برادرم ناجی صاحب‘ السلامُ علیکم‘ رمضان مبارک۔ امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو‘ آپ کے اہل و عیال کو اور تمام عزیزواقارب کو تندرست و خوش و خرم رکھے‘ عمر دراز کرے اور ہرشرونظربد سے محفوظ رکھے۔ آمین‘ ثم آمین۔ میری آپ سے پہلی ملاقات 1991ء میں ہالیڈے ان میں اس وقت ہوئی تھی جب نوازشریف صاحب بطور وزیراعظم ہمارے (KRL کے) سیمینار کا افتتاح کرنے آئے تھے۔ مدت بیت گئی۔ ہم دونوں جوان تھے۔ بعد میں آپ کو ٹی وی پر دیکھتا رہتا ہوں اور اعلیٰ کالم اور تجزیئے پڑھتا رہتا ہوں۔ کچھ لوگوں نے فون کئے اور ای میلز کیں کہ’’ دنیا‘‘ میں آپ نے دو حصوں میں ایک کالم میں میری کوتاہیوں اور کمزوریوں کے بارے میں تحریر فرمایا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ان میں کچھ باتیں حقائق کے خلاف تھیں۔ مجھے تو خوشی ہوتی ہے جب کوئی انسان سمجھ کر تنقید کرے اور مجھے فرشتہ نہ سمجھے۔ آپ کو علم ہے کہ میں بھوپال سے آیا ہوا مہاجر ہوں۔ کراچی آیا۔ BSC کیا اور پھر یورپ چلا گیا‘ جہاں اعلیٰ یونیورسٹیوں میں ملازمت کر کر کے تعلیم حاصل کی اور ایک عنقا ٹیکنالوجی‘ جس پر ہالینڈ‘ جرمنی اور انگلستان کے سینکڑوں سائنسدانوں نے 21 سال میں مہارت حاصل کی تھی‘ اس کو چار سال میں سیکھ لیا اور جب پاکستان پر برا وقت پڑا تو آ کر ملک کو ایٹمی قوت بنانے میں مدد دی۔ کہوٹہ کا نام میرے نام پر رکھنا (جنرل ضیاء یکم مئی 1981ء)‘ ہلال امتیاز‘ دو بار نشان امتیاز‘ 18 اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں‘ کاغستان‘ کوریا کی اکیڈمی آف سائنسز کی فیلوشپ‘ اسلامک ڈیویلپمنٹ بنک کی سائنس کمیٹی کی رکنیت‘ کئی اداروں کا میرے نام سے منسوب کئے جانا‘ لوگوں کی محبت کا ثبوت ہے۔ میں نا راوین ہوں نا ایچی سن‘ نا جاٹ‘ نا ارائیں‘ نا ملک‘ نا چودھری‘ ایک متوسط گھرانے سے تعلق ہے۔ والد ہیڈ ماسٹر ہوا کرتے تھے۔ ہر حال میں اللہ رب العزت کا شکر گزار ہوں۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور نہ ہی حرام کی ایک پائی کھائی ہے۔ اللہ کے سامنے حاضر ہونے سے کانپتا ہوں۔ ایٹمی پروگرام سے متعلق سابق سفیر میاں عبدالوحید نے بھی جو کچھ لکھا ہے وہ حرف بحرف صحیح ہے۔ چند کتب آپ کے مطالعہ کے لئے پیش کر رہا ہوں۔ والسلام‘ آپ کی دعائوں کا طالب‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ڈاکٹر صاحب کا یہ خط چند روز پہلے موصول ہوا۔ خط کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے اپنے بارے میں چند مشاہیر کی آرا بھی بھیجی ہیں‘ جن میں انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے بارے میں اظہارخیال فرمایا ہے۔ طویل اقتباسات اور حوالوں میں سے میں نے کچھ حصے منتخب کئے ہیں۔ ایک خط ہے‘ جو اس وقت کے وزیراعظم جناب نوازشریف نے ڈاکٹر صاحب کو لکھا تھا اور دوسرا خط اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیرکرامت کا ہے۔ دونوں خطوط پیش خدمت ہیں۔ وزیراعظم پاکستان محمد نوازشریف (تاریخ 31 جولائی 1998ء) میرے عزیز ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب پاکستان کی دو دہائیوں پر پھیلی ہوئی ایٹمی اور میزائل تیار کرنے کی صلاحیت کی شدید خواہش کو بالآخر 6 اپریل 1988ء کو غوری میزائل کا کامیاب تجربہ کرنے اور 28 مئی 1998ء کو ایٹمی طاقت بن جانے کے کامیاب تجربے سے پذیرائی حاصل ہوئی۔ ہر مرحلہ پر مشکلات سے پُر‘ یہ شاہراہ طویل اور مشکل تھی‘ تاہم آپ کی اور آپ کے سائنس دانوں اور انجینئرز کی ٹیم کے پرخلوص جدوجہد کے عزم اور مسلسل کاوشوں سے تمام رکاوٹوں پر مکمل قابو پا لینے پر میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور نتیجتاً قادر مطلق کی مہربانی سے ہمارا دیرینہ خواب محفوظ اور مستحکم پاکستان آج ایک حقیقت ہے۔ آپ کی شاندار اعلیٰ کامیابی پر پوری قوم فخر کرنے میں حق بجانب ہے۔ پاکستان اور پاکستان سے باہر ہر جگہ ‘ پاکستان کا سر بلند ہے‘ بہت کچھ ہم نے حاصل کر لیا ہے‘ تاہم ابھی بہت کچھ باقی ہے‘ جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی مضبوط اور متحرک قیادت میں پاکستان مستقبل میں اپنی ایٹمی صلاحیت میں مزید بہتری لائے گا اور میزائل کے میدان میں بھی اپنی مہارت میں اضافہ کرے گا جو ہمارے ملک کو مضبوط تر بنانے میں کئی گنا اضافہ کا باعث ہو گا۔ میں اپنی حکومت اور پوری قوم کی طرف سے آپ کو اور آپ کی ٹیم کو نہایت مخلصانہ مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں دل کی گہرائی سے اس بہترین کارکردگی پر آپ سب کو تحسین پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی آئندہ تمام کاوشوں میں کامیاب فرمائے۔ آپ کا مخلص محمد نوازشریف چیف آف آرمی اسٹاف۔ جنرل جہانگیر کرامت (تاریخ 4جون 1998ء) ڈیئر اے کیو خان 28مئی اور 30 مئی 1998ء کو ہمارے ایٹمی دھماکوں نے ہماری تاریخ کو نیا رخ اور نئی شناخت عطا کی۔ یہ تاریخی طور پر حاصل ہونے والی سربلندی ہمارے کئی اداروں کے ممبران کی خاموش اور تندہی کے ساتھ سالہا سال کی جدوجہد کا ثمر ہے۔ سخت اور بے رحم حالات کے باوجود آپ کے ہر ممبر نے پوری ذمہ داری کے ساتھ انتہائی خلوص‘ ولولہ اور عزم مصمم کا مظاہرہ کیا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ عظیم کامیابی اپنے کام کو جوش جذبہ کے ساتھ انجام دیئے بغیر‘ جو اب ہماری تاریخ کا حصہ ہے‘ ممکن نہیں تھی۔ اس تاریخی کامیابی پر آپ فخر کرنے میں حق بجانب ہیں۔ براہ مہربانی اس تاریخی کامیابی پر میری دلی مبارکباد قبول فرمائیں۔ مجھے خوشی ہو گی اگر میرے یہ احساسات آپ اپنی ٹیم کے ہر ممبر کو پہنچا دیں۔ بہترین خواہشات کے ساتھ آپ کا مخلص۔ جنرل جہانگیر کرامت پاکستان کے ایٹمی دھماکوںکے حوالے سے جو دو شخصیات خصوصی اہمیت رکھتی ہیں اور تمام معاملات سے پوری طرح باخبر تھیں‘ ان دونوں کے مکتوب میں نے قارئین کے سامنے پیش کر دیئے ہیں۔ ان میں ایسی کوئی بات نہیں‘ جس کا میں اعتراف نہیں کرتا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لئے ڈاکٹر صاحب کی خدمات اور کنٹری بیوشن‘ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مجھے یہ لکھنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہو رہی کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام‘ جو خدا کے فضل و کرم سے تن آور درخت بن چکا ہے‘ اس کا بیج ڈاکٹر صاحب نے مہیا کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ اعزاز ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ اصل خرابی وہاں سے پیدا ہوئی‘ جب چند پیشہ ور قصیدہ نگاروں نے ڈاکٹر صاحب کا بت تراشنے کی کوشش کی اور اس میں روایتی طور سے خوب مبالغہ آرائی کی۔ میرے نزدیک اس طرح کی تحسین خود ممدوح کو نقصان پہنچاتی ہے۔ پرویزمشرف نے ڈاکٹر صاحب کو جس اذیت سے دوچار کیا‘ پوری قوم کی طرح مجھے بھی اس کا دکھ ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ طاقتوروں کے ایک ٹولے نے ‘ ڈاکٹرصاحب کو قربانی کا بکرا بنا کر‘ اپنے گناہوں کو چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ لیکن دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ ایٹمی کاروبار جیسے خطرناک کام کو انجام دینا ڈاکٹر صاحب کے بس کی بات نہیں تھی۔ میں اس معاملے میں انہیں مظلوم سمجھتا ہوں۔ میرے جن دو کالموں کا حوالہ دیا گیا ہے‘ میں نے ان میں بھی ڈاکٹر صاحب کے حقیقی اعزازسے انکار نہیں کیا۔ صرف ایٹم بم تیار کرنے والی اس ٹیم کی کنٹری بیوشن کو ریکارڈ پر لایا ہوں‘ جو اس کا حق تھا اور جسے ڈاکٹر صاحب کے قصیدہ نگار ہمیشہ نظراندازکرتے ہیں۔ جن واقعات کا میں نے ذکر کیا‘ ان میں سے ایک کی تصدیق کالم شائع ہونے کے بعد خود نوازشریف نے ہمارے ایک ساتھی کے سامنے کی۔میں نہیں چاہتا کہ اس موضوع پر مزید بحث کی جائے۔ میں ایک بار پھر ڈاکٹر صاحب کی عظیم خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے‘ یہ بحث ختم کر رہا ہوں۔ میری کسی تحریری کوتاہی سے‘ نادانستہ ڈاکٹر صاحب کی دل آزاری ہوئی ہو‘ تو اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ڈاکٹر صاحب نے مجھے تحفے کے طور پر جو بیش قدر کتابیں بھیجی ہیں اس کے لیے میں ان کا مشکور ہوں۔