حکومت کی طرف سے بھی یہی کہا گیا کہ اس نے قیدیوں سے کسی کا رابطہ نہیں کرایا۔ لندن پولیس گزشتہ ماہ‘ ہیتھرو ایئرپورٹ پر کینیڈا سے آنے والے ایک شخص کی گرفتاری کو بھی انتہائی اہم ظاہر کر رہی ہے۔ اس شخص کو کئی گھنٹوں کی تحقیقات کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ ضمانت پر رہا کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس کے خلاف کوئی کیس یا شہادتیں تصدیق طلب ہیں اور درحقیقت وہ اب پولیس کی نگرانی میں ہے‘ جسے ضمانت پر چھوڑا گیا۔ لندن پولیس کا یہ بھی موقف ہے کہ اسے الطاف حسین کی تین تلوار چوک والی تقریر کے بعد‘ برطانیہ میں مقیم ہزاروں افراد کی طرف سے شکایات موصول ہوئی ہیں اور پاکستان سے آنے والی شکایات بھی سامنے ہیں۔ ان شکایات کی روشنی میں ‘ الطاف حسین کی مذکورہ تقریر کا متن‘ ہوم آفس کو ترجمے اور تجزیئے کے لئے بھجوایا گیا ہے۔ ابھی تک ہوم آفس کی طرف سے تفصیلی رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔ بی بی سی کے پروگرام کے بعد ایک مبینہ خط کا بھی ذکر شروع ہو گیا۔ اس خط کے لکھے جانے اور وصول کئے جانے کے سوال پر ایم کیو ایم اور برطانوی حکومت میں نئی بحث چل رہی ہے۔ ’’نیوزنائٹ‘‘ نے دفتر خارجہ سے تحریری طور پر درخواست کی کہ معلومات تک رسائی کے حق کے قانون کے تحت‘ بی بی سی کو بتایا جائے کہ خط میں کیا لکھا تھا اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس خط کے مندرجات کافی متنازعہ ہیں۔ برطانوی دفتر خارجہ نے جوابی مراسلے میں تصدیق کر دی ہے کہ الطاف حسین کی طرف سے‘ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو ایک خط لکھا گیا تھا‘ جس میں انہوں نے دہشت گردی کے حوالے سے آئی ایس آئی کے خلاف معلومات فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی۔ ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے اس خط کو بھی مخالفانہ مہم کا حصہ قرار دیا ہے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ میںاس خط کے مندرجات کو گہری تشویش کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں معلومات جمع کی جا رہی ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ برطانوی وزیراعظم کو یہ پیش کش کرنے سے الطاف حسین کا مقصد کیا تھا؟ وہ پاکستانی لیڈر کی حیثیت سے ایک دوسرے ملک کو حساس معاملات پر کس قسم کی معلومات فراہم کرنا چاہتے تھے؟ ایم کیو ایم کے خلاف یہ سارے معاملات ایک دم سامنے نہیں آئے۔ برطانیہ میں ‘ ایم کیو ایم کے بارے میں سوالات اس وقت پیدا ہونے لگے تھے‘ جب ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل کیا گیا۔ اس پراسرار قتل کی تفتیش کے دوران ایم کیو ایم کے کئی مشکوک معاملات پولیس کے علم میں آئے‘ جن پر درپردہ تفتیش شروع کر دی گئی تھی۔ عمران فاروق کے قتل کے سلسلے میں قریباً 4ہزار افراد سے تحریری‘ برقیاتی اور زبانی طور پر تفتیش کی گئی۔اس دوران بہت سے دوسرے معاملات پولیس کے نوٹس میں آئے اور اسے قتل کے علاوہ منی لانڈرنگ کے الزام پر بھی تفتیش کا نیا سلسلہ شروع کرنا پڑا۔ پولیس فی الحال قتل اور منی لانڈرنگ پر کیس مکمل کرکے عدالت میں جانے کی تیاری کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بعض دیگر معاملات بھی خفیہ طور پر‘ زیرتفتیش ہیں۔ برطانوی پولیس جو دو مقدمات تیار کر رہی ہے اگر انہیں عدالت میں ثابت کر دیا گیا ‘ تو الطاف حسین کے لئے کڑی آزمائش کا وقت آ سکتا ہے۔ منی لانڈرنگ کے مقدمے میں 14سال قید کی سزا ہو سکتی ہے اور قتل کا الزام ثابت ہونے پر عمرقید کی سزا ہوتی ہے۔ یوں تو ایم کیو ایم آغاز ہی سے مشکلات کا سامنا کرتی آ رہی ہے۔ مختلف حکومتوں کے دور میں اس کے خلاف پولیس اور ملٹری ایکشن ہو چکے ہیں۔ لیکن وہ ہر آزمائش کے بعد اپنی تنظیم اور طاقت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ اب برطانیہ میں جو قانونی کارروائی ہو رہی ہے‘ اس کے نتیجے میں پارٹی کو ایک بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسی صورت میں ایم کیو ایم کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی؟ اور اپنی سیاسی اور تنظیمی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے اس نے کیا تیاریاں کر لی ہیں یا کرنے والی ہے؟ اس کا جواب آنے والا وقت دے گا۔