"NNC" (space) message & send to 7575

ھوپ لیس HOPELESS

ایک صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ موقع بموقع دھمکی دینے سے گریز نہیں کرتے تھے اور کسی دھمکی پر عملدرآمد سے مسلسل گریز کر جاتے ۔ مثلاً اگر کسی نے انہیں برا بھلا کہہ دیا‘ تو وہ دھمکی دیتے ’’اب کے تو نے ایسی بات کی‘ تو تیرا حلیہ بگاڑ دوں گا۔‘‘ بات آئی گئی ہو جاتی۔ اگلی بار اسی شخص نے غصے میں آ کر اگر دھکا دیا‘ تو ذرا دور ہٹ کے کہتے’’اب کی بار تو نے گستاخی کی تو تیرا بہت برا انجام ہو گا۔‘‘تھوڑے دنوں بعد تکرار ہونے پر کوئی صاحب طمانچہ جما دیتے‘ تو اپنا گال سہلاتے ہوئے دھاڑتے ’’اب کی بار تو نے ایسی ہمت کی‘ تو تیرے دانت توڑ دوں گا۔‘‘ ان کی یہ دھمکیاں وقت کے ساتھ ساتھ لطیفہ بن کے رہ گئیں۔ کوئی ان کی دھمکی سے نہیں ڈرتا تھا۔ لیکن وہ دھمکیاں دینے سے کبھی نہیں چوکے۔ ایسا ہی کچھ ہمارے نئے قومی لیڈر عمران خان کر رہے ہیں۔ جب عام انتخابات ہونے والے تھے‘ تو خان صاحب نے ہیجان برپا کر دیا تھا۔ انہوں نے تمام حریفوں کو دھمکی دی تھی کہ ہمارے سینکڑوں رضاکار پولنگ اسٹیشنز کی کڑی نگرانی کریں گے اور جہاں بھی دھاندلی ہوتی نظر آئی‘ وہاں خرابی کرنے والوں کے کچومر نکال دیں گے۔ پولنگ کا دن آیا‘ تو خان صاحب کے تمام حریف امیدوار کانپ رہے تھے اور اپنے کارکنوں سے کہہ رہے تھے تحریک انصاف والوں سے ڈرتے رہنا۔ وہ بڑی تیاریاں کر کے آ رہے ہیں۔ دوپہر تک ’’بہرام آرہا ہے‘ بہرام آ رہا ہے‘‘ کی کیفیت تھی۔ پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹروں کے ہجوم تھے اور امیدواروں کے کارندے سہمے ہوئے تھے۔ بہرام کا قصہ یہ ہے کہ لاہور میں پنجابی کی ایک فلم بنی تھی جس کا تذکرہ میں اکثر کرتا رہتا ہوں۔ ان دنوں فلموں کی زیادہ پبلسٹی ریڈیو پر ہوا کرتی تھی اور ریڈیو گلی گلی‘ بازار بازار گونجاکرتا تھا۔ فلم بہرام کی پبلسٹی میں یہ الفاظ تکرار سے گھن گرج کے ساتھ بولے جاتے تھے ’’کھڑکیاں دروازے بند کر لو‘ بہرام آ رہا ہے۔‘‘ یہ الفاظ اتنی مرتبہ دہرائے گئے کہ فلم کی ریلیز کے دن شائقین پورے شہر سے امڈ پڑے۔ لوگوں نے دھکم پیل کا مقابلہ کرتے ہوئے ٹکٹ خریدے اور سینما ہال کے اندر چلے گئے۔ ان دنوں فلم ایک ہی سینما میں ریلیز ہوا کرتی تھی۔ فلم کا پہلا شو ختم ہوا‘ تو ہال سے باہر نکلنے والے آوازیں لگا رہے تھے ’’کھڑکیاں دروازے کھول لو، بہرام چلا گیا‘‘۔ یہی حال دوپہر کے بعد پولنگ اسٹیشنوں پر ہو گیا۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ تحریک انصاف کے جری اور تنومند رضاکار کہیں دکھائی نہیں دے رہے‘ تو جس سے جو بن پڑا ‘ اس نے کر دکھایا۔عمران خان فیصلہ کن اکثریت سے کامیاب ہونے کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ جب نتائج آئے‘ تو لیڈر سمیت پارٹی کی ساری قیادت حیران رہ گئی۔ انہیں ووٹ واقعی بہت ملے تھے۔ مگر اس نسبت سے اسمبلیوں کی نشستیں نہ مل پائیں۔ پھر بھی ایک صوبائی حکومت بہرحال جماعت اسلامی کی مہربانی سے بن گئی اور قومی اسمبلی میں اچھی خاصی نشستیں ہاتھ آئیں۔ اس کے بعد ایک نئی دھمکی منڈی میں آئی۔ جو یہ تھی کہ خان صاحب کو صحت مند ہو کر قومی اسمبلی میں آنے دو‘ پھر دیکھنا وہ کیا کرتے ہیں؟ حکومتی اراکین خوفزدہ ہو گئے۔ کھچا کھچ بھری ہوئی پریس گیلری میں بیٹھے میڈیا کے نمائندے دھڑکتے دلوں کے ساتھ خان صاحب کی متوقع گھن گرج کے منتظر تھے۔ خان صاحب نے مائیک سنبھالا۔ تقریر ہو گئی اور بہرام چلا گیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ایک بھی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا‘ جس سے حزب اقتدار کو ڈر لگا ہو۔ تقریر ختم ہو گئی۔ حزب اختلاف والوں کے چہرے لٹک گئے۔ حزب اقتدار والوں کے چہرے کھل اٹھے اور خان صاحب کی تقریر سے اسمبلی کے اندر اور باہر بیٹھے ہوئے جتنے لوگ گھبرائے ہوئے تھے‘ سب کی جان میں جان آ گئی۔ خان صاحب نے انتخابی نتائج پر پہلے ہی دن شکوک کا اظہار کر دیا تھا اور فرمایا تھا کہ وہ شدید احتجاج کریں گے۔ اس کی نوبت نہیں آئی۔ البتہ انہوں نے 25نشستوں پر دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کر کے دھمکی دے دی کہ اگر یہ مطالبہ نہ مانا گیا‘ تو وہ شدید احتجاج کریں گے۔ مطالبہ ابھی تک نہیں مانا گیا۔ احتجاج ابھی تک نہیں ہوا۔ مگر جن لوگوں کو ہم کہتے تھے کہ خان صاحب کے احتجاج سے ڈرو‘ وہ ہنستے ہوئے جواب دیتے ’’کون سا احتجاج؟ جو حلقہ این اے 125 میں مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف ہوا تھا؟ اور کئی دن چلا تھا۔ ایسے وی آئی پی احتجاج سے حکومتوں کا کچھ نہیں بگڑا کرتا۔‘‘ لوگوں کی بات کا جواب دینا واقعی آسان نہیں۔ کیونکہ تحریک والوں نے ایک حلقے میں احتجاج کا جو نمونہ پیش کیا‘ اسے دیکھ کر تحریک والوں کی بجائے خواجہ سعد رفیق کے حامیوں کے حوصلے بڑھ گئے۔ اب احتجاج کی دھمکی سے مسلم لیگ (ن) والے تو نہیں ڈریں گے۔ ہو سکتا ہے وہ دل میں دعائیں مانگ رہے ہوں کہ خان صاحب کارکنوں کو سڑکوں پر نکالنے کی دھمکی کا وعدہ نبھائیں تاکہ ان کی حکومت مزید مضبوط ہو۔ سیاست میں نوازشریف ہمیشہ خوش قسمت رہے ہیں۔ اگر ان کی کامیابیوں کی پوری داستان کھولی جائے‘ تو پتہ چلتا ہے کہ نوازشریف کی ہر کامیابی میں‘ ان کی کوششوں سے زیادہ مخالفوںکا دخل ہے۔ حالیہ انتخابات میں انہیں خود اتنی بڑی کامیابی کا یقین نہیں تھا۔ لیکن پیپلزپارٹی کے حکومتی اراکین نے اپنے ووٹروں کو اس قدر نالاں کر دیا تھا کہ یا تو وہ ووٹ ڈالنے ہی نہیں گئے اور جو گئے‘ انہوں نے غصے میں مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دے دیئے۔ کامیاب نوازشریف ہو گئے۔ آج صدر کا انتخاب ہو رہا ہے‘ جو محض ایک رسمی کارروائی رہ گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے امیدوار رضا ربانی اور ان کے ساتھی اعتزاز احسن نے‘ بعض بڑے بڑے نعرے لگا کر گرماگرمی پیدا کر دی تھی اور ایسا ماحول بننے لگا تھا ‘ جس سے ن لیگ والے بھی پریشان ہو گئے۔ وہ خود کوئی بڑا معرکہ نہیں مار سکے تھے لیکن عمران خان نے کراچی میں ایم کیو ایم پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا تھا۔ انتخابی نتائج سے ظاہر ہو گیا کہ عمران خان کراچی میں زور پکڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف لندن میں ہونے والی تفتیش کی وجہ سے تشویش پیدا ہونے لگی اور اندیشہ ہوا کہ عمران خان وہاں بھی کوئی کام نہ دکھا دیں۔ دبائو میں آئی ہوئی ایم کیو ایم کو مسلم لیگ (ن) کی طرف دیکھنا پڑا۔ صدارتی انتخاب میں‘ جن ووٹوں کی نوازشریف کو ذرا بھی امید نہیں تھی‘ وہ آسانی سے ان کی جھولی میں آ گرے اور انہیںبیٹھے بٹھائے کامیابی کی نوید مل گئی۔ میں تو یہی سمجھوں گا کہ خان صاحب نے ایم کیو ایم کو دبائو میں لا کر نوازشریف کا راستہ صاحب کر دیا۔ پیپلزپارٹی کا بائیکاٹ محض رسمی کارروائی ہے‘ اصل کام خان صاحب نے کر دیا۔ عمران خان گزشتہ دور حکومت میں نوازشریف کو مسلسل طعنہ دیا کرتے تھے کہ وہ فرینڈلی اپوزیشن ہیں۔ جبکہ نوازشریف اپنی گھات میں بیٹھے تھے کہ صدر زرداری کے ساتھیوں کو کھل کھیلنے کا جتنا بھی موقع دیا جائے گا‘ وہ ن لیگ کا راستہ ہموار کریں گے۔ وہ فرینڈلی اپوزیشن نہیں تھے۔ اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے زرداری حکومت کو تھکا رہے تھے۔ جیسے سردار جی اپنی بنیان گھما گھما کے جوئیںتھکا رہے تھے۔سردار جی کو بنیان گھماتے دیکھ کر‘ جب کسی نے پوچھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ تو ان کا جواب تھا کہ ’’میں جوئوںکو تھکا تھکا کے مار رہا ہوں۔‘‘نوازشریف بھی زرداری حکومت کو پورے 5سال دلوا کر اس قدر تھکا دینا چاہتے تھے کہ ان کے ساتھیوں میں الیکشن لڑنے کی سکت باقی نہ رہے۔ ان کا اندازہ درست نکلا۔ انتخابی مقابلے میں پیپلزپارٹی کی جوئیںتھک کے نڈھال ہو چکی تھیں۔ سندھ میں بھٹو اور بے نظیر کے شیدائی وفا کا رشتہ نہ نبھاتے‘ تو پارٹی کی حکومتی کارکردگی نے مکمل شکست کے پورے انتظامات کر دیئے تھے۔ نوازشریف کے مقابلے میں صرف عمران خان رہ گئے ہیںاور ان کی اب تک کی کارکردگی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ بالکل ہی رہ گئے ہیں۔ سچی بات ہے ‘ نوازشریف اور عمران خان کا مقابلہ‘ نوازشریف اور زرداری کے مقابلے سے بھی زیادہ فرینڈلی ہو گا۔پتہ نہیں کیوں؟ ایک فضول سا لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک نوجوان سپاہی کو گھر سے تار آیا اور وہ اسے لے کر اپنے افسر کے پاس چھٹی مانگنے پہنچ گیا۔ افسر نے تار کا مضمون پڑھا تو کاغذ پر کچھ لکھ کر دیتے ہوئے کہا ’’تم جواب میں میری طرف سے باپ کو یہ تار بھیج دو۔‘‘ سپاہی کو گھر سے آئے ہوئے تار میں باپ کی بیماری کی اطلاع دی گئی تھی۔ الفاظ تھے \\\"Your Father is Hopeless.\\\" افسر کے جواب میں لکھا تھا \\\"Your Son Is Equally Hopeless.\\\"

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں