"NNC" (space) message & send to 7575

کلاشنکوف سے مکالمے تک (1)

آج میں طالبان کمانڈر عدنان رشید کا وہ خط پیش کر رہا ہوں جو اس نے ملالہ یوسف زئی کے نام لکھا۔ خون پر تلوار کی فتح کا یہ معرکہ ایک نہتی لڑکی ملالہ یوسف زئی کے ہاتھوں برپا ہوا۔ اس نے کلاشنکوف اور بم چلانے والے ہاتھوں میں قلم دے دیا۔ مہذب انسانوں کے مابین مکالمہ ہی وہ طاقت ہے جس میں ہم اپنے خیالات و افکار کا اظہار کرتے ہیں۔ جو لوگ بندوق کے ذریعے بات کرنا چاہتے ہیں وہ کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر سکتے۔ آج عدنان رشید نے قلم اٹھا کر اظہار خیال کیا ہے۔ کل اگر دوسرے دہشت گرد بھی اسی راستے پر آ جائیں تو پاکستان کی تمام سیاسی قیادت ان کے ساتھ مکالمے کے لیے تیار ہے۔ یہ خط اسی ذہنی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے جو انہیں دہشت گردی کی طرف لے کر گئی ہے۔ لکھنے والا سر سید احمد خان کے بارے میں ایسے خیالات کا اظہار کرے تو ہمیں کلاشنکوف سے مکالمے تک پہنچنے کے لیے طویل سفر طے کرنا پڑے گا۔ خط اگرچہ طویل ہے لیکن کسی دہشت گرد کی طرف سے پہلا خط ہونے کی بنا پر میں اسے من و عن شائع کر رہا ہوں۔ ’’شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے عدنان رشید کی جانب سے ملالہ یوسف زئی کے نام ان کے لیے امن اور سلامتی کا پیغام جنہوں نے راہ ہدایت اختیار کی۔ مس ملالہ یوسف زئی! میں یہ خط آپ کو بالکل ذاتی حیثیت میں لکھ رہا ہوں۔ ضروری نہیں کہ یہ تحریک طالبان پاکستان یا کسی دوسرے جہادی گروہ کا بھی مؤقف ہو۔ میں نے آپ کے بارے میں سب سے پہلے بی بی سی اردو سروس کے ذریعے اس وقت سنا جب میں بنوں جیل میں تھا۔ اس وقت بھی میں آپ کو خط لکھنا چاہتا تھا۔ یہ نصیحت کرنا چاہتا تھا کہ طالبان مخالف سرگرمیوں سے باز رہیں لیکن مجھے آپ کا پتہ معلوم نہ ہو سکا۔ میں سوچتا رہا کہ آپ کے ساتھ کیسے رابطہ قائم کروں جبکہ آپ اپنی تحریروں میں اپنا فرضی نام استعمال کرتی تھیں۔ آپ کے لیے میرے تمام تر جذبات برادرانہ ہیں کیونکہ ہم دونوں ایک ہی قبیلے یوسف زئی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی دوران جیل توڑے جانے کا واقعہ پیش آیا اور مجھے فرار ہونے کا موقع مل گیا۔ جب آپ پر حملہ کیا گیا تو یہ میرے لیے بھی صدمے سے کم نہ تھا۔ میں نے سوچا کہ کاش ایسا نہ ہوتا اور میں نے بروقت آپ سے رابطہ کر کے آپ کو سمجھا دیا ہوتا۔ طالبان نے آپ پر حملہ کیا، اسلام کے لحاظ سے یہ ٹھیک تھا یا غلط یا آپ قتل کر دیے جانے کے قابل تھیں یا نہیں، میں اس بحث میں نہیں الجھوں گا، اس معاملے کو پروردگار عالم پر چھوڑ دیتے ہیں، وہی بہترین فیصلے کرنے والا ہے۔ سب سے پہلے تو آپ اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ طالبان نے آپ پر حملہ اس لیے نہیں کیا تھا کہ آپ سکول جاتی تھیں۔ یہ حقیقت بھی جان لیں کہ طالبان یا مجاہدین کسی مرد، عورت یا لڑکی کے تعلیم حاصل کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ آپ بالقصد ان کے خلاف لکھ رہی تھیں اور سوات میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی ان کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی مہم چلا رہی تھیں۔ آپ کی تحریریں اشتعال انگیز تھیں۔ آپ نے کل اپنی تقریر میں کہا کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے اور یہ کہ طالبان نے آپ پر آپ کی اس تلوار کی وجہ سے حملہ کیا، آپ کی کتابوں اور سکول کی وجہ سے نہیں۔ طالبان کی بغاوت سے پہلے سوات میں ہزاروں لڑکیاں سکول جاتی تھیں۔ طالبان کے زور پکڑنے کے بعد بھی وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیا آپ وضاحت کرنا پسند فرمائیں گی کہ صرف آپ ہی طالبان کی ہٹ لسٹ پر کیوں تھیں؟ یہاں میں ایک اور نکتے کی وضاحت بھی کرنا چاہتا ہوں کہ طالبان سکولوں کو کیوں بموں سے اڑا دیتے ہیں؟ خیبرپختونخوا اور فاٹا میں صرف طالبان ہی نہیں جو سکولوں کو بارود سے اڑا رہے ہیں بلکہ پاکستانی فوج اور فرنٹیئر کانسٹیبلری بھی اس معاملے میں برابر کی شریک ہے۔ دونوں کی جانب سے اس اقدام کی مشترکہ وجہ یہ ہے کہ یہ سکول طالبان یا پاک فوج میں سے کسی بھی پارٹی کے کنٹرول میں آ جائیں تو ان کو پناہ گاہوں اور عبوری کیمپوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ 2004ء میں‘ میں سوات میں تھا اور صوفی محمد کی جانب سے انقلاب لانے کی پہلی کوشش کی ناکامی کی وجوہ تلاش کر رہا تھا۔ میں نے جانا کہ سوات کی تحصیل مٹہ کے کچھ سکولوں میں ایف سی موجود ہے اور ان کو پناہ گاہوں اور عبوری کیمپوں کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ کس کو الزام دیا جائے؟۔ فاٹا میں درجنوں سکولوں کو پاک فوج اور ایف سی بیرکوں کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ آپ چاہیں تو اس کی تحقیق کر سکتی ہیں۔ جب کوئی مقدس چیز مہلک بن جائے تو اس کا خاتمہ ضروری ہو جاتا ہے۔ یہی طالبان کی پالیسی ہے۔ تزویراتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے سکولوں کو بارود سے اڑانا طالبان کا کام نہیں۔ اب میں سب سے اہم معاملے یعنی تعلیم کی طرف آتا ہوں۔ یہ بات حیرت کا باعث ہے کہ آپ تعلیم کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں۔ آپ اور یو این او‘ دونوں یہ دکھاوا کر رہے ہیں کہ آپ پر حملہ تعلیم حاصل کی وجہ سے کیا گیا۔ حقیقت یہ نہیں ہے۔ ایمانداری کا مظاہرہ کریں۔ تعلیم نہیں بلکہ آپ کی جانب سے کیا گیا پروپیگنڈا اصل مسئلہ تھا۔ اور ایک سوال یہ ہے آپ اب کیا کر رہی ہیں؟ آپ اپنی زبان سے دوسروں کا مؤقف بیان کر رہی ہیں۔ اگر آپ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے تو یہ بھی جانتی ہوں گی کہ زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ تلوار کا زخم تو ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن زبان سے لگنے والا زخم سدا ہرا رہتا ہے۔ میں آپ کے ساتھ یہ معلومات شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ برصغیر پر برطانیہ کے قبضے سے پہلے یہاں کا ہر باشندہ لکھنا پڑھنا چاہتا تھا۔ مقامی افراد نے برطانوی افسروں کو عربی، ہندی، اردو اور فارسی سکھائی۔ اس وقت ہر مسجد میں ایک مدرسہ بھی قائم تھا اور مسلمان حکمران ان مدارس پر بھاری رقوم خرچ کیا کرتے تھے۔ جس زمانے میں ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی یہ علاقہ کاشت کاری‘ ریشم اور پٹ سن کی پیداوار کے لیے مشہور تھا۔ یہاں پر ٹیکسٹائل انڈسٹری تھی اور جہاز سازی کی صنعت پنپ رہی تھی۔ غربت نہ ہونے کے برابر تھی۔ کسی قسم کا کوئی بحران نہ تھا۔ تہذیبوں یا مذاہب کے درمیان کوئی اختلافات نہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں یہاں کا نظام تعلیم اعلیٰ نظریات پر قائم تھا۔ میں آپ کی توجہ ایک تحریر کی جانب دلانا چاہتا ہوں جو سر ٹی بی میکالے نے برطانوی پارلیمنٹ کو برصغیر میں تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے ارسال کی۔ 2 فروری 1835ء کو لکھے گئے اس مراسلے میں میکالے نے واضح کیا کہ برصغیر میں مسلمانوں کے نظام تعلیم کی جگہ وہ کس طرح کا تعلیمی نظام چاہتا ہے۔ اس نے لکھا ’’ ہمیں فوری طور پر ایک ایسا طبقہ تشکیل دینے کی کوشش کرنی چاہیے جو ہمارے اور ان لاکھوں افراد کے درمیان ترجمان کا کردار ادا کر سکے جن پر ہم حکومت کرتے ہیں۔ ایک ایسی کلاس جو اپنے خون اور رنگ کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو لیکن نقطہ نظر‘ مورال اور علم و حکمت کے لحاظ سے انگریز ہو‘‘۔ یہ تھا اُس نام نہاد تعلیمی نظام کا منصوبہ اور مشن جس کے لیے آپ مرنے کے لیے تیار ہیں اور جس کے لیے اقوام متحدہ کے کرتا دھرتا آپ کو اپنے دفاتر میں لے گئے تاکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ایسے ایشیائی افراد تیار کیے جا سکیں جو خون کے لحاظ سے تو ایشیائی ہوں لیکن ذوق کے لحاظ سے انگریز نظر آئیں۔ ایسے افراد کو تیار کیا جا سکے جو رنگ کے لحاظ سے تو افریقی ہوں لیکن نقطہ نظر کے لحاظ سے انگریز محسوس ہوں۔ یہ ہے وہ نظام جو آپ کا آئیڈیل ہے۔ وہ سارے انسانوں کو انگریز کیوں بنانا چاہتے ہیں؟ اس لیے کہ انگریز یہودیوں کے حمایتی بلکہ غلام ہیں۔ کیا آپ جانتی ہیں کہ ہندوستان میں انگریزی تعلیم کے بانی اور علامت سمجھے جانے والے سر سید احمد خان ایک فری میسن تھے۔ آپ نے کہا کہ ایک استاد، ایک قلم اور ایک کتاب دنیا تبدیل کر سکتے ہیں۔ میں آپ کی اس بات سے پوری طرح متفق ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ کون سا استاد، کون سا قلم اور کون سی کتاب؟ اس کی تخصیص ہونی چاہیے۔ پاک پیغمبرؐ نے کہا تھا: ’’میں آپ کے درمیان ایک معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں اور اپنے ساتھ کتاب لایا ہوں‘‘۔ انہیں قرآن کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ایسا پاکیزہ اور معزز معلم ہی دنیا تبدیل کر سکتا ہے۔ آپ نے مثال دی کہ ایک بار ایک صحافی نے ایک طالب علم سے پوچھا کہ ایک طالب تعلیم سے اتنا خوفزدہ کیوں رہتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ طالب یہ نہیں جانتا کہ اس کتاب میں کیا ہے۔ یہی سوال میں آپ سے اور آپ کی وساطت سے پوری دنیا سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ اللہ کی اس کتاب سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں، اس لیے کہ وہ نہیں جانتے اس میں کیا ہے۔ طالبان چاہتے ہیں کہ ان باتوں کا نفاذ ہو جن کا حکم اللہ کی کتاب میں ہے جبکہ اقوام متحدہ ان باتوں کا نفاذ چاہتی ہے جو انسان کی تصنیف کردہ کتابوں میں لکھی ہیں۔ آپ نے بے انصافی کے مرتکب ادارے کے سٹیج پر کھڑے ہو کر انصاف اور برابری کی بات کی ہے حالانکہ وہاں سب قومیں برابر نہیں ہیں۔ چند ریاستوں کو ویٹو کا حق حاصل ہے جبکہ باقی ممالک بے بس ہیں۔ درجنوں بار ایسا ہو چکا کہ پوری دنیا نے اسرائیل کے خلاف مشترکہ آواز بلند کی لیکن صرف ایک ویٹو انصاف کا گلا گھونٹنے کے لیے کافی ٹھہرا۔ وہ پلیٹ فارم جس پر کھڑے ہو کر آپ پوری دنیا سے مخاطب ہو رہی ہیں، نیو ورلڈ آرڈر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ پرانے ورلڈ آرڈر میں آخر کیا خرابی ہے؟ نیو ورلڈ آرڈر کا پرچار کرنے والے گلوبل ایجوکیشن، گلوبل معیشت،گلوبل آرمی، گلوبل تجارت، گلوبل حکومت اور آخر میں گلوبل مذہب چاہتے ہیں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ ان سارے عالمی منصوبوں میں کہیں پیغمبرانہ رہنمائی کے لیے بھی کوئی گنجائش ہے یا نہیں؟‘‘ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں