"NNC" (space) message & send to 7575

جان کیری کا دورہ

امریکہ کے سیکرٹری خارجہ جان کیری ‘پہلے امریکی اعلیٰ عہدیدار ہیں‘ جو نئی حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان کے دورے پر آئے۔ پاکستان اور امریکہ کے مابین باہمی شکایات اور تلخیوں کا سلسلہ تو بہت پرانا ہے مگر باہمی مذاکرات میں‘ خلل اس وقت پڑا‘ جب ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ہوا‘ جو سی آئی اے کا ایجنٹ تھا اور جس نے دو پاکستانیوں کو سرعام گولیاں مار کے ہلاک کر دیا۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر پاکستان کے اندر شدید احتجاج ہوا اور آخر کار امریکہ اسے ایک خفیہ ڈیل کے نتیجے میں واپس لے گیا۔ اس کے بعدایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف فوجی آپریشن کر کے‘ اسے ہلاک کیا گیا۔ پاکستان نے اسے اپنی آزادی اور خودمختاری پر حملہ تصور کرتے ہوئے‘ شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اسی وقت سے باہمی تعلقات میں سردمہری چل رہی ہے۔ باہمی تعلقات کو آخری دھچکا اس وقت لگا‘ جب سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کر کے 24 پاکستانی جوانوںاور افسروں کو شہید کیا گیا۔ نوازشریف اپنے سیاسی فکر و فلسفے اور سوچ کے اعتبار سے ‘ قومی آزادی و خودمختاری کے معاملے میں زیادہ حساس ہیں۔ امریکی انتظامیہ یقینی طور پر ان سے زیادہ توقعات نہیں رکھتی۔ لیکن ایک سپرپاور کی حیثیت سے اور دیرینہ اتحادی ہونے کی بنا پر‘ سفارتی اعتبار سے لازم تھا کہ امریکہ پاکستان کی نئی انتظامیہ کے ساتھ اعلیٰ سطحی رابطہ قائم کر کے‘ ان سوالوں پر ازسرنو مذاکرات شروع کرے‘ جو دونوں ملکوں کے درمیان دوریوں کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ حسب توقع جان کیری کو پاکستان میں ڈرون حملوں کی وجہ سے ہر جگہ سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا اور یوں لگتا ہے کہ وہ کوئی واضح پالیسی لے کر نہیں آئے تھے۔ انہیں جگہ جگہ مختلف بیانات دینا پڑے۔ کہیں انہوں نے کہا کہ ’’ڈرون حملے بند کرنے کا ایک واضح ٹائم ٹیبل ہے۔ وقت آنے پر انہیں بند کر دیا جائے گا۔‘‘ کہیں کہا ’’جب تک دہشت گردی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی‘ ڈرون حملے بند نہیں کئے جا سکتے۔‘‘ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ پاکستانیوں کے جذبات میں شدت دیکھ کر‘ اصل پیغام دینے کے لئے موزوں الفاظ تلاش کرنے میں دقت محسوس کر رہے تھے۔ امریکی حکومت نے حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوششوں سے فوراً ہی لاتعلقی ظاہر کر دی۔ ڈرون حملوں پر ان کے پہلے الجھے ہوئے جواب کے صرف تین گھنٹے بعد‘ واشنگٹن میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان نے واضح بیان دے دیا ’’ایسا کوئی راستہ نہیں کہ ہم اپنی سلامتی کو لاحق خطرات کا جواب دینے کے لئے دستیاب ہتھیاروں کو استعمال نہ کریں‘ جب خطرہ سامنے ہو۔‘‘ صدر اوباما نے کچھ عرصہ پہلے اپنے پالیسی بیان میں صاف طور سے کہا تھا کہ ’’دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کی مربوط کوششیں اس وقت تک جاری رہیں گی‘ جب تک ہم اپنا مقصد حاصل نہیں کر لیتے۔‘‘ ڈرون حملوں کے بارے میں پاکستان اور امریکہ دونوں کے موقف میں بہت تضاد ہے اور اس سوال پر اتفاق رائے صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب امریکہ کے لئے ڈرون ہتھیاروں کا استعمال غیرضروری ہو جائے۔ پاکستان کو اس وقت تک اپنا مطالبہ پورا ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ہو سکتا ہے ڈرون حملوں کی ضرورت ختم کرنے میں پاکستان آگے بڑھ کر موثر کردار ادا کرنے لگے‘ تو ڈرون حملوں سے نجات مل جائے۔ لیکن یہ ایک طویل راستے کا سفر ہے۔ ہمارے ہاں جو یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ امریکہ افغانستان سے شکست کھا کر بھاگ رہا ہے‘ جان کیری نے واضح الفاظ میں اس کی تردید کر دی۔ انہوں نے کہا کہ’’ امریکہ افغانستان سے اپنی تمام فوج واپس نہیں بلائے گا۔‘‘ انہوں نے اس خیال کی تردید کی کہ ’’ہم افغانستان سے واپس چلے جائیں گے۔ ہم صرف اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی لا رہے ہیں اور ہمارے بہت سے اتحادی بھی ایساہی کریں گے۔ ہم مکمل طور سے افغانستان سے واپس نہیں جا رہے۔ وہاں امن قائم رکھنے کے لئے جتنی فوج کی ضرورت پڑے گی وہ افغانستان میں موجود رہے گی اور مقامی فوج کی مدد اور رہنمائی کے فرائض انجام دیتی رہے گی۔‘‘ رینڈ کارپوریشن کے ایک سینئر تجزیہ نگار کرسٹین فیئر نے تو صاف کہہ دیا کہ ’’میرے لئے اس دورے کی اہمیت یہ ہے کہ جان کیری نے پاکستان کے نئے وزیراعظم اور صدر سے ملاقات کی۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔‘‘ ان کے بقول ’’اس دورے کی اہمیت محض پاکستان کے نئے حکمرانوں سے ملاقات تک ہی محدود ہے۔ دونوں ملکوں کے مسائل بہت گہرے ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ پاکستان کے مبینہ روابط جیسے مسائل بہت پیچیدہ ہیں۔ امریکہ پاکستان سے توقع رکھتا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی خاطر وہ منصفانہ کردار ادا کرے۔ پاکستان آئی ایم ایف سے تعاون حاصل کرنے کے لئے بھی امریکہ کا تعاون چاہے گا۔ ‘‘ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجک ڈائیلاگ کے سلسلے شروع ہونے کی خبر پر کرسٹین فیئر نے کہا ’’ماضی میں یہ ڈائیلاگ کبھی کامیاب نہیں ہوئے۔ اس دفعہ بھی کوئی فوری امید نہیں۔ ماضی میں دونوں ملکوں نے سٹریٹجک ڈائیلاگ میں اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر ہی بات کی۔ سٹریٹجک ڈائیلاگ تب آگے بڑھتا ہے‘ جب دونوں فریقوں کے سٹریٹجک مفادات ایک جیسے ہوں۔ ایک مشترکہ نقطہ نظر ہو اور اس وقت ایسا نہیں ہے۔‘‘ جان کیری کو جہاں موقع ملا ‘ انہوں نے اپنی بات کھلے الفاظ میں کہنے کی پوری کوشش کی۔ مثلاً سٹریٹجک ڈائیلاگ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’’یہ دوبارہ شروع ہونے جا رہے ہیں لیکن یہ نتیجہ خیز اسی وقت ہو سکتے ہیں‘ جب دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کر دی جائیں۔‘‘بے شک 6ماہ کے بعد سٹریٹجک ڈائیلاگ شروع ہونے کی خبر دی گئی ہے اوران 6مہینوں کے دوران دونوں فریقوں نے ایجنڈے کی تیاری کے لئے کمیٹیاں بھی بنا دی ہیں۔ لیکن اصل بریک تھرو ستمبر سے پہلے نہیں ہو سکتا‘ جب وزیراعظم نوازشریف‘ صدر اوباما کی دعوت پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد باضابطہ سرکاری دورہ بھی کریں گے۔ گویا اگلے مہینے میں فیصلہ ہو جائے گا کہ پاکستان کی نئی حکومت اور امریکہ نئے تعلقات استوار کرنے کا راستہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا جو رکاوٹیں گزشتہ 2سال کے دوران پیدا ہوتی رہیں‘ انہیں دور کرنے کے لئے زیادہ وقت درکار ہو گا؟ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے‘ جب دو پرانے اتحادیوں کے مابین غلط فہمیاں اور باہمی بد اعتمادی پیدا ہو جائے‘ تو صرف صلح کے امکانات کو ہی نہیں آزمایا جاتا ‘ دوسرے راستوں کی تلاش بھی جاری رہتی ہے۔ یعنی اگر مذاکرات کے ذریعے مقاصد حاصل نہ ہوں‘ تو دوسرے طریقے کیا ہیں؟ امریکہ کے بارے میں سوچتے ہوئے‘ ہمارے لئے دوسرے طریقے ڈھونڈنا مشکل نہیں ہو گا۔ پاکستان کے امورپر گرفت رکھنے والی ساری طاقتوں کو امریکہ اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ کئی مرتبہ ہمارے ملک میں فوجی آمروں کو مسلط کر کے‘ ان کے ذریعے اپنے کام نکالتا رہاہے اور اسے ہمارے قومی وسائل کو استعمال کرنے کے لئے معمولی وسائل سے کام چلانے کی عادت پڑ چکی ہے۔ ہمارے چار فوجی آمروں نے جتنی آسانی سے امریکہ کے مفادات کو آگے بڑھایا ‘ وہ دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں‘ تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ان آمروں نے ہر مرتبہ ملکی مفادات کی قیمت پر اپنے امریکی سرپرستوں کے مقاصد پورے کئے۔ نتیجے میں آج پاکستان کی جو حالت ہے‘ اسے دیکھ کر تمام دردناک کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اب پاکستانی ریاست کے سارے سٹیک ہولڈر حقائق کا ادراک کر چکے ہوں گے اور امریکیوں کے طور طریقوں سے بھی واقف ہو گئے ہوں گے۔ مجھے تو یہی امید ہے کہ اس بارکوئی پرانی کہانی دہرائی نہیں جا سکے گی۔ جب جان کیری سے مصر میں امریکیوں کے کردار کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ ’’مصر میں منتخب حکومت کے خلاف فوجیوں کو مداخلت کی ترغیب کیوں دی گئی؟‘‘ تو ان کا جواب تھا’’وہ (جنرلز)لاکھوں عوام کے جمہوریت کے حق میں مظاہروں کو دیکھ کر حرکت میں آئے۔ درحقیقت وہ جمہوریت ‘بحال کرنے آئے ہیں۔‘‘ کم از کم ہم پاکستانیوں کو ان الفاظ کا مطلب سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں